وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے نام ایک بیٹی کا کھلا خط

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کے نام ایک بیٹی کا کھلا خط

تحریر: زینب وحید
برف پوش چوٹیاں، جھلملاتے ا?بشار، حسین جھیلیں، وسیع جنگلات۔ دلفریب مناظر۔چار س±و سبزہ۔معدنیات کی دولت سے مالا مال۔ ہر وادی خوبصورت، دلکش اور رعنائی سے بھرپور۔ باشندے مہمان نواز اور مناظر سحر انگیز۔ یہ حسین نقشہ میرے صوبے خیبر پختونخوا کا ہے جو میری سوچوں کا محور اور میرے دل کے بہت قریب ہے۔ مجھے اپنے صوبے کی خواتین پر ناز اور مردوں کی غیرت پرفخر ہے۔ اپنے قائد سے محبت کی خاطر ا?پ کی قربانیاں اور مشکلات برداشت کرنا قابل قدر ہے۔ انہی قربانیوں کے طفیل عوام نے ا?پ کو منتخب کر کے ایوان میں بھیجا ہے۔ جتنا مشکل وقت ا?پ نے دیکھا ہے، اس کے پیش نظر میری یہ امید مزید قوی ہو گئی ہے کہ ا?پ جس جذبے سے صوبے کی خدمت کا جو جزبہ لے کر میدان میں اترے ہیں، وہ ایک رنگ لائے گا اور ا?پ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے،لیکن ایک بات کی نشاندہی بھی ضروری ہےکہ اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں مہمانوں کی گیلری سے خاتون رکن ثوبیہ شاہد کے بارے میں ریمارکس سے بہت دکھ پہنچا ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے کے دوران پی ٹی ا?ئی کارکنوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا، ا±ن کے دل اس سے دکھے ہوئے ہیں اور وہ جذباتی بھی ہیں، لیکن یہ بات سمجھنی ہو گی کہ مہذب دنیا میں خواتین کے حوالے سے ایسے رویئے قابل قبول نہیں ہیں۔
جناب علی امین گنڈاپور صاحب، تعلیم اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم، یوتھ امپاورمنٹ، نوجوانوں کی کونسلنگ، کلائمٹ چینج اور صحت و صفائی کے سنگین چیلنجز میرے دل کے قریب ترین ایشوز ہیں۔ ایک بیٹی کی حیثیت سے اسی حوالے سے چند گزارشات پیش کر رہی ہوں۔
خیبر پختونخوا زیادہ تر حسین وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل دیہی علاقہ ہے۔ میرا اپنا تعلق بھی ایبٹ ا?باد کے قریب ایک گاو¿ں سے ہے۔ خود میرے اور اس جیسے ان گنت گاو¿ں میں لڑکیوں کے ہائی اسکول، ہائر اسیکنڈری اسکول اور کالجز تو دور کی بات، لڑکوں کے لئے بھی معیاری تعلیم کا نظام نہیں۔ اسی وجہ سے لڑکیاں پرائمری کے بعد ا?گے پڑھ ہی نہیں سکتیں کیونکہ چلچلاتی دھوپ، کڑاکے کی سردی اور مون سون کے دوران برساتی نالوں کے خطرات کے پیش نظر ان ویران راستوں پر معصوم بچیوں کا گزرنا خطرے سے خالی نہیں۔ والدین بھی ان حالات میں بچیوں کو اسکول بھیجنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں اگرچہ معیار تعلیم اچھا سجھا جاتا ہے، لیکن رٹہ لگانے اور نقل کا رجحان بھی زیادہ ہے، اسی وجہ سے ٹاپ کرنے والے اسٹوڈنٹس عملی زندگی میں نمایاں نظر نہیں ا?تے۔ ان ٹاپرزکا اعتماد بحال کرنے کےلئے ا?پ کو ان طلبائ سے ملاقات کرنا ہو گی تاکہ وہ اپنے صوبے کے لئے کچھ کر سکیں۔
خیبر پختونخوا ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے 2018 کے سروے کے مطابق اسکول جانے کی ع±مر کے 10 لاکھ 80 ہزار بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں۔ ان میں 64 فیصد لڑکیاں اور 36 فیصد لڑکے ہیں۔ 21ہزار 33 اسکولوں میں سے 39 فیصد لڑکیوں کے ہیں۔ پشاور کی تقریباً ڈیڑھ لاکھ اور مجموعی طور پر صوبے کی لاکھوں طالبات کے لیے پرائمری اسکولوں میں کلاس رومز، میدانوں اور واش رومز کی صفائی کے لیے عملہ ہی موجود نہیں۔ طالبات سے اسکولوں کی صفائی کرانا کسی طور قابل قبول نہیں کیونکہ ان کے دل میں تعلیم سے دوری پیدا ہوتی ہے۔ نیز مذہبی رجحان زیادہ ہونے کے باعث بچوں کی بڑی تعداد روایتی مدارس میں زیر تعلیم ہے جو بڑی سعادت کی بات ہے، لیکن ان طلبا و طالبات کو جدید تقاضوں سے ہم ا?ہنگ کرنے کے لئے مدارس میں اصلاحات ناگزیر ہیں تاکہ وہ بھی لاہور، کراچی، اسلام ا?باد کے ہم عصر ساتھیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ ا?پ نے پشاور کی ریلی میں خواتین کے حقوق کا تحفظ اور فلاح و بہبود کو اپنی ترجیح قراردیا۔ اب ان وعدوں پر عمل ہی اصل امتحان ہے۔ ٹرانسجینڈر پر تشدد اور ا?ئے روز ان کے قتل کے واقعات کو روکنا بھی ا?پ کے لئے ایک چیلنج ہو گا۔
مجھے اپنے لوگوں کی وفاداری پراعتماد ہے، میں جانتی ہوں کہ بیرون ملک موجود میرے صوبے کے ذہین لوگ ہر وقت ا?پ کی سپورٹ کرنے کو تیار ہیں۔ ا?پ انہیں واپس بلاکر مراعات دیں تاکہ وہ صوبے کے وسائل کی ترقی اور نئی نسل کی تربیت کر سکیں۔
صاف ستھرا خیبر پختونخوا ا?پ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ چارسدہ، ایبٹ ا?باد، مانسہرہ اور مختلف شہروں میں گندگی اور کچرے کے ڈھیر نظر ا?تے ہیں جن سے ماحول خراب ہو رہا ہے اور جراثیم جنم لے رہے ہیں۔ شعبہ صحت پر مالی بوجھ کم کرنے کے لئے ان شہروں کی صفائی ضروری ہے۔ ہیلتھ کارڈ دوبارہ شروع کرنے کا اقدام قابل تحسین ہے، لیکن یہ ایک عارضی حل ہے۔ پی ٹی ا?ئی کی سابق حکومت ختم ہونے کے بعد بہت کچھ بدل گیاہے۔ ماضی کی نسبت اب ڈالر مہنگا اور ادویات بہت مہنگی ہو گئی ہیں، اس لئے کارڈ کے ذریعے عوام کا علاج وقت گزرنے کے ساتھ مشکل ہوتاجائے گا۔ اس لئے شعبہ صحت پربوجھ کم کرنے کےلئے صفائی کاخصوصی انتظام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ نے خیبر پختونخوا کو ایسے قدرتی ح±سن سے نوازا ہے۔ وادی سوات، کاغان، ناران، شوگران، نتھیا گلی، کمراٹ اور وادی کوہستان اپنی فطری خوبصورتی، دلکشی اور رعنائی کے باعث پاکستان کے حسین علاقوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سیّاحت کی ترقی صوبے کے ریونیو میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ ا?پ کی سابق حکومت نے سیّاحتی پالیسی کا اعلان کیا کہ اگلے چند برس میں ٹورازم سیکٹر میں تقریباً 50ارب روپے کی سرمایہ کاری کو ممکن بنایا جائے گا، اس کے لئے سیّاحوں کو بہترین سفری سہولتیں، رہائش اور معیاری اشیائے خوردونوش کی فراہمی یقینی بنانا ہوگی۔سڑکوں کی حالت بہتر بنانا ہو گی۔ جھیلوں اور ا?بشاروں کے راستوں پر لنک روڈز بنانا ہوں گے۔
2022 میں خیبرپختونخوا میں کلائمٹ چینج پالیسی منظور ہوئی تھی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد خیبر پختونخوا پہلا صوبہ تھا جس نے موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پالیسی بنائی۔ اب مون سون بارشوں میں شدت آتی جا رہی ہے۔ چھانگلہ، مردان اور بونیر سمیت پہاڑی ڈھلوان پر واقع علاقوں میں فلیش فلڈنگ میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا ہے۔ شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹی پر برف اور منجمد گلیشیئر بڑھتے درجہ حرارت سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ اس وقت گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں کے گلیشیئرز بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے باعث کمزور ہیں اور جون سے اگست 2022 تک کوئی بڑا حادثہ رونما ہوسکتا ہے۔ 2050 تک پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث تقریباً دو لاکھ افراد موسمیاتی مہاجرین بن جائیں گے۔
دیگر صوبوں اور خیبر پختونخوا کے ڈائی مینشنز الگ الگ ضرور ہیں، لیکن کے پی کے میں غربت سب سے زیادہ اور ضروریات کی نسبت وسائل اور پروفیشنلز کم ہیں۔ ریونیو کا 90 فیصد انحصار وفاق پر ہے۔ اسلئے صوبے میں انقلابی ترقیاتی کاموں کے لئے وسائل کی فراہمی کا دارومدار وفاق کے تعاون اور رسپانس پر ہے۔ گیس اور بجلی کی رائلٹی کی مد میں رقم بھی وفاقی حکومت سے ہی ملتی ہے۔ اسلئے وفاق کے ساتھ تعلقات بہتر بنانا ا?پ کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ اگر وفاق سے کے پی کے کو 100 ارب روپے ملیں گے تو اس میں سے 40 اور 60 ارب روپے قرض کی ادائیگی اورسود میں چلا جائے گا۔ یہ پائیدار ترقی کی کوئی مستحکم بنیاد نہیں ہے۔ ٹی وی پر ا?پ کی وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات دیکھ کر کافی اطمینان ہوا اور پریس کانفرنس میں مجھے ا?پ کی سافٹ ٹون اور مثبت رویئے نے بھی کافی متاثر کیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ صوبے کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ہم مرکز سے الگ ہو کر نہیں رہ سکتے کیونکہ دہشت گردی سمیت دیگر چیلنجز سے تنہا نمٹا نہیں جاسکتا۔ مجھے یقین ہے کہ ہم نظام کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی جنگ بہتر انداز میں لڑسکیں گے۔ میری ذاتی رائے میں ماضی کو بھلاکر اب ا?پکو پنجاب اور خاص طور پر وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ کے ساتھ ورکنگ ریلیشن بہتر بنانا ہو گا۔
ہمیں دیگر صوبوں اوردنیا کے جدید تقاضوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے وسائل پیدا کرنا ہوں گے خاص طور پر نوجوانوں کی قوت کو صوبے کی ترقی کے لئے استعمال کرنے کی خاطر سوچ میں عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم ا?ہنگی پیداکرنا ہو گی اور ا?و¿ٹ ا?ف باکس سوچنا ہو گا۔
امید کرتی ہوں تعلیم و صحت کے شعبوں اور نوجوانوں کی فیصلہ سازی میں شمولیت کے حوالے سے بھی ا?پ آگے بڑھ کر فیصلے کریں گے۔ صوبے کی یوتھ ا?پ کو محض سیاسی فرنٹ پر نہیں بلکہ پرفارمنس کے محاذپر بھی کامیاب دیکھنا چاہتی ہے۔ ہزارہ ڈویڑن اور ضم شدہ اضلاع میں گورنس، تعلیم اور صحت ا?پ کی توجہ کے منتظر ہیں۔
پشاور کی سڑکوں پر بی ا?ر ٹی بس چلتی ہوئی بہت اچھی لگتی ہے، اس پر مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے اور کراچی کی طرز پر خواتین کے لئے الگ بس سروس شروع ہونی چاہیے۔
خیبرپختونخوا کی زیادہ تر ا?بادی غریب یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ انہیں مالی طور پر مستحکم کرنا ا?پ کی سب سے بڑی کامیاب تصور ہوسکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ا?ئی ٹی ایکسپورٹ میں حصہ ڈالنا خیبرپختونخوا کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا، سوشل میڈیا کے ذریعے معمولی سے وسائل خرچ کرکے کروڑوں روپے کمانا ا?ج کے دور میں کوئی مشکل کام نہیں رہا۔ ایسے انقلابی پروگرامز شروع کیے جائیں جن سے نوجوانوں کی تکنیکی طور پر کپیسٹی بلڈنگ کرکے انہیں نہ صرف اپنے پاوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے خاندانوں کے معیار زندگی کو بھی بلند کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو چھوٹے کاروبار کے لئے بلاسود قرضے فراہم کے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنے پاوں پر کھڑے ہو سکیں۔ نوجوانوں کو کمپیوٹرز، موبائل اور دیگر اسسریز دے کر بھی
میرے استاد متحرم کہتے ہیں “تمہاری خوش گمانی کی کوئی بنیاد اور کوئی دلیل ہونی چاہیے، تم کراچی، لاہور اور اسلام ا?باد میں بیٹھ کر تو ایسا سوچ سکتی ہو، لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں”۔ میرے استاد محترم کی نصیحت اپنی جگہ،لیکن میں ایساسوچنے اور ایسی ہی بلند توقعات کا حق رکھتی ہوں کیونکہ میرے ددھیال اور میرے ننھیال دونوں نے اپنے ووٹ سے نوازکر ا?پ کو اپنے مسائل حل کرنے کامینڈیٹ دے کر ایوان میں پہنچایا ہے۔
جناب وزیراعلیٰ، اب جذباتی تقاریر اور سیاسی چل چلاو¿ کا وقت گزر چکا، جانتی ہوں کہ میرے لوگوں کا ا?پ اور عمران خان سے جذباتی لگاو¿ ہے، لیکن یہ سوال کبھی پیچھا نہیں چھوڑے گا کہ اگر تیسری بار بھی صوبے کے عوام کے مسائل حل نہ ہوئے بلکہ سیاسی جذبات کی وجہ سے مالی حالات پہلے سے بھی زیادہ ابتر ہو چکے ہوں تو کیا وہ ا?پ کو چوتھی باری دیں گے؟
ا?پکی پانچ سالہ حکومت کے لیے دعا کے ساتھ اس امید افزا شعر پر خط کا اختتام کروں گی
نیا سفر ہے نئے راستے بنائیں گے
جو پہلے کرنہ سکے اب وہ کردکھائیں گے
ختم شد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف مصنفہ
زینب وحید اے لیولزکی طالبہ،کلائمٹ چینج،سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،مصنفہ، وی لاگر اور صف اول کی مقررہ ہیں۔ وہ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 کی ونر ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ میگزین “اسمبلی”، یورپ کے معتبر میگزین”جنرل ا?ف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی” میں ان کے مضامین چھپے ہیں۔ پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔ مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قراردیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں