بیرسٹر امجد ملک
آجکل بانی تحریک انصاف کا اکانومسٹ کیلئے تحریر شدہ ایک آرٹیکل کا بہت چرچہ ہے ، حکومت پاکستان کے ترجمان نے بھی اکانومسٹ پر اعتراض اٹھایا کہ کیسے ایک جیل کے قیدی کا آرٹیکل شائع کیا جاسکتا ہے جبکہ وہ سزا بھگت رہا ہو اور اس پر ایک سیریس حکومتی سیکریٹ کو پبلک کرنے کے کیس سمیت دیگر کیسز عدالت میں چل رہے ہوں ۔
بانی پی ٹی آئی نے بھی جیل سے کہا کہ یہ جدید دور ہے ، میں نے پوائنٹس بتائے تو وہ کالم لکھا گیا اور جو اسمیں لکھا وہ انکا ہی بیان ہے۔ آرٹیکل کی ملکیت بابت انکا جواب کبھی ہاں تو کبھی ناں میں ہے۔
یہاں مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کالم کس نے اور کیسے لکھا اور کیا قانونی طور پر یہ ٹھیک ہے؟
دراصل اس کالم میں بانی پی ٹی آئی نے تاریخی جھوٹ بولے اور الیکشن کو متنازعہ بنانے کی بنیاد رکھی ہے ۔
انہوں نے کہا انکی حکومت بذریعہ سائفر امریکی سازش کے نتیجے میں ختم ہوئی ، کیونکہ جب وہ اقتدار میں تھے اس وقت انہوں امریکیوں کو اڈے دینے سے انکار کیا ، جبکہ ایسی کوئی ڈیمانڈ امریکی حکومت نے پاکستان سے کی ہی نہیں تھی اور نہ ہی ریکارڈ پر موجود ہے۔ امریکی حکومت نے پہلے ہی اس سازش کو جھوٹ قرار دیا ہے۔
دوسرا الیکشن کے حوالے سے تحریک انصاف شروع دن سے مسلسل جھوٹا پراپیگنڈہ بنانے میں مصروف ہے ، انہوں نے کہا کہ انکے امیدواروں سے کاغذات چھینے جارہے ہیں ، ساتھ ہی دعوی کرتے ہیں کہ سب سے زیادہ کاغذات انہوں جمع کروائے ، پھر انہوں نے کہا انکے کاغذات سب سے زیادہ مسترد ہوئے ہیں ، جبکہ الیکشن کمیشن کی سپریم کورٹ میں رپورٹ کے مطابق وہ بھی سچ نہ ہے ، اور تحریک انصاف نے جو اعداو شمار دیئے انکو سوشل میڈیا سے اکٹھا کرکے دینے کا اقرار کیا۔
لیول پلئنگ فیلڈ کے حوالے سے جو کہا گیا وہ بھی درست نہیں ، بانی پی ٹی آئی جو اس وقت توشہ خانہ میں گھڑی اور تحائف چوری کے جرم میں نااہل ہوچکے ہیں اور نو مئی کے فساد میں کے الزام میں گرفتار ہیں ۔ اسوقت کسی جماعت پر کوئی جلسے کرنے وغیرہ کی ممانعت نہیں ، بس انکے کچھ رہنما جو کہ نو مئی کیسز میں مطلوب ہیں انکو گرفتار کیا جارہا ہے۔ اور روپوش لوگوں کو تلاش کیا جارہا ہے۔
تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے پارٹی کو چھوڑا انہوں نے بانی پی ٹی آئی کی افواج پاکستان کے خلاف پالیسی ، اور نو مئی کی مذمت میں تحریک انصاف کے بانی سے علیحدگی اختیار کی۔ تاریخ شاہد ہے کہ عمران لان سے علیحدگی اختیار کرنے والوں میں یہ پہلے لوگ نہیں ہیں۔
الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کو ۲۰۲۱ سے انٹراپارٹی الیکشن کروانے کا کہہ رہی تھی ، تحریک انصاف نے اپنے انٹراپارٹی الیکشن اپنے پارٹی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جلد بازی میں کروائے جنکو الیکشن کمیشن نے مسترد کردیا اور انکا انتخابی نشان بلا دینے سے انکار کردیا ، حال میں تحریک انصاف قانونی جنگ لڑ کر اسکو واپس لے چکی ہے۔ معاملات عدالتوں میں ہیں اور بلا ملے گا یا بلے سے کام چلانا پڑے گا یہ دیلھنا ابھی باقی ہے۔
تحریک انصاف نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں الیکشن کیلئے ایک امریکی فرم کی خدمات لیں اور پہلے وہ امریکہ میں تحریک انصاف کے حق میں لابنگ فرم کی خدمات بھی لے رہے ہیں ، ایک طرف امریکہ پر سازش کا الزام دوسری جانب انکے سامنے اچھا بننے کی کوشش ہی انکے جھوٹے پراپیگینڈے کا ثبوت ہے۔
اب آتے ہیں سچ کی جانب کہ تحریک انصاف کی حکومت کیوں ختم ہوئی اور اسکے دور میں ملک کے معاشی حالات کیا تھے ۔
اب آتے ہیں سچ کی جانب کہ تحریک انصاف کی حکومت کیوں ختم ہوئی اور اسکے دور میں ملک کے معاشی حالات کیا تھے ۔ جب تحریک انصاف کی سیلیکٹیڈ حکومت آئی تو پاکستان کی ریکارڈ گروتھ تھی ، لیکن اسکی حکومت کے پاس کوئی معاشی پالیسی نا تھی ، جسکی وجہ سے آئی ایم ایف نے پاکستان میں ڈیرے ڈال دئیے جسکو نوازشریف حکومت نے 2016 میں پاکستان سے خُداحافِظ کہا تھا ۔
عمران حکومت نے کوئی معاشی پالیسی نہ دی ، نہ کوئی پروجیکٹ لگایا ، نہ کوئی معاشی سکیم لانچ کی جسکی وجہ سے پاکستان میں مہنگائی ، بیروزگاری ، شرح سود و پاکستانی روپے کی نا قدری بڑھ گئی، کرونا میں ملنے والی امداد اور مالی سہولیات کو بھی ضائع کیا گیا، پھر آئی ایم ایف اور دیگر خلیجی ممالک کی امداد سے ملک کو سہارہ دیے رکھا، ملک تقریباً ڈیفالٹ ہونے کے قریب پہنچ گیا ، ملک کی اپوزیشن جماعتوں نے اس صورتحال کا فوری ایکشن لیتے ہوئے اسکی حلیف جماعتوں کو ملک بچانے کیلئے اتحاد کی دعوت دی اور ایک آئینی طریقے سے اس سیلیکٹڈ حکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہوئے۔ جوکہ ایک مکمل آئینی طریقہ کار اور بغیر کسی بیرونی سازش کے بغیر ہوا ۔
قائد نوازشریف جو 2017 ایک اقامہ پر تنخواہ نا لینے پر نااہل ہوئے انکو عدالتی انتظام سے ہٹایا گیا سالوں کی محنت کی گئی اور ضائع ہونے سے بچائی گئی ، اس سیلیکٹیڈ حکمران نے اپنے دور میں تمام بڑے سرکردہ اپوزیشن لیڈران پر جھوٹے نیب کیسیز بنا کر جیل میں بھیج دیا ، جہاں اپوزیشن لیڈران نے کئی سال جیل میں بے گناہ سزا کاٹی ، قائد نوازشریف کی جیل میں طبعیت خراب ہونے کے پیش نظر عدالت نے انکو بیرون ملک علاج کی اجازت دی۔ جب یہ سیلیکٹیڈ حکومت ختم ہوئی تو عوام نے اپنے قائد نوازشریف کو واپس آنے کا کہا ، قائد نوازشریف ۲۱ اکتوبر ۲۰۲۳ کو پاکستان واپس آئے اور عدالت کے سامنے سرنڈر کیا ، عدالت نے انکو حفاظتی ضمانت دی ، اور لاہور میں انکا یادگار پاکستان پر ایک یادگار و عالی شان استقبال ہوا ، یہ واپسی پاکستانی عوام کیلئے ایک امید لائی کہ اب دوبارہ پاکستان ترقی کرے گا ۔ عدالتیں پہلے ہی ان جھوٹے کیسیز پر دیگر سیاسی لیڈران کو بری کر چکی تھی ،بعدازاں نوازشریف کی اپیلوں پر بھی فوری فیصلہ ہوا اور انکو بھی باعزت بری کیا گیا اور مسلم لیگ ن کو چھے سال بعد لیول پلئینگ فیلڈ ملی جو ۲۰۱۷ میں چھین لی گئی تھی۔ حالیہ سپریم کورٹ نے ناحق تاحیات نااہلی کو بھی ختم کردیا ہے۔ اسوقت بانی تحریک انصاف اس مکافات عمل کا شکار ہیں جو انہوں نے دوسرے اپوزیشن جماعتوں کے لیڈران کیساتھ کیا وہ اب خود اس کا مزہ چکھ رہے ہیں ۔ وہ فرعونیت میں پاکستان سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر گئے ، دیگر کرپشن کے اقدامات اور نو مئی کو اپنے تربیت یافتہ کارکنان کے زریعے ریاست کو دھمکانے کی کوشش کی اورخانہ جنگی کی سازش کی جسکو ملکی اسٹیبلشمنٹ نے دانشمندی سے ناکام بنایا ، اس وقت بھی تحریک انصاف کے سہولتکار موجود ہیں جو انکے کیسیز کو پائیہ تکمیل تک پہنچنے نہیں دے رہے لیکن ہونی ہوکر رہتی ہے یہی سبق بنگلہ دیش کی علیحدگی سے سیکھا گیا ہے ۔ ریاست کا پہیہ اس سازش کو ناکام بناکر دم لے گا۔
الحمدللہ قائد نواز شریف کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے تاحیات نااہلی کی عدالتی ناانصافی کا سیاہ باب آخرکار ختم ہوا۔ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی من چاہی تشریح کے ذریعے پاکستان اور عوام کو مہنگائی، معاشی تباہی اور بین الاقوامی رسوائی کی دلدل میں دھکیلنے والے سیاہ کردار عدالت، عوام اور وقت کے کٹہرے میں مجرم قرار پائے ہیں جنہوں نے اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کی خاطر پچیس کروڑ عوام اور ترقی کرتے پاکستان کی بنیادیں تک ہلا ڈالیں۔ ایک لاڈلے کو “صادق اور امین” کا جعلی سرٹیفکیٹ دینے کےلئے ایک منتخب وزیراعظم کو ہٹانے کی سازش کی گئی۔ ناخداؤں نے بہت کوشش کرکے نواز شریف کو تاحیات نا اہل کیا مگر جسے اللہ رلھے اسے کون چکھے ۔سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کا قانون ختم کردیا،وہ پھر آگیا ہےاوراس دفعہ بینڈ باجے کیساتھ دھوم دھام سے آیا ہے۔ و تعز من تشاء و تزل من تشاء۔ نواز شریف کو مبارک ہو لیکن یہ پوچھنا برحق ہے کہ یہ تجربہ عوام کو کتنے میں پڑا ہے۔ محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ۔
انشاءاللّٰہ ہمیں امید ہے میاں محمد نواز شریف اقتدار میں آکر پاکستان کو مضبوط ترین اور ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بنائیں گے اور پاکستان کو امن کا گہوارہ بنائیں گے اور تمام مسلم اور غیر مسلم ممالک سے بہترین تعلقات استوار کریں گے انشاءاللّٰہ۔ انہوں نے ثابت کیا ہے کہ وہ 9مئی والے نہیں جو اپنا ملک ہی تباہ کر ڈالیں ، وہ 28 مئی والے لوگ ہیں جنہوں نے بھارت کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ کامیاب دھماکے کرکے پاکستان کو ایٹمی طاقت ڈیکلئر کیا۔ وہ ہر دفعہ ملک بچانے آتے ہیں اس دفعہ بھی ملک سنواریں گے۔ انشااللہ۔
جھوٹ بول بول کر نوجوان نسل کا جو دماغ کا دہی کیا ہے وہ اپنی جگہ اس پر وقت لگے گا لیکن شوق انکو مدینہ کی ریاست اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہہ کے دور انصاف کا ہے اور کام سارے یزیدی دور کے ہیں ۔ اللہ کا ہی آسرا ہے۔ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ “آپ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور ان سے بحث کیجیے بہت اچھے طریقے سے یقینا آپ کا رب خوب واقف ہے ان سے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں اور وہ خوب جانتا ہے ان کو بھی جو راہ ہدایت پر ہیں. (سورۃ النحل آیت ۱۲۵)”۔ ہمیں اپنا اخلاق کسی ادھار تبدیلی کے ہاتھوں گروی نہیں رلھنا چاہیے۔
قانون کی حکمرانی کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ جو قومیں قانون کی عزت اور قدر جانتی ہیں اور اسکی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں وہ پھلتی پھولتی ہیں، بنگلہ دیش اس کی بہترین مثال ہے۔ پاکستان بھی ایک دوراہے پر ہے، ترقی، جمہوریت، انتظامی شاہکار اور انصاف پسند معاشرے کی طرف آگے بڑھو یا الٹا اندھیروں میں واپس چلے جاؤ۔نیک خواہشات پاکستان کے لئے ،پاکستانی سمجھداری سے ووٹ دیں۔
بیرسٹر امجد ملک انسانی حقوق کے وکیل ہیں اور سپریم کورٹ بار اور ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کے اعزازی رکن ہیں ۔