تحریر: زینب وحید
“ہم اقتدار میں آ کر نوجوانوں کی قسمت اور زندگی بدل دیں گے،نوکری اور کیش دیں گے،بس ووٹ دے کر ایک بار ہمیں اقتدار کی کرسی تک پہنچا دیں”الیکشن کے ماحول میں چیختے چنگھاڑتے سیاسی رہنماوں کی تقریریں بار بار عائشہ کے کانوں سے ٹکرا رہی تھی۔اگلے دن ریاضی کا مشکل امتحان تھا اور اسی وجہ سے وہ ہر مرتبہ بابا سے درخواست کر رہی تھی کہ ٹی وی بند کر دیں یا کم از کم آواز ہی کم کر دیں لیکن سیاست میں گہری دلچسپی رکھنے والے والد نے ایک نہ سنی اور چینلز بدل بدل کر نیوز دیکھتے رہے۔ٹی وی پر کبھی ایک سیاسی رہنما کے دعوے تو کبھی کبھی دوسرا سبز باغ دکھاتا۔عائشہ امتحان کی تیاری چھوڑ کر گہری سوچ میں پڑ گئی۔چونکہ سیاسی ایلیٹ اچھی طرح جانتی ہے کہ عام پاکستانی دو وقت کی روٹی کی جنگ لڑ رہا ہے،اسی لئے سیاسی رہنماوں کی تمام وجہ بھی انہی باتوں کے ذریعے عوام کو لبھانے پر ہے تاہم کلائمٹ ایکٹوسٹس کے متحرک کردار اور آواز بلند کرنے کے بعد سیاسی اشرافیہ نے مجبوراً ماحولیاتی تبدیلی جیسا سنگین مسئلہ اور دیگر نکات بھی اپنے منشور میں شامل کیے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) نے’’پاکستان کو نواز دو‘‘کے سلوگن سے منشور کا اعلا ن کیا ہے۔بادی النظر میں محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ کی اگلی حکومت میں شیزا فاطمہ جیسی خواتین کو نوجوانوں سے متعلق کوئی ذمہ داری مل سکتی ہے اور انہوں نے ہی قیادت کو تجویز پیش کی ہو گی کہ کلائمٹ اور اس سے متعلق دیگر جدید مسائل منشور میں شامل نہ کرنے پر یوتھ کی جانب سے شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے،اسی لئے ن لیگ نے ماحولیاتی تبدیلی کو بھی اہمیت دی ہے۔اس لئے ن لیگ اپنے قائد میاں نواز شریف کی موجودگی میں لاہور میں جو منشور پیش کیا ہے،اس میں سموگ سے پاک پاکستان،پلاسٹ بیگز کے استعمال پر مکمل پابندی،ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق آگاہی کےلئے قومی مہم چلانا اور سرکاری دفاتر میں ماحول دوست توانائی کا استعمال شامل ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی نے عوامی معاشی معاہدہ کے نام سے انتخابی منشور جاری کر دیا۔پیپلز پارٹی کے انتخابی منشور کا سلوگن’چنو نئی سوچ‘ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے پیش کردہ 10 نکاتی منشور میں دو نوجوانوں اور ایک تعلیم سے متعلق ہے۔یکساں معیاری تعلیم کے منصوبے لانا،یوتھ کارڈ کے ذریعے نوجوانوں کی مدد اور تمام ڈویژنز میں یوتھ سینٹرز کا قیام ان کے منشور کے نکات ہیں۔حیرت ہے کہ بلاول بھٹو پی ڈی ایم حکومت میں خود وزیر خارجہ رہے،پی پی رہنما شیری رحمان وزیر ماحولیات رہیں لیکن اس کے باوجود مستقبل کی لیڈر شپ اور جدید دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے یوتھ کی تیاری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔بلاول بھٹو ہر تقریر میں کلائمٹ چینج کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس اہم ترین مسلئے کا حل اسی حد تک ہے کہ اس کے نقصانات سے بچاؤ کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اور ہر ضلع میں گرین انرجی کے نام پر پارک بنے گا،ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی قائم کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے لیکن کلائمٹ چینج سے بچاو کیلئے کیا اقدامات ہوں گے؟آگاہی مہم کیسے چلے گی؟قانون سازی کیا ہو گی اور شیری رحمان صاحبہ خود امیر ممالک سے پاکستان کے ازالے کیلئے جو مطالبات پیش کرتی رہی ہیں،اس کا ذکر نہیں کہ وہ پیسہ کیسے پاکستان کو دلایا جائے گا?
پی ٹی آئی ایک اہم جماعت ہے لیکن کافی مشکل وقت سے گزر رہی ہے۔سابق وزیر اعظم خود کو بڑا انوائرمنٹلسٹ بھی کہتے تھے اور نیچر سے ان کی کافی دلچسپی تھی۔اسی وجہ سے انہوں نے بلین ٹرین سونامی شروع کیا۔اس منصوبے کے ماڈل کو سعودی عرب اور یو اے ای میں بھی اپنایا گیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای کے منصوبے ہر گزرتے دن کے ساتھ پھل پھول رہے ہیں لیکن ادھر ہر روز بلین ٹری سونامی پروجیکٹ میں کرپشن کے کسیز سامنے آرہے ہیں۔پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت خود تتر بتر ہے،اس لئے اس سے کسی قسم کی پالیسی کی توقع بھی نہیں رکھنی چاہیئے۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان متوسط طبقے کی جماعت ہے۔انتخابات 2024 کے لیے اس نے بھی 25 نکاتی انتخابی منشور کا اعلان کیا ہے۔ایم کیو ایم واحد جماعت ہے جس نے کلائمٹ چینج کے چیلنج کی اہمیت کو سمجھا ہے۔متحدہ نے اپنے نکات میں (5 آرز) 5Rs کا جامع ایجنڈا پیش کیا ہے۔یعنی Refuse, Reuse, Replaced, Repurposed, Reduced۔
ایم کیو ایم نے ماحولیاتی،آبی،ساحلی اور صنعتی آلودگی پر قابو پانے کے لئے جامع پلان پیش کیا ہے۔پانچ سال کے دوران جنگلات کو 8 فیصد بڑھانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے۔ایم کیو ایم پاکستان کے منشور میں 10 سال کے لئے تعلیمی ایمرجنسی کا نفاذ،سکولوں میں بچوں کا ڈراپ آوٹ کم کرنے کے لیے ماؤں کو ایک وقت کا کھانا دینا اور بچوں کے لیے ایک وقت دودھ کی فراہمی شامل ہے۔میں اس حوالے سے اے این پی کو شاباش دوں گی کیونکہ اُس کا منشور سب سے متاثر کن ہے۔اے این پی کے نکات میں تمام سرکاری یونیورسٹیوں میں ٹیوشن فری تعلیم دینا،بچوں کے لئے معیاری اور مساوی ایجوکیشن،ایڈوانس لرننگ کے لئے جامع اصلاحات،جی ڈی پی کا 4 فیصد شعبہ تعلیم کیلئے مختص اور پروینشل ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام شامل ہیں۔
جماعت اسلامی کے منشور میں بھی کلائمٹ چینج سے متعلق کافی اہم نکات ہیں۔جماعت اسلامی نے ماحولیات کے تحفظ کیلئے جامع قانون سازی کا عزم ظاہر کیا جبکہ گاڑیوں اور صنعتی فضلے(ویسٹ)اور گرین ہاوس گیسز کا اخراج کم کرنے کے لئے جامع اقدامات کا بھی ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔الیکٹرک گاڑیوں کا فروغ اور جنگلات کا کٹاو روک کر شجر کاری مہم چلانے کے بھی احسن اقدامات ہیں۔پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز نے”تعلیم سب کے لئے“کے نام سے منشور دیا ہے۔اس میں مستحق طلباء کے لئے ایجوکیشن کارڈز کا اجراء،پرائیویٹ اور سرکاری سکولوں کا یکساں معیار،ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ،رٹہ سسٹم کا خاتمہ،طلباء کی تربیت اور جدید ٹیکنالوجی کا فروغ شامل ہیں۔اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ہونا چاہئے کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں ایک بار پھر اکثریت وہی پرانے سیاست دان میدان میں ہیں جو ماضی میں تھے یا ان کے بیٹے،بیٹیاں،بھتیجے،بھتیجیاں ہیں لیکن یہ سوال اٹھانا بھی وقت کا تقاضہ ہے کہ آیا یہ سیاست دان جدید دنیا کے بڑے اور انتہائی اہم چیلنجز سے آگاہ ہیں اور کیا ان کے پاس ان مسائل کا مقابلہ کرنے کا کوئی جامع منصوبہ موجود ہے جو صرف باتوں اور نعروں کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر ہونا چاہیئے۔آج کا نوجوان سائنس اور ٹیکنالوجی،آرٹیفیشل انٹلی جنس،کلائمٹ چینج،مینٹل ہیلتھ،سسٹین ایبل ڈیولپمنٹ،گلوبل ہیلتھ ایشوز،پانی کے بحران اور اس پر متوقع جنگیں،جدید جنگی تقاضوں اور توانائی بحران کا حل چاہتا ہے۔آج کا نوجوان روایتی سیاست دانوں سے پوچھتا ہے کہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کرنے کا غیر روایتی انداز کیا ہے؟ 76 سال بعد بھی ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر نظام انصاف اور نظام تعلیم کیوں تشکیل نہیں دیا جا سکا اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟جدید دنیا ریزیلینٹ سٹیز کی بات کرتی ہے لیکن سیاسی جماعتوں کے منشور میں اس کو زیادہ اہمیت کیوں نہیں دی گئی؟سیاسی جماعتوں کے چند گنے چنے نوجوان رہنماوں کو سوچنا ہو گا کہ ان گنت ٹی وی چینلز کے سامنے سٹیج پر کھڑے ہو کر یوتھ کو با اختیار بنانے کے دعوے کرنا تو آسان ہے لیکن بند کمروں میں اپنے بڑوں کو اس بات پر قائل کرنا مشکل ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے نوجوان پر بھی بھروسہ کریں۔
انداز بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے
شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعارف مصنفہ
زینب وحید کیمرج 11 کی طالبہ،کلائمٹ چینج،سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،مصفنفہ،ویلاگر اور صف اول کی مقررہ ہیں۔وہ یونیسف یوتھ فور سائیٹ فلو شپ 2024 کی ونر ہیں۔عالمی شہرت یافتہ میگزین”اسمبلی”یورپ کے معتبر میگزین”جنرل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”میں ان کے مضامین چھپے ہیں۔پاکستان کے دو قومی اخبارات میں بلاگز لکھتی ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت امریکا اور اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ارجنٹائن میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔نیدر لینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قرار دیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
