دکھیاری مائوں کا "ممتا"کے نام مکتوب

دکھیاری مائوں کا “ممتا”کے نام مکتوب

تحریر:امجد عثمانی

شکرگڑھ کے نو منتخب درویش منش رکن قومی اسمبلی جناب انوار الحق نے سرکاری ہسپتال کے دورے پر نئی عمارت کے لیے بتیس کروڑ کی “تخمینہ رپورٹ” کے “تعاقب” کا وعدہ کیا تو وہاں کے ایک صوفی مزاج مسیحا نے حسب معمول مجھے تجویز لکھ بھیجی کہ اگر اس رقم سے چار منزلہ مینٹل اینڈ چائلڈ ہیلتھ سنٹر بنایا جائے ،جس میں ساٹھ بیڈ گائنی اور ساٹھ بیڈ پیڈیا ٹرکس کے ہوں تو شکرگڑھ کی مائیں “سکھی” ہو جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ وہی مسیحا ہیں جنہوں نے رواں سال کے پہلے مہینے جب میں نے ٹی ایچ کیو ہسپتال کی حالت زار پر قلم کشائی کی تھی تو تب بھی کچھ تجاویز ارسال کی تھیں۔۔۔شہرت سے بھاگتے ان ڈاکٹر صاحب نے سرکاری ہسپتال بارے تاریخ کے اوراق پلٹے اور بتایا تھا کہ تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال اس موجودہ جگہ پر 1962 میں منتقل ہوا تھا۔۔انہوں نے نشاندہی کی تھی کہ ہسپتال کے بیڈز کی تعداد فقط 60 ہے جب کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال نارووال اپ گریڈ ہونے کے بعد 400 بیڈز کا ایک خوبصورت ہسپتال ہے۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے تجویز دی تھی کہ ٹی ایچ کیو ہسپتال کو کم از کم 200 بیڈز کا ایک خوبصورت ہسپتال بنا کر ڈی ایچ کیو لیول کا سٹیٹس دیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے مثال دی تھی کہ ٹی ایچ کیو ہسپتال ڈسکہ قریبا پچھلی دو دہائیوں سے 170 بیڈز کا ہسپتال ہے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ ٹی ایچ کیو ہسپتال کو گنجان آباد علاقوں سے باہر نکال کر سٹیٹ آف دی آرٹ بلڈنگ بنائی جائے جبکہ موجودہ عمارت کو صرف گائنی اور بچوں کا ہسپتال بنادیا جائے۔۔۔میں نے جنوری کے پہلے ہفتے “جناب محسن نقوی کے نام دکھیاری مائوں کا خط” کے عنوان سے کالم میں لکھا تھا کہ پنجاب کے صحافی وزیر اعلی جناب محسن نقوی کا لاہور کے ہسپتالوں میں بہترین سہولتوں کے حوالے سے ایک صحافی سے “مکالمہ” سن کر مجھے مشرقی سرحد پر آخری شہر کے سرکاری ہسپتال کی “حالت زار” نے ایک بار پھر افسردہ کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جی ہاں میں شکرگرھ کے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال کی بات کررہا ہوں۔۔۔۔کچھ ہفتے پہلے میرے ایک دوست نے رات کے آخری پہر اپنی اہلیہ کے ساتھ ٹی ایچ کیو ہسپتال کے گائنی وارڈ پر دستک دی تو وہاں سے حسب معمول جواب ملا کہ نارووال چلیں جائیں۔۔۔۔۔شام ڈھلتے ہی یہ جواب وہاں کے گائنی وارڈ کا “تکیہ کلام” سا بن چکا ہے۔۔۔۔۔شاید یہ” تکیہ کلام’ درست بھی ہے کہ جس ہسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے لیے نرسری ہی نہ ہو وہاں کون مائی کا لعل ننھی جانوں کے حوالے سے ذمہ داری لے گا ؟؟یہاں کی سیاست تو ٹھہری “بانجھ”۔۔۔سرکاری محکمے بھی “اپاہج” ہیں۔۔۔۔۔۔۔کیا محکمہ صحت نارووال کے کرتا دھرتا اس مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار نہیں؟؟اعدادوشمار کے مطابق دس لاکھ آبادی پر مشتمل تحصیل شکر گڑھ آٹھ سو دیہات پر محیط ہے۔۔۔۔۔۔۔شہر کے واحد سرکاری ہسپتال کے گائنی وارڈ میں صرف تین گائنا کالوجسٹ ہیں۔۔۔۔۔۔معلوم ہوا کہ حیران کن طور پر تمام گائنا کالوجسٹ مارننگ ڈیوٹی دیتی ہیں۔۔۔۔رات کے وقت گائنی وارڈ میں کوئی ماہر امراض زچہ بچہ دستیاب نہیں ہوتیں۔۔۔۔۔۔سنا ہے انہیں شب کو ہسپتال آتے ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی معلوم ہوا کہ ہسپتال میں صرف دس کا نرسنگ سٹاف ہے جبکہ یہاں تیس کے نرسنگ سٹاف کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ہسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے تحفظ کے لیے نرسری تک نہیں۔۔۔۔۔پتہ چلا کہ نرسری کے لیے ایک روم بھی ہے اوردو تین انکوبیٹر بھی پڑے ہیں لیکن نرسری فنکشنل نہ ہونے سے کمرے کے ساتھ ساتھ انکوبیٹر بھی ناکارہ ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔نرسری کو فنکشنل کرنے کے لیے انکوبیٹرز کی تنصیب کے ساتھ ساتھ تین ٹرینڈ نرسیں۔۔۔۔تین آیا اور تین سویپر درکار ہیں جو کوئی بڑا پراجیکٹ نہیں۔۔۔۔۔ٹی ایچ کیو کے گائنی وارڈ کی کہانی جان کر مجھے چھبیس نومبر دو ہزار بیس کو لکھی ایک “درخواست” یاد آگئی۔۔…۔۔۔ہوا یوں کہ ان دنوں کسی” مائیک بردار”اچھل کودیے نے کسی گائنا کالوجسٹ کیخلاف خبر دیدی کہ ان کی غفلت کی وجہ سے کسی زچہ بچہ کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔۔۔۔تب ان گائنا کالوجسٹ نے کسی ذریعے سے مجھے آگاہ کیا کہ ہسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے لیے نرسری ہی نہیں تو ہم کسی ایمرجنسی میں کیسے ننھی جانوں کی حفاظت کریں؟؟مجھے اس سوال نے اپیل کیا۔۔۔۔۔۔میں نے تب وہاں کے رکن پنجاب اسمبلی سے دست بستہ درخواست کی کہ یہ مسئلہ اپنے “محبوب وزیر اعلی” کے سامنے اٹھائیں۔۔۔۔۔۔۔میں نے انہیں وزیر اعلی کے نام درخواست بھی لکھ بھیجی مگر موصوف کئی اچھی باتوں کے علاوہ یہ بات بھی بھول گئے۔۔۔۔۔چار سال پہلے لکھی عرضی ملاحظہ کیجیے اور بانجھ سیاست پر چار حرف بھیجیے۔۔۔۔۔!!!!
مکرمی جناب عثمان بزدار صاحب وزیر اعلی پنجاب
جناب عالی!
گذارش ہے کہ وطن عزیز کی مشرقی سرحد پر واقع 10لاکھ آبادی پر مشتمل تحصیل شکرگڑھ کو صحت کے حوالے سے بے شمار مسائل کا سامنا ہے، جن میں ایک بڑا مسئلہ ٹی ایچ کیو ہسپتال کے گائنی وارڈ میں نو زائیدہ بچوں کے لئے نرسری کا فقدان ہے۔۔۔۔۔۔عالی جاہ!سرکاری ہسپتال میں بچوں کے لئے “ناگزیر سہولت” کی کمی کے باعث ننھے شیر خواروں کو نارروال یا لاہور ریفر کرنا پڑتا ہے،جس پر بعض اوقات ڈاکٹروں اور لواحقین کے درمیان ناخوشگوار صورتحال بھی پیدا ہوجاتی ہے جبکہ کئی نومولود بڑے شہروں کی علاج گاہوں میں پہنچنے سے پہلے ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔۔۔۔جناب عالی!ملک کے دورافتادہ سرحدی شہر کے ٹی ایچ کیو ہسپتال میں نوزائیدہ بچوں کے نرسری نہ ہونے سے روزانہ کئی ننھی جانیں سسک سسک کر جی رہی ہوتی ہیں….ازراہ کرم شہر کے واحد سرکاری ہسپتال میں ہنگامی بنیادوں پر نرسری وارڈ کے قیام کے احکامات صادر فرماکر مائوں کی گودیں اجڑنے سے بچائیں…..میں اور شکرگڑھ کے عوام آپ کے مشکور ہونگے
بوساطت:رکن پنجاب اسمبلی پی پی 55 شکرگرھ

اب کی بار شکرگرھ جانا ہوا تو کسی مجلس میں ٹی ایچ کیو ہسپتال کی حالت زار اور چار سال پہلے لکھی درخواست کا تذکرہ چھڑ گیا۔۔۔۔۔میں نے سابق رکن اسمبلی اور ان کے “محبوب وزیر اعلی” کو آڑے ہاتھوں لیا تو میرے دوست نے میری طرف “نشتر”چھوڑا کہ چلیں سابق رکن پنجاب اسمبلی نے تو اپنے محبوب وزیر اعلی تک بات نہ پہنچائی۔۔۔اب صحافیوں کے محبوب وزیر اعلی “مسند نشین” ہیں تو آپ بطور صحافی انہیں شکرگرھ کی دکھیاری مائوں کا سندیسا لکھ بھیجیے۔۔۔۔۔میں اپنے دوست کی درخواست پر چار سال پہلے لکھی درخواست کو مکتوب کا نام دیکر جناب محسن نقوی کے نام کر رہا ہوں کہ خدارا شکرگرھ کی دکھیاری مائوں کی گودیں اجڑنے سے بچائیں۔۔۔۔۔۔۔!!!
بقول شاکر شجاع آبادی
تو ڈیوا بال کے رکھ چا،ہوا جانے خدا جانے
دعا شاکر تو منگی رکھ،ہوا جانے خدا جانے

شومئی قسمت کہ اقتدار اندھا اور بہرہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔صد افسوس کہ عثمان بزدار تو ٹھہرے پس ماندہ اور عاقبت نا اندیش۔۔۔۔جدت پسند اور دور اندیش محسن نقوی کو بھی شکرگڑھ کی “دکھیاری مائوں”کے آنسو دکھائی دیے نہ ان کی سسکیاں سنائی دیں۔۔۔۔۔۔بہر حال مشرقی شہر کے نیک نام مسیحا کی تجویز پر عثمان بزدار اور محسن نقوی کے نام لکھا “غم ناک مکتوب” ایک بار پھر عنوان کی تبدیلی ساتھ پنجاب کی خاتون وزیر اعلی محترمہ مریم نواز کی خدمت میں پیش ہے کہ مائوں کے دکھ کو”ایک ممتا” سے بہتر کون سمجھ اور بانٹ سکتا ہے؟؟؟؟

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں