خواتین کا عالمی دن،اسلام کا مثالی نظام اور ضلع قصور میں بچیوں کے ساتھ زیادتی کے بڑھتے واقعات


اسلام نے خواتین کو جو حقوق دئیے ان کا تصور بھی دوسری اقوام میں نہیں ملتا۔۔۔۔اگر ہم تاریخ کے اوراخ کو پلٹ کر دیکھیں تو ہر عہد کی خواتین کو کسی نہ کسی مصیبت و حالات سے دو چار رہی ہیں اہل عرب خواتین کو موجب عار سمجھتے تھے اسلام نے انہیں تحفظ بخشا اور ان کے حقوق کو اجاگر کیا، یہ حقوق اسلام نے انہیں اس لیے نہیں دیے کہ خواتین اس کا مطالبہ کر رہی تھیں بلکہ یہ ان کے فطری حقوق تھے جودئیے جانے لازمی تھے۔ اسلام میں عورت کو بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں، بہن جو حقوق دئیے اس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی، اس سے پہلے بیٹیوں کو زندہ درگو ر کردیاجاتا تھا۔۔۔ اسلام نے آکر اس ظالمانہ، مکروہ رسم کا خاتمہ کیا او ر بیٹی کی تعلیم و تربیت اچھے طریقے سے کرنے کا حکم دیا۔ ۔۔۔اسلام میں ماں کو اتنا عالی مقام و مرتبہ اورباعزت درجہ عطا کیا گیا کہ بنی نوع انسان میں سب سے زیادہ حق اسی کا رکھا گیا ہے۔۔۔ اسلام میں بیوی کو بہت سے حقوق حاصل ہیں اور شوہر پر اس کی ادائیگی ضروری قرار دی۔۔۔۔بانی پاکستان نے فرمایاتھا کہ ”کوئی بھی قوم اس وقت تک عظمت کی بلندی پر نہیں چڑھ سکتی جب تک کہ تمہاری عورتیں تمہارے شانہ بشانہ نہ ہوں، ہم بری رسم و رواج کا شکار ہیں،یہ انسانیت کے خلاف جرم ہے کہ ہماری خواتین کو گھروں کی چار دیواری میں قیدی بنا کر رکھا جاتا ہے۔۔۔ ہماری خواتین کو جس ناگفتہ بہ حالت میں رہنا پڑتا ہے اس کی کہیں بھی اجازت نہیں ہے۔“( محمد علی جناح، 1944)
عام طور پر،بہت کم لوگوں کو یہ غلط فہمی ہے کہ خواتین کو با اختیار بنانا اور صنف ایک غیر ملکی ایجنڈا ہے لیکن اس کی واحد غلط فہمی پوری دنیا میں خواتین کو تاریخ کے آغاز سے ہی چیلنجز اور صنفی عدم مساوات کا سامنا رہا ہے ۔ اگر ہم اپنے عالی شان قرآن اور حدیث سے مدد لیں تو معلوم ہو گا کہ دونوں خواتین کے حقوق کے تحفظ پر بھی زور دیتے ہیں جن میں تعلیم، عبادت،آزادی رائے،شریک حیات کے انتخاب،معاشی آزادی اور سماجی کردار کے حقوق شامل ہیں ۔۔۔۔قومی ترقی کو مردوں اور عورتوں دونوں میں وسائل کی مساوی تقسیم کے ساتھ متوازن ہونا چاہیے کیونکہ پاکستان میں خواتین کل آبادی کا تقریباً 51 فیصد ہیں اور خواتین کی فعال شمولیت کے بغیر پاکستان ترقی کی مطلوبہ سطح کو حاصل نہیں کر سکتا۔ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہی اسے غربت کی لعنت وراثت میں ملی اور اس غربت کا بوجھ خواتین کی آبادی پر بہت زیادہ ڈالا گیا جس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کی اکثریت زراعت کے کاموں،گھر کی دیکھ بھال،پانی اٹھانے اور جمع کرنے کے کاموں میں مصروف ہے۔ایندھن کی لکڑی لیکن پیداواری سرگرمیوں میں ان کا کام غیر تسلیم شدہ ہے اور اس وجہ سے معاشی سرگرمیوں میں خواتین کی شرکت کم دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔ورلڈ اکنامک فورم کے 2021 کے جنسی تفریق یا تفاوت کے اعشاریوں میں دنیا کے 156 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 153 ہے۔ جنوبی ایشیا کی بات کی جائے تو آٹھ ملکوں میں پاکستان کا درجہ ساتواں ہے۔ صرف افغانستان ہم سے پیچھے ہے جہاں چار دہائیوں سے مسلسل جنگ اور تباہی کا راج ہے۔کچھ عرصہ قبل تھامسن رائٹرز فاونڈیشن نے دنیا میں خواتین کے لیے خطرناک ملکوں میں پاکستان کو چھٹا ملک قرار دیا۔۔۔۔2019 میں اقوام متحدہ کے آبادی فنڈ(UNPF) نے پنجاب کے آخری شماریات اور حیثیت نسواں پر صوبائی کمیشن کے ساتھ مل کر ایک سروے کیا جس کے مطابق پنجاب کی 15 سے 64 برس عمر کی ہر تین خواتین میں سے ایک عورت تشدد کا شکار ہوتی ہے۔۔۔۔2021 میں پاکستان تحریک انصاف کی اپنی رکن صوبائی اسمبلی زہرہ نقوی نے پنجاب میں 2021 میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والی 80 سے زائد خواتین کے لیے تحریک التوا جمع کرائی۔ یہ سب اعشاریے اور اعدادو شمار سرکاری دعووں کے بالکل برعکس ہیں۔
پھر جبر اور سماجی دباو میں ناکام شادیوں میں پھنسی رہنے والی ذہنی تشدد کا شکار خواتین کے حوالے سے کوئی اعدادو شمار دستیاب نہیں ہیں۔طلاق کے بعد سماجی رویوں کا شکار ذہنی کرب کا شکار عورتوں کے بارے میں بھی کوئی اعدادو شمار نہیں۔ پڑھائی کی اجازت نہ ملنے پر خوابوں کو قربان کرنے والی خواتین کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں۔ملازمت کرنے کی اجازت نہ ملنے پر گھر میں مالی بدحالی کا بوجھ تشدد کی شکل میں ڈھونے والی عورتوں کی زندگی کا کوئی نقشہ اعدادو شمار کی صورت میں موجود نہیں ہے۔ایک سروے کے مطابق اگر میڈیکل کالجز میں خواتین طلبہ کی شرح دیکھی جائے تو 80 سے 85 فیصد ہے لیکن پریکٹس کرنے والی خواتین ڈاکٹر 50 فیصد سے بھی کم ہیں کیونکہ ان کو شادی کے بعد گھر ہستی سنبھالنے کے لیے اپنے شوق اور ارداے کو خیر آباد کہنا پڑا۔ضلع قصور میں گذشتہ چند سالوں سے بچیوں کے ساتھ زیادتی میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں نظر آیا۔یہ وہ کیسز ہیں جو منظر عام پر آئے جبکہ زیادہ تر بد نامی کے ڈر سے کیسز رجسٹرڈ ہی نہیں ہوپاتے اور یوں معاشرے میں آج کی خاتون عدم تحفظ کا شکار ہے ان علاقوں میں آج بھی نوکری یاکاروبار کرنے والی خواتین کی تعداد بہت کم ہیں ٹیچنگ کے علاوہ دوسری محکموں میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی بنیادی وجہ نوکری کرنے والے خواتین کا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یا جن گھرانوں کی خواتین نوکری یا کاروبار کرتی ہوں انہیں غریب تصور کیا جاتا ہے۔ہزاروں کی تعداد میں رپورٹ ہونے والے کیسز میں ایک درجن کو بھی جنسی جرائم کی بنیاد پر سزائیں نہیں ہو پاتیں۔ جنسی جرائم کے مقدمات میں سزا کی شرح تین فیصد سے بھی کم ہے۔عورت جب تک معاشرے میں تحفظ محسوس نہیں کرے گی جب تک اسے برابر مواقعے، برابر انصاف اور برابر حقوق نہیں ملیں گے اس کی عزت نہیں ہوگی۔یہ عزت اسے ریاست دلوا سکتی ہے حقوق نسواں بل سمیت عورتوں کے تحفظ کے لیے بہت قوانین بنائے گئے لیکن ان سب کے باوجودآج بھی اس معاشرے میں عورت عدم تحفظ کا شکار ہے۔

نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں