کاتب وحی جلیل القدر صحابی سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

تحریر: مولانا مجیب الرحمن انقلابی
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ خوش نصیب انسان ہیں جن کو جلیل القدر صحابیؓ ہونے کے ساتھ ساتھ کاتب وحی اور پہلے اسلامی بحری بیڑے کے موجد ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپؓ کی بہن حضرت سیدہ امّ حبیبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حضور اکرم ﷺکی زوجہ محترمہ اور امّ المومنینؓ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے،سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ خوش قسمت ہیں کہ جن کو کتابت وحی کے ساتھ ساتھ حضور ﷺ کے خطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل ہوئی۔آپؓ نے 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی،آپؓ کے لیے حضور ﷺ کی زبان مبارک سے کئی مرتبہ دعائیں اور بشارتیں نکلیں۔۔۔سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضور ﷺ نے ارشادفرمایا کہ!اے اللہ معاویہؓ کو ہدایت دینے والا،ہدایت پر قائم رہنے والا اور لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت بنا۔(جامع ترمذی687/5) سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں حضور ﷺ نے فرمایا کہ!اللہ تعالیٰ قیامت کے دن معاویہؓ کو اس حالت میں اٹھائیں گے کہ ان پر نورِ ایمان کی چادر ہوگی۔(کنز العمال: 19/6)حضور ﷺ نے ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا کہ! معاویہ بن ابی سفیانؓ میری امت میں سب سے زیادہ بردبار اور سخی ہیں۔(تطہیر الجنان ص 12)
تاریخ اسلام کے روشن اوراق آپؓ کے کردار و کارناموں اور فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں۔
آپؓ کے والد سیدناحضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرداران قریش میں سے ہیں اور فتح مکہ کے موقعہ پر حضور ﷺ نے ان کے گھر کو بھی”دارالامن“ قرار دیا۔سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سلسلہ نسب پانچویں پشت میں حضور ﷺ سے مل جاتا ہے۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سروقد، لحیم و شحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی، آنکھیں موٹی، گھنی داڑھی،وضع قطع،چال،ڈھال میں بظاہر شان و شوکت اور تمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد و تواضع،فروتنی،حلم و بردباری اور چہرہ سے ذہانت و فطانت مترشح تھی۔مشہور روایت کے مطابق آپؓ فتح مکہ کے موقع پر اپنے والد سیدنا حضرت ابوسفیانؓ کے ہمراہ اسلام لائے،سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا تو حضورﷺ نے انہیں مبارکباد دی اور”مرحبا“ فرمایا (البدایہ والنہایہ 117/8)حضور ﷺ چونکہ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سابقہ حالات زندگی اور ان کی صلاحیت و قابلیت سے آگاہ تھے اس لیے انھیں اپنے خاص قرب سے نوازا۔فتح مکہ کے بعد آپؓ حضور ﷺ کے ساتھ ہی رہے اور تمام غزوات میں حضور ﷺ کی قیادت و معیت میں بھرپور حصہ لیا۔قرآن مجید کی حفاظت میں ایک اہم سبب ”کتابت وحی“ ہے۔حضور ﷺ نے جلیل القدر صحابہؓ کرام پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ”کاتبین وحی“ تھے ان میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چھٹا نمبر تھا، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ لکھتے ہیں کہ حضورﷺاسی کو کاتب وحی بناتے تھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا۔(ازالة الخلفاء از شاہ ولی اللہ)
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر رہتے یہاں تک کہ سفر و حضر میں بھی خدمت کا موقعہ تلاش کرتے۔۔۔چنانچہ ایک بار حضورﷺ کہیں تشریف لے چلے تو سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خدمت کے لیے پیچھے پیچھے ساتھ ہو گئے۔راستہ میں حضورﷺ کو وضو کی حاجت ہوئی۔پیچھے مڑے تو دیکھا سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی کا برتن لیے کھڑے ہیں،آپﷺ بڑے متاثر ہوئے چنانچہ وضو کے لیے بیٹھے تو فرمانے لگے۔”معاویہؓ تم حکمران بنو تو نیک لوگوں کے ساتھ نیکی کرنا اور برے لوگوں سے درگزر کرنا۔“حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اسی وقت مجھے امید ہو گئی تھی کہ حضور ﷺ کی پیشین گوئی صادق آئے گی اور میں کبھی نہ کبھی ضرور خلیفہ ہو کر رہوں گا۔
حضور ﷺ آپؓ کی خدمت اور بے لوث محبت سے اتنا خوش تھے کہ بعض اہم خدمات آپؓ کے سپرد فرما دی تھیں۔علامہ اکبر نجیب آبادی ”تاریخ اسلام“ میں رقمطراز ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے باہر سے آ ئے ہوئے مہمانوں کی خاطر مدارت اور ان کے قیام و طعام کا انتظام و اہتمام بھی حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کر دیا تھا۔حضور ﷺ کی وفات کے بعد خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں آپؓ نے مانعین زکوٰة،منکرین ختم نبوت،جھوٹے مدعیان نبوت اور مرتدین کے فتنوں کے خلاف بھرپور حصہ لیا اور کئی کارنامے سرانجام دیے۔عرب نقاد رضوی لکھتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کا خون بہانا پسند نہیں کرتے تھے مگر پھر بھی آپؓ اسلامی ہدایات کے مطابق مرتدین کے قتل و قتال میں کسی سے پیچھے نہ تھے ایک روایت کے مطابق مسیلمہ کذاب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وار سے جہنم رسید ہوا۔۔۔۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جو فتوحات ہوئیں اس میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نمایاں حصہ اور کردار ہے جنگ یرموک میں آپؓ بڑی بہادری اور دلیری کے ساتھ لڑے،خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جہاد و فتوحات میں مصروف رہے اور آپؓ نے رومیوں کو شکست فاش دیتے ہوئے طرابلس،الشام، عموریہ،شمشاط،ملطیہ،انطاکیہ،طرطوس،ارواڑ،روڈس اور صقلیہ کو حدود نصرانیت سے نکال کر اسلامی سلطنت میں داخل کر دیے……سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان علاقوں کی فتوحات کے بعد اب یہ چاہتے تھے کہ اسلام ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب ہے اس کو اب سمندر پار یورپ میں داخل ہونا چاہیے”فتح قبرص“کی خواہش آپؓ کے دل میں مچل رہی تھی یورپ و افریقہ پر حملہ اور فتح کے لیے بحری بیڑے کی اشد ضرورت تھی۔
”بحر روم“میں رومی حکومت کا ایک بہت بڑا بحری مرکز تھا جو کہ شام کے ساحل کے قریب ہونے کے باعث شام کے مسلمانوں کے لیے بہت قریبی خطرہ تھا اسے فتح کیے بغیر شام و مصر کی حفاظت ممکن نہ تھی اس کے علاوہ سرحدی رومی اکثر مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے مسلمانوں کو تنگ کرتے رہتے تھے۔۔۔۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے بحری بیڑے کو تیار کرنے کی اجازت ملنے کے بعد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے جوش و خروش کے ساتھ بحری بیڑے کی تیاری شروع کر دی اور اپنی اس بحری مہم کا اعلان کر دیا۔۔۔۔جس کے جواب میں جذبہ جہاد سے سرشار مجاہدین اسلام شام کا رخ کرنے لگے…… 28ھ میں آپؓ پوری شان و شوکت،تیاری و طاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ”بحر روم“میں اترے لیکن وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بد عہدی کرنے پر سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ جس میں تقریباً پانچ سو کے قریب بحری جہاز شامل تھے،قبرص(سائپرس) کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص(سائپرس)کو فتح کر لیا،اس لشکر کے امیر و قائد خود سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے،آپؓ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لیے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ کرام جن میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سمیت دیگر صحابہؓ کرام شریک ہوئے۔۔۔۔اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش و خروش سے حصہ لیا،تجربہ کار رومی فوجوں اور بحری لڑائی کے ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بدترین شکست ہوئی اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضور ﷺ نے”امّ حرام“ والی حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر (قسطنطنیہ)میں جنگ کرے گا۔پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی جب سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلی بحری لڑائی لڑتے ہوئے قبرص(سائپرس) کو فتح کر کے رومیوں کو زبردست شکست دی تھی۔۔۔۔اور دوسری بشارت سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور حکومت میں اس وقت پوری ہوئی جب لشکر اسلام نے قیصر کے شہر قسطنطنیہ پر حملہ کر کے اس کو فتح کیا۔۔۔۔۔اس جنگ میں حصہ لینے کے لیے شوقِ شہادت اور جذبہ جہاد سے سرشار صحابہؓ کرام و تابعین دنیا کے گوشہ گوشہ سے دمشق پہنچے ان میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ،حضرت بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور میزبانِ رسول ﷺ سیدنا حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر مدینہ منورہ سے تشریف لا کر اس لشکر میں شریک ہوئے جس کے بارے میں حضورﷺ نے جنت کی بشارت و خوشخبری فرمائی تھی۔

سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دور حکومت فتوحات اور غلبہ اسلام کے حوالہ سے شاندار دورِ حکومت ہے ایک طرف بحر اوقیانوس اور دوسری طرف سندھ اور افغانستان تک میں اسلام کی فتح کے جھنڈے گارڈ دیے،اس کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے راشدینؓ کے ترقیاتی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے اس میں مندرجہ ذیل نئے امور کی داغ بیل ڈال کر اس کو فروغ دیا۔
(1) سیدنا حضرت امیر معاویہ نے سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔(2) سب سے پہلے اسلامی بحریہ قائم کیا،جہاز سازی کے کارخانے بنائے اور دنیا کی سب سے زبردست رومن بحریہ کو شکست دی۔(3) آب پاشی اور آب نوشی کے لیے دورِ اسلامی میں پہلی نہر کھدوائی۔(4) ڈاک خانہ کی تنظیم نو کی اور ڈاک کا جدید اور مضبوط نظام قائم کیا۔(5) سب سے پہلے احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔(6) آپؓ سے پہلے خانہ کعبہ پر غلافوں کے اوپر ہی غلاف چڑھائے جاتے تھے۔آپؓ نے پرانے غلاف کو اتار کر نیا غلاف چڑھانے کا حکم دیا۔(7) خط دیوانی ایجاد کیا اور رقوم کو الفاظ کی صورت میں لکھنے کا طریقہ پیدا کیا۔(8) انتظامیہ کو بلند تر بنایا اور انتظامیہ کو عدلیہ میں مداخلت سے روک دیا۔(9) آپؓ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔(10) آپؓ نے بیت المال سے تجارتی قرضے بغیر اشتراک و نفع کے جاری کر کے تجارت و صنعت کو فروغ دیا اور بین الاقوامی معاہدے کیے۔(11) سرحدوں کی حفاظت کے لیے قدیم قلعوں کی مرمت کر کے اور چند نئے قلعے تعمیر کرا کر اس میں مستقل فوجیں متعین کیں(12) سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا(تاریخ اسلام از اکبر شاہ خان نجیب آبادی)

سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضور ﷺ کی ایک سو تریسٹھ احادیث مروی ہیں،سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آئینہ اخلاق میں اخلاص،علم و فضل،فقہ و اجتہاد،تقریر و خطابت،غریب پروری، خدمت خلق، مہمان نوازی،حسن سلوک،فیاضی و سخاوت،اصابت رائے، عفو و درگزر،اطاعت الٰہی،اطاعت رسول ﷺ،اتباع سنت، جوش قبول حق،تحمل و بردباری،تقویٰ اور خوف الٰہی کا عکس نمایاں نظر آتا ہے۔
سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی وفات سے قبل گھر والوں کو دیگر وصیتوں کے ساتھ یہ وصیت بھی فرمائی کہ! ایک مرتبہ میں سفر میں حضور ﷺکے ساتھ تھا جب آپ ﷺ نے دیکھا کہ میرا کرتہ کاندھے سے پھٹا ہوا تھا آپ ﷺ نے مجھے اپنا کرتہ (قمیص) مبارک عنایت فرمایا،وہ میں نے ایک مرتبہ سے زیادہ نہیں پہنا وہ میرے پاس محفوظ ہے ۔ایک دن حضور ﷺ نے بال اور ناخن ترشوائے میں نے تھوڑے سے بال اور تراشے ہوئے ناخن لے لیے تھے وہ بھی میرے پاس محفوظ ہیں ۔۔۔۔دیکھو! جب میں مرجاوں تو غسل دینے کے بعد یہ ناخن اور بال میری آنکھوں کے حلقوں،نتھنوں اور سجدے کے مقامات پر رکھ دینا اور پھر حضور ﷺکا عنایت کردہ کرتہ مبارک میرے سینہ پر رکھنا اور اس پر کفن پہنانا۔۔۔۔۔مجھے امید ہے کہ حضور ﷺ کی ان چیزوں کی برکت سے اللہ تعالی ٰمیری مغفرت فرما دیں گے۔۔۔ان وصیتوں کے بعد 22 رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی،جلیل القدر صحابی رسولﷺ، فاتح شام و قبرص اور 19 انیس سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکمرانی کرنے والے سیدنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پا گئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں دفن کیے گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں