ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں۔۔۔۔ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم سردار محمد صغیر چغتائی شہید کی یاد میں۔۔

(قسط اول )

از قلم:سردار تنویر الیاس خان(سابق وزیر اعظم آزاد حکومت جموں و کشمیر بانی رہنما استحکام پاکستان پارٹی)

شہادت کا مقام وہ ہے جس کے لیے ہر مسلمان تمنا کرتا ہے،چونکہ رب کائنات نے اگلی زندگی اور ان کے رزق کےبارے میں خود فرمایا ایک شہادت تو وہ ہے جو میدان کارزار(یعنی کے جنگ کے میدان میں)ہو لیکن دوسری شہادتیں بھی ہیں اور پانی کی موت کو نبی پاک ﷺ نے شہادت قرار دیا ہے لیکن لوگوں کی خدمت کرنا معاشرے سے اضطراب اور پریشانی کو ختم کرنا لوگوں کے درمیان معاملات کو حل کرنا اور لوگوں کے دکھوں کا مداواکرنا”سردارصغیر چغتائی شہید“آخری دم تک یہی کرتے رہے تھے اور اُن کا اس دنیا سے جانا یقینی طور پر شہادت کی موت ہے۔ہماری شریعت مطہرہ نے شہادت کا جو مقام دیا ہے ہر کوئی مسلمان یہ چاہتا ہے کہ اُس کو کسی نہ کسی صورت شہادت کی موت ہو۔”سردار صغیر چغتائی شہید” کی شہادت اعلیٰ و عرفہ شہادتوں میں شمار ہوتی ہے۔ربِ العالمین قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے(كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ)”ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے”حضرت آدم علیہ السلام سے لے کے رسالت مآب حضرت محمد ﷺ جو وجہ تخلیق کائنات ہیں ہر ایک اس موت کے مرحلے سے گزرا۔رسالت مآب حضرت محمدﷺ نے فرمایا کہ مجھے حضرت آدم علیہ السلام جد بنی نوع انسان ہیں ان پہ دو چیزوں پر مجھے فضیلت حاصل ہے کہ ایک کہ میری بیویاں اچھائی اوربھلائی میں میرا ساتھ دیتی ہیں اور اُن کی بیوی نے غلطی کرنے میں اُن کا ساتھ دیا اور دوسرا یہ کہ اُن کے ساتھ جو شیطان تھا وہ کافر تھا۔مجھ پر رب العالمین کی خصوصی رحمتیں ہیں جن کی وجہ سے میرے آگے پیچھے صرف بھلائی اور مسلمان ہیں۔کچھ فیصلے اور کائناتی قوانین ایسے ہیں کہ ان میں انسان کو صرف اپنے رب کی رضا کے ساتھ راضی رہنا ہوتا ہے اُس میں سے ایک دنیاوی زندگی گزارنے اور اپنے وقت کے مکمل ہونے پر واپس ابدی اور ہمیشہ رہنے والے اپنے خالق کی طرف لوٹنا ہوتا ہے۔

سردار صغیر چغتائی شہید” میرے چاچا محترم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے دوست اور غم گُسارمعاملات کو سمجھنے والے اور اُن کو حل کرنے والے تھے۔”سردار صغیر چغتائی شہید” کی کمی ایسی ہے کہ ہم سنبھل نہیں پا رہےاور آنسو کی لڑیاں تھم نہیں رہی ہیں۔اللہ جانتا ہے کہ “سردارصغیر چغتائی شہید” کی شہادت کے بعد مجھے اپنے دادا کی اولاد میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں ملتا جو کم از کم”سردارصغیر چغتائی شہید“کی 25 فیصد کمی کو بھی پورا کرے اُن کی شہادت نے ہمارے خاندان کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔وہ فرسٹ ائیر میں تھے جب میں سکول شروع کیا لیکن بعد میں چونکہ انہوں نے پڑھائی میں وقفہ کیا وہ سیاست اور کرکٹ میں (Involve) تھے جب وہ ایل ایل بی کر رہے تھے میں میڑک میں تھا اور پھر جب وہ ایل ایل بی فائنل ائیر میں تھے تب میں سیکنڈ ائیر میں پہنچ گیا۔ہم راولپنڈی میں رہتے تھے میرے دوسرے چاچا سردار محمد رؤف صاحب،”سردارصغیر چغتائی شہید“اور میں بیچلر رہتے تھے اور اس طرح ہماری (Understanding) بہت اچھی تھی”سردارصغیر چغتائی شہید” کو میرا بولڈ بے باک انداز بہت پسند تھا جس کی وہ بہت حصلہ افزائی بھی کرتے تھے وہ اپنے تمام سیاسی و سماجی معاملات میں سب سے پہلے میرے ساتھ مشورہ کرتے تھے۔میری اور “سردارصغیر چغتائی شہید” کی (Understanding) اتنی اچھی تھی کہ ہماری باڈی لینگو ئج کو دیکھ کر دوسرا سمجھ جاتا تھا کہ یہ کیا سوچ رہے ہیں۔

1981 میں”سردارصغیر چغتائی شہید“جب فرسٹ ائیر میں تھےانہوں نے پی ایس ایف (PSF) سے اپنی سیاست کا آغاز کیا 1990،91 میں غازی ملت سردار محمد ابراہیم خان رحمتہ اللہ علیہ کو جب وزیر اعظم نہیں بنایا گیا تو (JKPP) کی بنیاد الشمس ہوٹل راولپنڈی صدر میں رکھی گئی میرے ایک اور کزن سردار زاہد چغتائی اور”سردارصغیر چغتائی شہید”مظفر آباد میں غازی ملت کے وزیر اعظم نہ بننے پر دھاڑیں مار کر روئے۔میرے کزن سردار زاہد چغتائی جو اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں جو مرتے دم تک یہ کہتے رہے کہ ہمارے لوگوں نے یہ کیسے برداشت کر لیا کہ یہ غازی ملت جیسی بڑی شخصیت کو وزیر اعظم نہیں بنایا گیا۔

جب سردار خالد ابراہیم خان(مرحوم) نے اسمبلی سیٹ اور سیاست سے کنارہ کشی کا فیصلہ کیا تو میں اور میرے ماموں سردار رفیق خان(مرحوم)”سردارصغیر چغتائی شہید” اُن کے گھر گئے وہاں پر تین سو زیادہ لوگ پونچھ کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے تھے۔سردار خالد ابراہیم خان(مرحوم)اُس وقت ہری پور میں تھے اور تین چار گھنٹے بعد اپنے سفر سے لوٹے چونکہ اتنے بڑے لوگوں کے بیٹھنے کے انتظامات موجود نہ تھے لیکن لوگ انتہائی جذباتی اور محبت کا اظہار کر رہے تھے کہ نہ آپ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر سکتے اور نہ ہی اسمبلی سے استفیٰ دے سکتے ہیں۔جب سردار خالد ابراہیم خان(مرحوم)و اپس آئے تو انہوں نے بڑی تحمل مزاجی اور بُردباری سے ہر ایک آدمی کی بات سُنی خصوصاً پونچھ کے لوگ جذبات اور انتہائی محبت میں سراپا احتجاج تھے کہ آپ کو سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرنے دیں گے لیکن سردار خالد ابراہیم خان(مرحوم)اپنی اس بات کے اوپر قائم تھے۔میں نے کھڑے ہو کر بغیر کسی پلاننگ کے یہ کہا کہ جناب خالد صاحب چونکہ دوسرے حلقوں سے بھی لوگ یہاں آپ سے محبت کا اظہار کرنے آئے ہوئے ہیں لیکن ہمارے اس حلقے کے لوگوں نے آپ کو منتخب کر کے اسمبلی میں بھیجا آپ ان لوگوں کی مشاورت کے بغیر اسمبلی سیٹ نہیں چھوڑ سکتے اور دوسرا میں نے یہ کہا کہ مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان( جن کے مقام اور مرتبے اور اُنکی جید پوزیشن کا میں ذاتی معترف اور انتہائی احترام کرتا ہوں)لیکن مجاہد اول نے نواز شریف صاحب کو یہ ثابت کیا کہ پونچھ میں کوئی اپوزیشن نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ انہوں نے غازی ملت اور آپ کے درمیان اختلاف پیدا کر دیئے یہ بات میں نے شاید تھوڑے سخت انداز میں کہی۔واپسی پر”سردارصغیر چغتائی شہید” نے مجھے یہ کہا کہ تنویر صاحب آپ کو اتنے سخت انداز میں یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی جس پر میں نے جواب دیا کہ میرا اتنے سخت انداز میں بات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا بس پونچھ کے لوگوں کے جذبات دیکھ کر میں بھی جذباتی ہو گیا۔

اگلے دن سردار خالد ابراہیم خان (مرحوم) نے”سردار صغیر چغتائی شہید“کو فون کیا کہ میں آج آپ کےگھر پر آپ لوگوں کے ساتھ لنچ کروں گا اور میرا بھی پوچھا کہ وہ گھر پر موجود ہونگے۔میرے اندر تھوڑی یہ خلش موجود تھی کہ شاید میں نے اُس دن تھوڑے سخت انداز میں بات کر لی ہو لیکن میرے لیے یہ حیرت کی انتہا تھی کہ جب وہ آئے میرے ساتھ بہت محبت بھرے انداز میں ملاقات کی اور بیٹھنے کے بعد”سردار صغیر چغتائی شہید“کو مخاطب کرتے ہوئے مجھے کہا(جو کہ خالد صاحب کا ایک مخصوص انداز ہوتا تھا،اللہ ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ایسے لوگ دنیا میں بہت کم ہوتے ہیں)کہ کل تو تنویر صاحب نے کمال کر دیا میں بالکل توقع نہیں کر رہا تھا کہ تنویر صاحب اس طرح بات کر دیں گےاس پر”سردار صغیر چغتائی شہید” نے کہا کہ میں نے کل واپسی پر ہی ان کو کہا تھا کہ(تسیں باوں ڈاڈیا ذباناں وچ گل کری شوڑی)خالد صاحب نے جواب دیا کہ نہیں تنویر صاحب جس انداز میں بات کہ اس انداز میں ہر کوئی یہ بات نہیں کر سکتا اس لیے مجھے یہ بہت اچھا لگا ویسے تو خالد صاحب بلکل ہمارے فیملی ممبر کی طرح تھے لیکن اس طرح کی بات ان سے پہلی دفعہ ہوئی جس کو انہوں نے بہت پسند کیا اور بہت حوصلہ افزائی کی ۔

چونکہ اس سے تین چار دن پہلے نواز شریف صاحب راولاکوٹ تشریف لے گئے تھے جس پر مجاہد اول سردار عبدلقیوم خان نے غازی ملت کے گھر پہ جا کے ان سے درخواست کی آپ جلسے میں تشریف لائیں چونکہ غازی ملت اور مجاہد اول کا آپس میں بڑی عزت و احترام کا رشتہ تھا اور ایک دوسرے کا بہت خیال بھی رکھتے تھے اس پر غازی ملت نے مجاہد اول کی درخواست پر اس جلسے میں چلے گئے اور سٹیج پر بیٹھے جس پر سردار خالد ابراہیم خان (مرحوم) نے ناراضگی کا اظہار کیا ۔ وہ یہ سمجھتے تھے ہمیں اس جلسے میں شرکت نہیں کرنی چاہیے ۔ اس کے نتیجے میں سردار خالد ابراہیم خان (مرحوم) نے غازی ملت سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا تھا جو بعد میں انہوں نے وہ فیصلہ واپس لے لیا۔

ایک اور بات جو آپ کے ساتھ شئیر کرتا چلوں کہ سردار یعقوب خان (سابق صدر اور وزیر اعظم آزاد کشمیر) میں اور “سردار صغیر چغتائی شہید” صاحب راولپنڈی اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے کہ اچانک سردار صاحب تشریف لے آئے ( چونکہ سردار صاحب سے چالیس پنتالیس سالوں پر محیط تعلق اور تعلق بھی ایسا کہ فیملی ممبر اور بہت عزت و احترام کا رشتہ ، سردار صاحب ایسے اوصاف کے مالک تھے کہ جب بھی انکو یاد کرتا ہوں تو ان کے لیے اچھے الفاظ اور اللہ تعالیٰ سے ان کےلیے خصوصی دعا کرتا ہوں)۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے سردار صاحب نے میری اور “سردار صغیر چغتائی شہید” کی طرف دیکھتے ہوئےسردار یعقوب خان کے حوالے سے کہا)اپنے دوستے کولا پوچھا اگر حلقہ ترے نہ ٹکٹ میں کی دینے تائے میں تیار دیس( میں اس پہ بہت خوش تھا کہ آپ یعقوب صاحب کو اپنے ساتھ لیں کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ جنرل حیات صاحب کی پارٹی بھی یہ چلاتے تھے اور یعقوب صاحب مالی طور پر بہت بہتر پوزیشن پر تھے تو وہ سردار خالد صاحب کی بھی سپورٹ کریں گے۔لیکن خالد صاحب یہ کہتے تھے کہ میں کنڈیشنل پارٹی میں کسی کو بھی رکھنے کا قائل نہیں ہوں۔

سردار صغیر چغتائی شہید معتدل مزاج اور عاجزی و انکساری کا عملی نمونہ تھے انکی شخصیت کے کئی گوشے اور اوصاف ہیں جس سے بہت سے لوگ واقف نہیں ہیں جو کہ ایک مضمون میں یقینی طور بیان نہیں کیے جاسکتے اسی لیے قارئین کے لیے قسط اوّل کے بعد سردار صغیر چغتائی شہید کی شخصیت کے کئی اہم پہلو اور حسین یادوں کا تذکرہ جاری ہے۔۔۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں