جج تماشا

تحریر:بیرسٹر امجد ملک
اور تم چاہو گے نہیں جب تک اللہ نہ چاہے اور اللہ علم کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔۔۔
(سورة الانسان آیت نمبر 30)
پاکستان میں جنرل الیکشن کی مجوزہ تاریخ پر عدالت لگ چکی ہے۔ انتخابات90 دن میں ہوں گے یا اکتوبر میں؟؟ ؟دیکھنا ابھی باقی ہے۔۔۔ عام طور پر جن ججوں پر اعتراض آتا ہے وہ خود کو بینچ سے الگ کرلیتے ہیں لیکن یہاں تو مظاہر نقوی کی آڈیو آگئی، تمام بار ایسوسی ایشنز نے اس جج کیخلاف اتحاد کرلیا ہے، ریفرنس لانے کا اعلان کردیا ہے۔۔۔۔ مظاہرنقوی کو الگ ہوجانا چاہیے تھا۔ اعتراضات کے باعث بنچ نو سے پانچ ہوگیا ہے ۔۔۔۔یہ نہ ہو کہ رہتی کسر نکال دیں اور نوازشریف کی سزا میں دو سال کا اضافہ کر کے ہی اٹھیں۔۔۔۔ اسی لئے عدلیہ عالمی رینکنگ میں نیچے سے ٹاپ کررہی ہے اور انکے ذوالفقار علی بھٹو کے سیاسی قتل ، بے نظیر بھٹو کی سیاسی سزا، نواز شریف کا اقامہ ٹرائل اور مانیٹرنگ جج کا اصول ، اور ظفر علی شاہ کیس میں ڈکٹیٹر بادشاہ کو آئینی ترمیم کا اختیار دینا ، اسکا نظریہ ضرورت کے تحت حلف لینا اور سیاسی مقدمات میں مداخلت کے قصے ، قصے ہی رہتے ہیں قابل تقلید نظیر نہیں بنتے۔۔۔۔ ایڈوکیٹ ایک دوسرے سے ہمیشہ سیکھتے ہیں۔۔۔۔قائد اعظم سے ذوالفقار علی بھٹو اور زمانہ جدید میں وکلاءتحریک کے ذریعے وکلاءنے ہمیشہ مثبت پیغام دیا ہے کہ وکلاءکا پاکستان میں آئین انصاف اور قانون کی حکمرانی پر اعتماد متزلزل نہیں ہوا۔۔۔ وہ جب بھی میدان عمل میں آئے ہیں اعتماد میں اضافہ ہی کرکے جاتے ہیں۔ انکا نوجوانوں نسل کو حوصلہ دینا بنتا ہے اور ایسے اقدامات قابل ستائش ہے۔۔۔
ماضی قریب میں منتخب وزیراعظم کو پانامہ کا کہہ کر اقامہ پر سزا دی۔۔۔جب ایک جج کی سربراہی میں وزیراعظم کے کیس میں ماریوپوزو کے ناول ڈان کے قصیدے پڑھے گئے،نیب ٹرائل میں کوئی کمی نہ رہ جائے مانیٹرنگ جج لگایا گیا اوراسکی نگرانی میں ٹرائل جج ویڈیو دکھا کر نیب چیف کی طرح بلیک میل ہو گیا۔۔۔ کچھ نہ ہوا۔۔۔ جب جنرل الیکشن میں انکی زیر نگرانی ڈبے اٹھائے گئے تو سابق وزیراعظم کی ان کرداروں کیخلاف تحقیقات کی درخواست پر نہیں پارلیمان کو ازخود نیلسن مینڈیلا کی طرز پر سچ اور مصالحت کمیشن تشکیل دینا چاہیے تاکہ سیاست میں نفرت اور تقسیم کا خاتمہ ہو ، ملک کی سمت درست ہو اورریاست آگے چل سکے۔۔۔آئین وہ نہیں جو پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر بنایا ہے بلکہ آئین وہ ہے جو سپریم کورٹ کے ججوں کے ذہنوں میں ہے۔۔۔ تشریح کے نام پر ترمیم کا اختیار تصور کرتے ہیں۔۔۔ یہ صحیح لاجک نہیں ہے۔ جنرلوں اور ججوں کو آئین کے مکمل تابع کئے بناءیہ ملک آگے نہیں جائے گا۔۔۔یہ بہترین موقع ہے کہ فل کورٹ کے ذریعے عدالت عظمی آرٹیکل 84 کی تشریح کردے کہ سیاسی معاملات میں پارلیمان کو موقع دیے بغیر فیصلے کیسے صادر کرنے ہیں۔۔۔اپیل کا حق کس طرح برقرار رکھنا ہے؟؟؟پارلیمانی سربراہ کو کس نے اور کیسے فارغ کرناہے ؟؟؟اگر کرناہے۔اَزخود نوٹس کی کیا حدود ہوں گی؟؟؟ مادر پدر آزاد تو جنگل میں ہوتے ہیں۔۔۔۔
جیل بھرو تحریک بھی اکیاسی کے سکور پر رکی ہوئی ہے۔۔۔۔ قوم کے بچوں کی زبان خراب کرنے کے بعد مہاتما نے سوچا کہ وہ حکم دیں گے اور نوجوان افراتفری کے ذریعے کاروبار مملکت جام کردیں گے،جیلیں بھردیں گے۔۔۔۔صرف اکیاسی لوگ سامنے آئے اور جو آئے انکو بھی اب پائل کی شکائت ہے۔۔۔۔نظام مملکت چلانا گڈے گڈی کا کھیل نہیں۔۔ یہی شہباز شریف نے عمران کو بتایا ہے۔۔۔ مسلم لیگ نواز کے لوگ مہینوں جیلوں میں رہے لیکن سیاسی برداشت کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا۔۔۔ عمران خان نے اب مریم نواز شریف کے خلاف زبان درازی کا آغاز کردیا ہے۔۔۔ بغض اور نفرت لاعلاج مرض ہے۔ بدتمیز ی بدتہذیبی،اور جنرل باجوہ کی بگاڑی ہوئی لگڑ بگڑ قوم سیاسی شعور سے نابلد ہے۔۔۔۔مریم نوازپر لفاظی حملہ کمزور کردار کا عکاس ہے۔۔۔ جس نے کبھی ماں ،بہن ،بیوی، بیٹی کے رشتے کو نہ جانا نہ عزت دی،اسکا معاشرے/اخلاق سے کیا لینا دینا۔۔۔۔چوٹ ٹانگ پر نہیں سر پر لگی ہے۔۔۔ اللہ صحت دیں کیونکہ ”مرد ناداں پرکلام نرم و نازک بے اثر“۔
ریٹائرڈ فوجیوں کی پکڑ دھکڑ کی بجائے سپاہ سالارریٹائرڈ افسران اور انکے اہل خانہ کو اسی ذریعے سے پیغام بھجوائیں جس سے دھرنوں کی سپورٹ کیلئے بلایا جاتا تھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن سمیت اب جا چکا ہے،اب ادارے نیوٹرل مقام کیطرف گامزن ہیں۔۔۔فوج سب کی ہے اور سب کے لئے ہے۔۔۔ پنشنرز دوبارہ بھی جنگ کی صورت میں بلائے جاسکتے ہیں ۔۔۔ابھی اپنے آپ کو متنازعہ نہ بنائیں اور وہ آرام کریں ۔اب عمران خان انکی ڈارلنگ نہ ہے۔۔۔۔اب معاملہ ختم شد ہے۔۔۔۔ سیاست کا سلطان عوام اب مستقبل کا تعین کرے گی۔۔۔ پاکستان میں چلتی بحث کا منتقی انجام یہی نظر آتا ہے کہ سیاستدان سمیت ججز، جنرلز،بیوروکریسی کا یکساں احتساب ہو تاکہ عوام کا ان اداروں پر اعتماد بحال ہوسکے۔۔۔۔ آئین کی چھتری تلے تمام اپنے آپ کو پارلیمان کے سامنے جواب دہ کرلیں۔۔۔۔ امیر ادارے غریب عوام کی سادگی مہم میں اپنے ڈالر بھی ڈالیں۔۔۔۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی کابینہ اور معاونین خصوصی کی تنخواہیں اور مراعات کی واپسی کااعلان کر کے سب کو پیغام دے دیا ہے کہ نوشتہ دیوار پڑھو۔۔۔اب قومی خزانہ انکا متحمل نھیں ہو سکتااوراب ریاست کا بوجھ بانٹنا اپنا بوجھ خود اٹھانا اور لوٹا مال لوٹانا ہو گا۔۔۔۔اسی میں سب کی بقا ہے۔۔۔۔ اب مائی وے اور ہائی وے والا معاملہ ہے۔۔۔۔ کابینہ کو قائداعظم کے فرمودات کے مطابق چائے پر کابینہ میٹنگ ، دال روٹی پر گزارا اور بھوکے پیٹ گھر جانے کی عادت ڈالنا ہوگی۔۔۔۔ وگرنہ عوام اگر مجبور ہوگئے تو وہ امیروں کے گھروں میں گھسنے سے گریز نہیں کریں گے تو پھر کیا بنی گالہ اور کیا جاتی امرا۔۔۔قحط الرجال میں سچ کی تلاش،راستہ ،سمت اور راہنمائی سب ہی مشکل کام ہیں۔۔۔۔پاکستان حیران کن انداز میں حبیب جالب،فیض احمد فیض اور احمد فراز جیسے بہادر سچ نگار پیدا کرتا جاتا ہے کہ کبھی کبھی سب جھوٹ لگنے لگتا ہے۔۔۔اللہ ان سب بچے کھچے موتیوں کی پاکستان میں سچ کی پروان کیلئے آبیاری کریں آمین۔۔۔اس ہفتے ایک جوان آدمی کا جنازہ پڑھا ہے۔۔۔ زندگی بہت مختصر ہے۔ لڑائی اور سازشوں کی بجائے لوگ اچھے اخلاق ، سلوک اور کام کو یاد رکھتے ہیں۔ ۔۔بس یہی یاد رکھنا چاہیے کہ آدمی نے ایک دن واپس جانا ہے اور یہ دنیا مختصر قیام گاہ ہے۔۔۔ اچھا بنیں اور اچھائی کا فروغ دیں۔یہی کام آنا ہے۔ ۔۔
(بیرسٹر امجد ملک برطانوی وکلاءکی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے چیئرمین ہیں اور برطانیہ میں انسانی حقوق کا سن 2000 کا بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں, وہ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں(
نوٹ:معزز کالم نگار کی آراءسے ”پاکستان ٹائم “ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں