میثاق پاکستان۔۔۔۔۔۔۔!!!

تحریر:امجد عثمانی
مکرر عرض ہے کہ ہمارے “سکینڈل زدہ” سیاستدان اپنی اپنی پارٹی کے لیے”ریڈ لائن”ہیں تو ریاستی اداروں کی بھی ایک “سرخ لکیر” ہے۔۔گفتگو کے بھی کچھ آداب ہیں اور زبان کے لیے بھی ایک”پیمانہ”طے ہے۔۔۔لہجہ توازن کھودے تو” بیا نیے” الجھ جاتے ہیں۔۔۔۔مومن خان مومن نے کہا تھا:
الجھا ہے پاﺅں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا
پاکستانی سیاست کے ایک اور “صیاد” اپنے ہی جال میں پھڑ پھڑا رہے اور ان کے ہم نوا” طیور” اڑانیں بھر رہے ہیں۔۔۔۔۔موسمی پرندے “بہار پسند” ہوتے ہیں۔۔۔۔وہ “خزاں” میں کہاں چہکتے ہیں۔۔۔۔۔ہاں “طائر لاہوتی”کی بات اور ہے لیکن وہ “نایاب” ہوتا ہے۔۔۔..بقول علامہ اقبال:
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سےآتی ہو پرواز میں کوتاہی
جمہوریت میں عوام بنیادی شراکت دار ہوتے ہیں لیکن ہماری جمہوریت کا”باوا آدم” ہی نرالا ہے کہ یہاں عوام کو صرف ووٹ ڈالنے والے روبوٹ”سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔فارسی مقولہ ہے کہ آزمودہ را آزمودن جہل است۔۔۔۔”سیاسی جتھا بندی”بھی آزمایا ہوا “تجربہ” ہے۔۔۔۔۔۔ماضی کی طرح یہ “عارضی بندوبست ” آخر کب تک چلے گا؟؟تلخ حقائق یہ ہیں کہ تحریک انصاف کے اقتدار کے ساڑھے تین سال بد تر تھے تو پی ڈی ایم کا ایک سالہ دور حکومت بدترین ہے۔۔۔۔۔۔”مہنگائی مکاﺅ تحریک” کے بل بوتے پر “مسند اقتدار”سنبھالنے والی تجربہ کار شہباز حکومت “عمرانی دور “کی بے لگام مہنگائی کے “مکروہ قدم” ہی روک لیتی تو اسے آج الیکشن سے اتنی خوفناک گھبراہٹ نہ ہوتی۔۔۔۔۔بادی النظر میں پی ڈی ایم حکومت کا آج دوسرا اور آخری وفاقی بجٹ ہے۔۔۔۔حکمران اتحاد کا یہ”مشترکہ میزانیہ”ن لیگ، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی سمیت تیرہ سیاسی جماعتوں کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔۔۔۔ساڑھے چار سال سے مہنگائی کی چکی میں پستے عوام کو سکھ کا سانس نہ ملا تو انتخابی نتائج “نوشتہ دیوار” ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔الیکشن جب بھی ہوں” گراں قدر” حکمران اتحاد کو “مہنگے” پڑیں گے کہ جمہوریت میں ووٹ ہی بہترین انتقام ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجب تجربہ کار ٹیم ہے کہ ابھی تک عمران خان کی مقبولیت سے گبھرائی بیٹھی ہے۔۔۔”موصوف” تو اپنے اقتدار کے پہلے دو سال میں ہی مقبولیت کھو بیٹھے کہ حکمران اتحاد نے اسے پھر “مقبول” بنا دیا۔۔۔۔۔۔یہ دو ہزار بائیس کی تحریک عدم اعتماد تھی جس نے آخری سانسیں لیتی تحریک انصاف کو” آکسیجن” دیکر بستر مرگ سے میدان میں اتارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو ہزار اکیس کے ڈسکہ الیکشن تو سبھی کو یاد ہونگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔عمران خان کی وفاقی اور عثمان بزدار کی پنجاب حکومت نے ایڑھی چوٹی کا زور لگا لیا لیکن وہ ن لیگ کی پہلی دفعہ الیکشن لڑنے والی خاتون امیدوار سیدہ نوشین افتخار سے ہار گئیں۔۔۔۔۔یہی نہیں تب ن لیگ نے بھی پچھتر اسی فیصد ضمنی الیکشن جیتتے۔۔۔۔۔۔ان دنوں مریم نواز کی مقبولیت آسمان چھورہی تھی۔۔۔پھر ان کے چچا وزیر اعظم اور بہن کے سسر وزیر خزانہ بن گئے تو فلک بوس پذیرائی کا گراف منہ کے بل زمین پر آگرا۔۔۔۔۔ مہنگائی بنیادی فیکٹر تھا اور ہے،جسے یار لوگ کبھی ایک تو کبھی دوسرے کی “محبوبیت” سے تعبیر کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا فضل الرحمان کی پی ڈی ایم دو چار مہینے اور صبر کرلیتی اور پی ٹی آئی حکومت کو چلنے دیتی تو ملک کو یہ “سیاہ دن” نہ دیکھنے نہ پڑتے۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اپنے بوجھ تلے دب کر “مسخ” ہو جاتی۔۔۔۔۔۔عمران خان کی پی ٹی آئی کا بھی وہی “حشر” ہوتا جو دو ہزار آٹھ سے تیرہ پر محیط دور اقتدار کے بعد جناب آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی کا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دلچسپ امر یہ ہے کہ زداری صاحب ایک بار پھر “نئے خواب” بیچ رہے ہیں حالانکہ انہوں نے اپنے متذکرہ “مبارک دور” میں ملک کو گھٹا ٹوپ اندھیروں میں جھونک دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عجب زمانہ تھا کہ لاہور ایسے شہر نے “بھیگے دسمبر” میں بھی بجلی کی بدترین لوڈ شیڈنگ دیکھی جیسے آج کل ان کی اتحادی حکومت کے دوران جون میں گیس کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔ایسی خوفناک صورتحال کے برعکس زرداری صاحب نے لطیفہ نما انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے جیل میں معیشت پر بہت ساری کتابوں کا مطالعہ کیا اور ایسے حل دیے جس سے ہمارے دور میں زرمبادلہ کے ذخائر چوبیس ارب ڈالرز ہوگئے تھے۔۔۔۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ملکی معیشت کو سنبھال کر زر مبادلہ کے ذخائر 100ارب ڈالرز تک پہنچائیں گے۔۔۔۔۔انہوں نے عمران کی طرح “خدائی لہجے” میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ الیکشن تبھی ہوں گے جب وہ کرائیں گے۔۔۔۔۔۔وہی نخوت بھرا “اسلوب بیان” جو عمران خان کو “خاک” کر گیا۔۔۔۔۔وہی عمران خان جنہوں نے پھولوں ایسی مہکتی ریاست مدینہ کا نام لیکر وطن عزیز کے راستے میں کانٹے بکھیرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی نے ملک کی خاطر دوستی کے لیے ہاتھ بڑھایا تو اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔۔۔۔۔کوئی گلے ملنا چاہا تو اس کا گریبان دبوچ لیا۔۔۔۔۔کاش “ہمارے ممدوح “مولانا طارق جمیل “اپنے ممدوح “کو سمجھاتے کہ مکہ سے ہجرت کے بعد ریاست مدینہ کی تاسیس میں “مواخات”کی جھلک ملتی ہے اور فتح مکہ کے دن ریاست مدینہ کے کمال کے ہنگام بھی چشم فلک نے عام معافی کے نظارے دیکھے۔۔۔۔۔۔..۔۔۔ریاست مدینہ کا سبق ہے کہ معافی بہترین انتقام ہے۔۔۔جب کوئی مفتوح ٹھہرے۔۔۔جب کوئی مغلوب ہو جائے۔۔۔جب کوئی غروب ہو جائے۔۔۔۔جب کوئی مسمار ہو جائے تو اس سے کیا لڑنا۔۔۔۔۔ریاست مدینہ تعمیر کا استعارہ ہے۔۔۔۔یہاں تخریب “ممنوع” ہے۔۔۔۔۔یہ شمشیر نہیں قلوب تسخیر کا نظم ہے۔۔۔۔۔ کاش انہیں کوئی دینی رہنما یہ بھی بتاتا کہ عالی جاہ ایاک نعبد ضرور پڑھیے۔۔۔”ننگے پاﺅں”مدینہ منورہ ضرور جائیے لیکن اپنے گریبان میں بھی جھانکیے کہ آپ کے دامن پر کئی بد نما داغ ہیں۔۔۔۔یہ سیاست نہیں کہ من پسند تشریح کر لیں۔۔۔۔۔یہ یورپ نہیں اسلامی اور مشرقی معاشرہ ہے۔۔۔۔۔یہاں “ناجائز بچے” سوالیہ نشان ہوتے ہیں۔۔۔۔یہ یورپ نہیں اسلامی ملک ہے یہاں عدت کے دوران نکاح کو” نکاح پر نکاح” کہتے اور یہ سوالیہ نشان ہوتا ہے۔۔۔۔۔یہ اسلامی معاشرہ ہے اور یہاں کسی نا محرم عورت سے ٹیلی فون پر انتہائی فحش گفتگو بھی سوالیہ نشان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تنخواہ دار دانشور بھی عجب” بت” تراشتے ہیں۔۔۔۔جس کو چاہا “مہاتما” بنا دیا۔۔۔۔۔جیسے آج کل انہیں بلاول میں “بھٹو”دکھائی دے رہے ہیں…….خان صاحب اب مذاکرات کی دہائی دے رہے ہیں لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔۔۔۔کاش وہ اپنے دور اقتدار میں جناب مشاہد اللہ خان مرحوم اور جناب سعد رفیق کی دہائی سن لیتے۔۔۔۔۔ یہ وہی خان صاحب ہیں جنہوں نے میثاق جمہوریت ایسے تاریخی معاہدے کو این آر او قرار دیا۔۔۔وہی چارٹر آف ڈیموکریسی جس نے نوے کی دہائی کی ” ڈرٹی پالیٹکس”کے بطن سے جنم لیا۔۔۔۔۔۔وہی سیاسی دشمنی جس سے ملک کے سابق وزرائے اعظم جناب نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے سبق سیکھا اور دو ہزار چھ میں دو بڑی متحارب سیاسی جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت کے نام سے ایک دستاویز تشکیل پائی۔۔۔شومئی قسمت کہ محترمہ اس معاہدے کے کچھ ہی عرصے بعد جام شہادت نوش کر گئیں مگر یہ میثاق جمہوریت ہی تھا کہ جس کے تحت اگلے دس سال کے دوران ہیجانی سیاست میں قدرے ٹھہراﺅ آیا۔۔۔۔۔۔۔۔بدقسمتی سے دو ہزار چودہ میں ایک بار پھر نوے کی دہائی کی ڈرٹی پالیٹکس لوٹ آئی۔۔۔۔اب کی بار خان صاحب کنٹینر پر چڑھے اور سیاسی اختلاف رائے کو دشمنی میں بدل دیا۔۔۔۔۔”خیر خواہوں” نے جیسے تیسے انہیں ایوان وزیر اعظم بٹھانے کا بندوبست بھی کردیا لیکن وہ اقتدار کے ساڑھے تین سال بھی کنٹینر سے نہیں اترے۔۔۔۔وہ مجموعی طور پر نو سال کنٹینر پر رہے۔۔۔۔انہوں نے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنے مہربانوں کو بھی معافی نہ دی۔۔۔۔۔کون سی ایسی گالی ہے جو انہوں نے اپنے حلیفوں اور حریفوں کو نہ دی ہو۔۔۔۔۔۔ان کے عقیدت مندوں نے بھی یہی ناشائستہ انداز گفتگو اپنایا۔۔۔۔۔یہی وہ نفرت انگیز بیانیہ ہے جس کی کوکھ سے نو مئی کا سانحہ برآمد ہوا۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ لوگوں کے کپتان نے اسی ہیجانی کیفیت میں اپنے سیاسی پاﺅں نہیں جمہوریت کے سر پر کلہاڑی دے ماری۔۔۔۔۔۔بد قسمتی سے وطن عزیز میں سیاسی اور معاشی بحران اس قدر بگڑ گیا ہے کہ اب کسی میثاق جمہوریت یا میثاق معیشت سے کام نہیں چلے گا بلکہ ملک کی بقا کے لیے ایک طویل المدتی “میثاق پاکستان”ناگزیر ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔المیہ یہ ہے کہ سیاسی منظرنامے پر بھی قحط الرجال یے۔۔۔۔۔اب نواب زادہ نصراللہ خان ایسی کوئی معتبر بزرگ شخصیت بھی نہیں کہ جو متحارب سیاستدانوں کو ایک میز پر بٹھا دے۔۔۔۔اب تو خواجہ آصف ایسے سفید بالوں والے “بوڑھےآدمی” ہیں جو جھگڑالو بھائیوں کو نصیحتیں نہیں” ٹچکریں “کرتے ہیں۔۔۔!!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں