اسے جمہوریت کا حسن کہہ لیں یا مکروہ چہرہ

اسے جمہوریت کا حسن کہہ لیں یا مکروہ چہرہ

نیوز روم/امجد عثمانی
ملک کا معاشی منظر نامہ کوئلے کی طرح “دہک” رہا ہے۔۔۔۔۔۔مہنگائی کا سورج” نصف النہار”پر ہے اور”انگارے” برسا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔پٹرول “قہر” ڈھا رہا ہے۔۔۔۔۔۔بجلی کے نرخ” برق” بن کر گر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ڈالر روپے کو”پامال” کر رہا ہے۔۔۔۔۔۔اور تو اور چینی “زہر تھوک” رہی ہے اور بے چارے عوام کے لیے زندگی روز بہ روز “کڑوی” ہو جاتی جا رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!!مہنگائی پانچ سال سے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔۔بہر حال یہ “نگرانوں”نہیں بلکہ گھاگ سیاستدانوں کا”مشترکہ پاپ” ہے جسے”ناجائز اولاد”کی طرح کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں۔۔۔۔۔مہنگائی کے اس “گناہ” میں لوگوں کے “کپتان” سے خودساختہ”خادم پاکستان” تک سب” اقتداریے” حصہ بقدر جثہ حصہ دار ہیں۔۔۔۔۔۔لاکھوں علمائے کرام کے” سرتاج’ مولانا صاحب اور ایک زرداری سب پر بھاری بھی “شریک جرم” ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہنے کو تو جمہوریت وہ “نظام حکومت” ہے جس میں عوام کی حکومت ہو۔۔۔۔۔عوام کے ذریعے حکومت ہو اور عوام کے لئے حکومت ہو لیکن قائد کے پاکستان میں کئی اور”عجوبوں”کی طرح جمہوریت کا”باوا آدم” بھی نرالا ہے۔۔۔۔اگست کے مہینے ملک میں دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار تئیس کا ایک اور جمہوری دور تکمیل کو پہنچا اور ایک اور قومی اسمبلی نے حسب معمول دو وزرائے اعظم کو خوش آمدید اور رخصت کہا۔۔۔۔۔یہ پانچ سالہ”مبینہ جمہوری”دور اس لئے بھی “منفرد” ہے کہ اس دوران سوائے جماعت اسلامی،ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایک ساتھ بہتی گنگا میں “اشنان”کیا۔…۔۔۔اقتدار کے باب میں یک جان دو قالب ان سیاسی جماعتوں کی پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں رہا۔۔۔۔۔گویا مال مفت دل بے رحم کے مصداق سب نے مل کر مزے لوٹے اور

یہ بھی پڑھیں:اعتزاز احسن کی پیپلز پارٹی میں دوبارہ پذیرائی کیوں؟

خوب لوٹے۔۔۔۔۔۔اس
پانچ سالہ “مبینہ جمہوری دور” میں پہلے ساڑھےتین سال پی ٹی آئی اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ بر سر اقتدار رہی
جبکہ باقی ڈیڑھ برس تیرہ جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے کرسی کے مزے لیے۔۔۔۔شومئی قسمت
کہ عوام کے ذریعے ایوان اقتدار میں پہنچنے والے حکمرانوں نے ناصرف پانچ سال تک “عوام کی حکومت اور عوام کے لئےحکومت”
کے جمہوری فلسفے کا حلیہ بگاڑ دیا بلکہ اپنی کرسی کے لئے پچیس کروڑ عوام کا بھرکس بھی نکال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کے ساڑھے تین سالہ دور حکومت میں مہنگائی سب سے بڑا بیانیہ تھا۔۔۔۔۔۔۔شہبازحکومت کے لئے بھی سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہی تھا۔۔۔۔۔۔حکومت جس کی بھی رہی۔۔۔۔۔۔بھوکے ننگے عوام کبھی آٹے تو کبھی چینی کے پیچھے بھاگتے رہے۔۔۔۔کبھی پٹرول دھماکے بھگتے تو کبھی بجلی کے جھٹکے سہے۔۔۔۔۔پی ٹی آئی کی ناتجربہ کار حکومت نے عوام پر جو قہر ڈھایا سو ڈھایا لیکن جوستم پی ڈی ایم کے تجربہ کاروں نے ڈھائے اس کی مثال نہیں ملتی۔۔۔۔یہ لوگ مہنگائی ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آئے اور مہنگائی کے ریکارڈ توڑ دیے۔۔۔۔۔۔۔۔ایک اور ظلم یہ ہوا کہ ان لوگوں نے جو ظلم بھی ڈھایا ملک بچانے کے نام پر ڈھایا۔۔۔۔۔ان پانچ سال میں کسی بھی “نیلسن منڈیلے” کی مقبولیت اور غیر مقبولیت کی وجہ صرف اور صرف مہنگائی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔عمران خان کے ساڑھے تین سالہ دور میں مہنگائی سب سے بڑا بیانیہ تھا اور وہ اسی بنیاد پر غیر مقبول اور پی ڈی ایم مقبول ٹھہری۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ وہ اعتراف کے بجائے ضد کرتے رہے کہ یہ ماضی کی حکومت کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔شہباز شریف کے سولہ مہینوں میں بھی مہنگائی سب سے بڑا بیانیہ تھا۔۔۔۔۔۔عمران خان اسی بنیاد پر مقبول اور پی ڈی ایم غیر مقبول ہو گئی۔۔۔شومئی قسمت کہ پی ڈی ایم بھی اعتراف کے بجائے ضد کرتی رہی کہ یہ ماضی کی حکومت کا کیا دھرا ہے۔۔۔۔۔۔بی بی سی کے مطابق ادارہ شماریات کے تازہ اعداد و شمار کے مطابق ڈیڑھ برس میں مہنگائی تمام حدیں پار کر گئی ہے۔۔۔۔۔بجلی کی قیمت کا جائزہ لیں تو مارچ دو ہزار بائیس میں بجلی اوسطاً اٹھارہ روپے فی یونٹ دستیاب تھی، جو اب بڑھ کر اوسطاً تیس روپے فی یونٹ ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔اسی طرح گیس کی قیمت میں بھی ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور گھریلو صارفین کے لیے چار سو کیوبک میٹر گیس کا سلنڈر جو چودہ سو ساٹھ روپے میں دستیاب تھا آج ا±س کی قیمت اکتیس سو روپے ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔مارچ دو ہزار بائیس میں پٹرول ایک سو ساٹھ روپے فی لیٹر تھا جو اب بڑھ کر تین سو پانچ روپے فی لیٹر ہو چکا ہے۔۔۔۔۔۔بی بی سی کے مطابق ملک میں گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔۔۔۔۔ آٹا اٹھاون روپے فی کلو سے بڑھ کرایک سو پینتالیس روپے فی کلو اور چینی، جو نوے روپے فی کلو دستیاب تھی، اب اس کی قیمت تقریباً دوگنی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔۔۔ مہنگائی کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مارچ دو ہزار بائیس میں ڈالر کی قیمت ایک سو بہتر روپے تھی جو اب تین سو کے آس پاس ہے۔۔۔۔”شرعی تناظر” میں دیکھا جائے تو ہمارے ممدوح مولانا صاحب بطور پی ڈی ایم سربراہ سولہ مہینے کی معاشی تباہی کے سب سے زیادہ جواب دہ ہیں کہ شہباز حکومت بالواسطہ حضرت صاحب کی ہی حکومت تھی۔۔۔مولانا صاحب کے کئی ایک کریڈٹس میں یہ سب سے بڑا ڈس کریڈٹ ہے۔۔۔۔۔۔یہ مولانا صاحب کا ہی کریڈٹ ہے کہ انہوں نے عمران حکومت کیخلاف تب “طبل جنگ” بجایا جب سیاسی منظر نامے پر” ہو کا عالم” تھا اور سب “جمہوریے”چپ سادھے بیٹھے تھے۔۔۔۔۔شہباز شریف تو ٹھہرے شو پیس۔۔۔اس دور کے اصل اپوزیشن لیڈر مولانا ہی تھے۔۔۔۔۔چشم فلک گواہ رہے گی کہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت جے یو آئی کا کراچی سے اسلام آباد ملین مارچ وہ پہلا پتھر تھا جس نے شیشے کے محل میں بیٹھے “ضدی بادشاہ”کے خواب چکنا چور کر دیے۔۔۔۔۔ یہی ملین مارچ اپوزیشن کے بڑے اتحاد پی ڈی ایم کی بنیاد کے لیے خشت اول ٹھہرا اور علم بغاوت بھی مولانا صاحب کے ہاتھ تھمایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا کی قیادت میں اپوزیشن نے مہنگائی مکاﺅ تحریک شروع کی جو تحریک عدم اعتماد پر منتج ہوئی اور خان صاحب گھر جانے پر مجبور ہو گئے۔۔۔۔۔مولانا صاحب نے ان دنوں خزاں جائے بہار آئے نہ آئے کا شگوفہ چھوڑا۔۔۔۔پھر واقعی خزاں تو چلی گئی لیکن بہار بھی نہ آئی۔۔۔۔۔یہی تو وہ سوال ہے جس کا جواب نہیں مل رہا کہ حضرت صاحب جب خزاں چلی گئی تو بہار کیوں نہ آئی۔۔۔۔؟؟؟المیہ یہ ہے کہ اشرافیہ” شرعی” ہو یا “غیر شرعی”۔۔۔۔۔۔مہنگائی ان کا مسئلہ ہی نہیں۔۔۔۔۔ان کے “چونچلے” ہی اور ہیں۔۔۔۔۔۔انہیں کیا خبر کہ “افلاسیہ”کی دنیا کیسی ہوتی ہے؟؟؟انہیں کیا علم کہ بھوک اور ننگ کیا ہوتی ہے۔۔۔۔؟؟اندازہ کیجیے کہ عوام کو دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہیں لیکن ان کے ایک “غم خوار” برطانیہ میں ٹہل رہے تو دوسرے “ہمدرد” اٹک جیل میں دیسی ککڑ اڑا رہے ہیں!!اسے جمہوریت کا حسن کہہ لیں یا مکروہ چہرہ۔۔۔۔عوام کی مرضی !!!بہر حال عوام یہ بھی یاد رکھیں کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں