سندھ کی نئی حکومت اور گورنس کا چیلنج

سندھ کی نئی حکومت اور گورنس کا چیلنج


تحریر: زینب وحید
گورنر ہاؤس کراچی تالیوں سے گونج رہا ہے، سید مراد علی شاہ تیسری بار وزات اعلیٰ کا حلف اٹھا رہے ہیں جو نوجوان سیاستدان بلاول بھٹو زرداری کے اُن پرغیرمتزلزل اعتماد کے اظہار کا عکاس ہے۔ پارٹی چیئرمین کا چہرہ فاتحانہ دور شروع ہونے کے احساس سے سرشار ہے اور ساتھ والی کرسی پر بیٹھی اُن کی پھوپھی فریال تالپور کا شہرہ بھی اپنی نئی حکومت بنتی دیکھ کر مسرت سے دمک رہا ہے۔ تمام ٹی وی چینلز پر بیک وقت جئے بھٹو کے نعروں کی آواز گونج رہی ہے ۔
ایک طالبعلم کی حیثیت سے میں اس جمہوری سفر کو دیکھ کر خوش تو ہوں، لیکن خدشات ہیں کہ میرا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہے۔ ایسے وقت میں جب پارلیمانی سیاست میں بلاول بھٹو نے ایک ہی جست میں کئی میل فاصلہ طے کر کے وفاق میں مضبوط قدم جمائے ہیں، سندھ اور خاص طور پر کراچی و حیدرآباد کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے۔
سوشل میڈیا کے طوفانی دور میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت عموماً تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ اندرون سندھ اسکولوں میں جانور بندھے ہونے اور نہروں پر پل نہ ہونے کے باعث میت کندھوں پر اٹھانے کی ویڈیوز بھی میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں، لیکن زیادہ تنقید دو ہزار بائیس میں ماحولیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے تباہ کن سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد ہوئی ۔ اگرچہ کچھ تنقید بے جا تھی کیونکہ اتنے بڑے پیمانے پر تباہی کے بعد حالات کو سنبھالنا بلاشبہ بڑا چیلنج تھا۔ سیلابی صورتحال کے باعث 20 اضلاع میں تقریباً 20 لاکھ سے زائد گھر مکمل یا جزوی طور پر متاثر اور 73 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ سندھ پیپلز ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے مطابق 14 لاکھ مکمل منہدم گھروں میں سے اس وقت صرف ساڑھے 71 ہزار گھروں کی مکمل تعمیر ممکن ہوسکی ہے۔ پانچ فیصد گھر مکمل ہو چکے ہیں جبکہ باقی تعمیر کے مراحل میں ہیں۔ سندھ حکومت نے فی گھر تین لاکھ روپے پیکج بھی دیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے طرز حکمرانی اور گورننس پر تنقید سیلاب کے بعد بحالی کی صورتحال تک محدود نہیں بلکہ تعلیم، صحت، ٹرانسپورٹ اور امن و امان سمیت ہر شعبہ اس کی زد میں رہا ہے۔ پاکستان اکنامک سروے کے مطابق سندھ میں 44 فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ پاکستان ایمرجنسی فوڈ سیکیورٹی الائنس کے مطابق سندھ میں پانچ سال سے کم عمر پچاس فیصد بچے غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔ یہ اعداد و شمار اپنی جگہ، لیکن بلاول بھٹو زرداری صحت کے شعبے میں کافی پیشرفت اور ترقی پر کافی مطمئن نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی گمبٹ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، این آئی سی وی ڈی اور ایس آئی یو ٹی کا ذکر کرتے رہے ہیں۔ حکام کا دعویٰ ہے کہ دل کی سرجری ہو یا نیورو سرجری، لیور ٹرانسپلانٹ ہو یا گردے کا ٹرانسپلانٹ، یہ سب سہولیات گمبٹ میں موجود ہیں۔ بلاول بھٹو اپنے انٹرویو میں بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ دیگر صوبوں اور حتیٰ کہ افغانستان سے بھی لوگ علاج کے لئے سندھ آتے ہیں۔ تھر میں غذائی قلت سے بچوں کی اموات کافی کم ہو چکی ہیں اور انفراسٹرکچر بھی کافی اچھا بنا دیا گیا ہے۔ آزاد ماہرین کا خیال ہے کہ صرف گمبٹ، این آئی سی وی ڈی اور ایس آئی یو ٹی کی مثالوں سے عوام مطمئن نہیں ہوں گے بلکہ ہر ضلعی اسپتال سمیت لاڑکانہ کے چانڈکا، نوابشاہ کے پی ایم سی سے لیکر جام شورو کے ایل ایم سی تک میں صورتحال بہتر بنانا ہو گی۔
الیکشن سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ’چنو نئی سوچ‘ کےنام سے انتخابی منشور جاری کیا۔ اُن کے 10 نکاتی منشور میں دو نوجوانوں اور ایک تعلیم سے متعلق تھا۔ یکساں معیاری تعلیم کے منصوبے، یوتھ کارڈ کے ذریعے نوجوانوں کی مدد اور تمام ڈویژنز میں یوتھ سینٹرز کا قیام بھی منشور کے نکات ہیں۔ پلان کے تحت ہر ضلع میں گرین انرجی کے نام پر پارک بنے گا، ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی قائم کی جائے گی۔
سندھ واحد صوبہ ہے جہاں اس وقت بلدیاتی نظام قائم ہے۔ مرتضیٰ وہاب کراچی کے میئر ہیں۔ اُن کی خوبی یہ ہے کہ شہر میں جہاں بھی کوئی ترقیاقی کام ہو یا اچھی تصویر یا ویڈیو انہیں میسر ہو، وہ فوری طور پر ٹویٹ کر دیتے ہیں، لیکن ماحولیاتی تبدیلی کےباعث بدلتے موسمی حالات ریزلینٹ سٹی جیسے جدید تصور کا تقاضہ کرتے ہیں۔ یعنی یہ شہر زیادہ اقدامات، کوشش اور ویژن کا متقاضی ہے۔ جناب مراد علی شاہ کو ایک نئے ویژن کے تحت کراچی کو ریزلینٹ سٹی بنانے کیلئے خود اقدامات کرنا ہوں گے۔ یہاں یہ کہنا بے جا نہیں کہ یپپلز پارٹی خوش قسمت ہے شیری رحمان صاحبہ جیسی وائربنٹ خاتون رہنما وہاں موجود ہیں۔ نگران سیٹ اپ میں وزیر ماحولیات کے طور پر انہوں نے کلائمٹ چینج کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ نہایت اچھے انداز میں پیش کیا ہے۔ خود بلاول بھٹو بھی کلائمٹ چینج کا بہت اچھا ادراک رکھتے ہیں اور انہوں نے کئی انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر اپنا موقف بھی نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ اب چونکہ پیپلز پارٹی وفاق میں وزارتیں تو نہیں لے رہی، اس لئے تجویز تو یہ ہو گی کہ شیری رحمان کی نگرانی میں کراچی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کیلئے خصوصی اینی شیٹیو لیا جائے۔ کلائمٹ چینج کے بڑھتے ہوئے خطرات کے باعث دنیا بھر میں ساحلی شہروں کا انفراسٹرکچر بہتر بنایا جا رہا ہے، اس لئے سی ایم کو بھی ماڈرن لائنز پر سوچنا ہو گا۔ لوکل باڈیز کو بااختیار بنانا پڑے گا اور انتظامی و مالی خود مختاری دینا ہوگی کیونکہ عوام پینے کے پانی، سڑکوں، سیلاب کی تباہ کاریوں پر اٹھنے والے سوالات کا جواب چاہتے ہیں۔
جس دوسرے شعبے کی طرف مراد علی شاہ صاحب کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ تعلیم ہے۔ حال ہی میں میٹرک بورڈ کے نتائج میں تبدیلی کا اسکینڈل مجھے بہت دکھی کر گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ کیسے ممکن ہے کہ پوری امتحانی ٹیم 2023 میں میٹرک کے امتحانات میں سیکڑوں بچوں کے مبینہ طور پر نتائج تبدیل کر کے ایک جیسے نمبرز دینے کے اسکینڈل میں ملوث تھی۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔ جامع پلان کے تحت ایجوکیشن سیکٹر پر توجہ دینا ہو گی۔ امتحانات میں نقل مکمل روک کر اس کی ساکھ بحال کرنا ہو گی۔ پرائمری اور سیکنڈری سطح پر تعلیمی نظام میں کچھ اصلاحات ضرور کی گئی ہیں لیکن اب بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔
پیپلز پارٹی کو گورننس کے معاملے میں جو دیگر چیلنجز ضرور درپیش ہیں اُن میں سرفہرست امن و امان کے مسائل ہیں۔ شمالی سندھ کے اضلاع میں ڈاکوؤں کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ اور کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کے مسائل وہ ایشوز ہیں کا قلع قمع کیا جائے ۔کراچی میں پانی کی کمی دور کرنا اور شہریوں کو ٹینکر مافیا سے چھٹکارا دلانا بھی جیالوں کے لئے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی وجہ سے سمجھا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی خواتین کے حقوق کے تحفظ کیلئے سب سے زیادہ کام کرتی ہے۔ اس لئے خواتین اور طالبات کو امید ہے کہ انہیں تحفظ اور سہولیات دینے کے لئے پی پی زیادہ موثر انداز میں کام کرے گی۔
خواتین اور طلباء کی تو بلاول بھٹو سے یہی درخواست ہے کہ کراچی میں لائی گئی بسیں شہر کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس لئے میٹرو بسوں اور خاص طور پر خواتین کیلئے پنک بسوں میں اضافہ کیا جائے۔ ٹھٹھہ، بدین اور میرو خان کے عوام کو بھی جدید ٹرانسپورٹ دیا جائے۔ وقت کے ساتھ اس بجٹ میں اضافہ ناگزیر ہے۔
سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں 2008 سے ایک ہی سیاسی جماعت یعنی پاکستان پیپلز پارٹی، برسراقتدار ہے۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً کرپشن کے الزامات اور کارکردگی پر سوالات اٹھتے رہے ہیں، لیکن الیکشن میں زبردست کامیابی نے کافی حد تک یہ الزامات دھو دیئے ہیں۔ مراد علی شاہ وفاق میں حکومتوں کےسامنے سندھ کا کیس اچھے انداز میں رکھتے تھے۔ بات کرنے اور دوسروں کو قائل کرنے کا گُر جانتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں پارٹی قیادت کا اعتماد حاصل ہے۔ حالیہ الیکشن میں سندھ میں ماضی کی نسبت زیادہ نشستیں ملنا اس بات کا غماز ہے کہ مراد علی شاہ نے بطور وزیراعلیٰ بہتر پرفارم کیا ہے۔ اپنے ویژن پر عمل کرنے کے لئے ان کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں اس لئے اب صوبے کےمسائل حل نہ ہونے میں بھی اُن کے پاس کوئی وضاحت نہیں ہو گی۔
جناب سی ایم صاحب، ایک اور درخواست، گورکھ ہِل ہمارے سندھ کا مری ہے۔ یہاں پہنچنے کےلئے راستہ محفوظ بنا دیجئے۔ سیاحوں کو تحفظ دیجئے۔ سرکاری اور پرائیوٹ ہوٹلز اور ریسٹورنٹس کو معیار بلندکیجئے۔مجھے یقین ہےکہ کراچی اورحیدرآبادکے شہری مری جانے کے بجائے گورکھ ہل کا رخ کریں کریں۔ گورکھ ہِل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کا ریونیو بڑھے گا اور صوبے کو عالمی شہرت بھی حاصل ہو گی۔ پھر وہ دن یادگار ہو جب ایک دن آپ طلوعِ آفتاب کے مسحور کُن منظر کے ساتھ آپ سیلفی شیئر کریں گے تودنیااس گمنام مقام کے بارے میں جان جائے گی۔
ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف مصنفہ
زینب وحید اے لیولزکی طالبہ،کلائمٹ چینج،سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،مصنفہ، وی لاگر اور صف اول کی مقررہ ہیں۔ وہ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 کی ونر ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی”، یورپ کے معتبر میگزین”جنرل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی” میں ان کے مضامین چھپے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں