”عورت مارچ میں شریک افراد کا میڈیکل چیک اپ کرایا جائے تو غیر شادی شدہ ہونے کے باجود شائد ہی کوئی کنوارہ ملے “معروف صحافی اکمل سومرو نے نئی بحث چھیڑ دی

تحریر:اکمل سومرو

بنیادی نکتہ یہ اٹھانے کی ضرورت ہے کہ عورت مارچ میں Gay, Lesbian, Bisexual افراد کی شرکت ہمارے سماج کی خواتین کی نمائندگی نہیں کرتی اور یہ جتنی قلیل ترین تعداد میں ہیں انھیں خود کو نمائندہ کہلوانے کا حق بھی نہیں ہے۔میں نے پہلی بار عورت مارچ کی لاہور میں کوریج کی اور مجھے براہ راست مشاہدہ کرنے کا موقع ملا کہ مارچ مین شریک زیادہ سے زیادہ 300 افراد میں اکثریت لڑکوں کی تھی اور مارچ میں شریک یہ قلیل تعداد وہاں صرف موج مستی کیلئے آئے ہوئے تھے۔یہ بات بہت ہی سخت ترین تصور کی جائے گی کہ ان افراد کے میڈیکل چیک اپ کرائے جائیں تو شاید ہی آپ کو کوئی غیر شادی ہونے کے باوجود کنوارہ ملے۔ان افراد کو انتہائی قریب سے دیکھنے اور مشاہدہ کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ رات کی تاریکیوں میں یہ افراد انسانی اقدار سے آزاد زندگی بسر کرتے ہیں اور نجی محافل میں تفریح کا سامان مہیا کرتے ہیں جنھیں مذہب اور سماجی اقدار سے کوئی سروکار نہیں ہے،مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ مارچ میں لگائے گئے نعروں اور پوسٹرز کی حقیقت ہیرا منڈی کی ان طوائفوں کی مانند ہے جو رات بھر جسم فروشی کرتی ہیں اور صبح اٹھ کر میرا جسم میری مرضی کے نعرے لگاتی ہیں۔یہ قلیل گروہ محض سماج میں انتشار پیدا کرنا چاہتا ہے اور انتشار کا ایجنڈا ہمیشہ استعماری حربہ یا منصوبہ ہوتا ہے۔لاہور،اسلام آباد اور کراچی میں ہونے والے عورت مارچ کی انکوائری کرائی جائے تو مجھے یقین ہے کہ ان کی پشت پناہی کرنے والوں میں مغرب سے شروع ہونے والی LGBT مہم کے حامی ہوں گے۔ایک وائٹ پیپر جاری ہونا چاہیے کہ عورت مارچ کے ذریعے سے پاکستان میں گروہیت کو فروغ کیسے دیا جا رہا ہے اور مذہب بیزار درجن بھر افراد کو عالمی میڈیا حتیٰ کہ قومی میڈیا پر توجہ دینا کن مقاصد کے تحت ہے اور میڈیا مالکان کے اس سے کیا مفادات جڑے ہیں۔عورت مارچ کے اس رجحان سے سماج میں خواتین کے حقوق کی حقیقی آواز کو بھی دبایا جا رہا ہے۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ پاکستان میں عورت مارچ کوئی تحریک نہیں ہے یہ محض سالانہ تفریحی میلہ ہے جس کا عورت کی مظلومیت سے کوئی سروکار نہیں۔( میڈیا کوریج کے دوران جرنلسٹ کے ساتھ کیا کیا ہوا اس پر پھر لکھوں گا)نوٹ: کنوارہ پن کے جملے پر احباب فون کر کے اعتراض کر رہے ہیں، یہ جملہ ان نعروں کے جواب میں لکھا ہے جو مطالبات میں رکھے گئے۔

نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں