عثمان بزدار کے “دو نایاب جوڑے”۔۔۔۔۔!!!

عثمان بزدار کے “دو نایاب جوڑے”۔۔۔۔۔!!!
تحریر:امجد عثمانی
صحبتیں مزاج بدل دیتی ہیں۔۔۔۔۔پیر کامل سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں” صحبت کے آداب” میں لکھا ہے کہ جس مجلس یا محفل میں انسان ہوگا اس کے عادات و افعال جذب کر لیتا ہے۔۔۔۔وہ جو کچھ دیکھتا ہے وہی اس کی طبیعت پر غالب آ جاتا ہے۔۔۔۔طبیعت پر صحبت کا اثر بہت زیادہ ہوتا ہے۔۔۔۔ آدمی فیض صحبت سے عالم ہو جاتا ہے۔۔۔۔طوطا تعلیم سے آدمی کی طرح بولنا سیکھ لیتا ہے۔۔۔۔گھوڑا محنت سے حیوانیت کی عادت چھوڑ کر انسانی عادات اختیار کر لیتا ہے۔۔۔۔
“سیدھے سادے جناب” عثمان بزدار ہی کیا۔۔۔۔سیاست کے “اس بازار”میں کتنے ہی “پرہیزگار “بھی “بہک “گئے۔۔۔۔پنجاب کے سابق چیف منسٹر شکوہ کناں ہیں کہ شہر میں صرف وہی گنہ گار ہیں باقی تو سب فرشتے ٹھہرے۔۔۔۔!!!
لاہور کی ایک نجی یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کے نیک نام سربراہ سے پوچھا استاد گرامی قدر!کچھ اپنے شعبے کا حال بھی سنائیے۔۔۔۔انہوں نے آہ بھری اور کہا کچھ نہ پوچھیے ادھر بھی “برا حال” ہے۔۔۔۔اور تو اور دینی مدارس کے اچھے بھلے “با شرع” طلبا آتے ہیں ۔۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے رنگوں میں ایسے رنگ جاتے ہیں کہ عمامے اتار دیتے اور “فرنچ کٹ”ہو جاتے ہیں۔۔۔۔۔
فارسی کا مقولہ اور کیا ہی خوب مقولہ ہے کہ پسر نوح بابدنداں بہ نشست ،خاندان نبوتش گم شد۔۔۔۔۔
علامہ اقبال ایک ہی ہیں اور ان جیسے لوگ ہی یہ دعوی کر سکتے ہیں:
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش افرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف
تدبیر اور تقدیر کی “آنکھ مچولی” چلتی رہتی ہے لیکن “قسام اول”کی تقسیم کے انداز بڑے نرالے ہیں۔۔۔۔اتنے انوکھے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔۔۔۔بعض اوقات جو سوچا بھی نہیں ہوتا وہ عطا ہو جاتا ہے۔۔۔۔یہی وہ “ڈیزائن آف نیچر” ہے جسے قسمت یا مقدر کہتے ہیں۔۔۔۔قدرت کے وہ کرشمے جن پر دانشور بھی انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔۔۔۔عثمان بزدار کی وزارت اعلی بھی قدرت کا ایک کرشمہ تھی کہ تخت پنجاب کے بڑے بڑے دعویداروں کو خبر ہو کہ سب عزتوں اور بادشاہتوں کا مالک اللہ ہی ہے۔۔۔۔۔.باقی سب قصے کہانیاں ہیں۔۔۔۔داستان گو سناتے اور لوگ سنتے رہیں گے!!
المیہ یہ ہے کہ ایسی عطاﺅں کو بھی ہم اپنی خطاﺅں سے داغدار کرکے پوچھتے ہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے؟؟اس سے سنگین جرم کیا ہو سکتا ہے انسان خدا کے کرم کو اپنا کمال سمجھ کر “خدائی لہجہ” اپنا لے۔۔۔۔یہی ریڈ لائن ہے۔۔۔۔یہی زوال کا نقطہ آغاز ہے۔۔۔۔
برا ہو بری صحبت کا کہ یہ ایک طرح کی” سلو پوائزننگ” ہے۔۔۔.میں اپنے ایک اعلی تعلیم یافتہ فلاسفر دوست کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔۔۔۔”مخمور دھوئیں“سے مستور وہ اب ”بابا جی“ کہلاتے ہیں۔۔۔۔۔
مجھے اپنے اس دین دار دوست کے زوال کا بھی صدمہ ہے جسے اللہ کریم نے “برانڈ” بنایا لیکن وہ برے رفیقوں کے جھانسے میں آکر”لنڈا” ہو گیا۔۔۔۔
بات ہو رہی تھی جناب عثمان بزدار کی تو میرے سامنے تیس اگست دو ہزار اٹھارہ کو “نظامت اعلی تعلقات عامہ پنجاب” کی جانب سے جاری کردہ ہینڈ آﺅٹ نمبر1406پڑا ہے۔۔۔۔۔لاہور پریس کلب کے اس وقت کے صدر کی سربراہی میں صحافیوں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعلی عثمان بزدار نے فرمایا کہ جب تونسہ سے چلا تو دو جوڑے لے کر آیا۔۔۔۔۔دو جوڑوں میں ہی واپس جاﺅں گا۔۔۔۔یہ پرکشش جملہ ڈائیلاگ ہی نکلا۔۔۔بزدار صاحب سیاست کی چکاچوند میں چندھیا گئے۔۔۔۔۔وہ “احسن جمیل”لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔۔۔۔ان کا انداز زندگی بدل گیا۔۔۔۔کہتے ہیں ناں جیسا دیس ویسا بھیس۔۔۔۔ انہوں نے تونسہ والے” دو نایاب جوڑے”تونسہ والے صندوق میں رکھ دیے اور روزانہ “نئی شلوار قمیص “کے ساتھ اسی رنگ کی “واسکٹ” پہنتا شروع کردی۔۔۔۔۔پھر انہیں “گلوریا جین” کا بھی علم ہو گیا اور وہ “کیپو چینو”کا راز بھی پا گئے۔۔۔۔۔انہیں نیسلے اور نیسپاک میں فرق بھی خوب سمجھ آگیا۔۔۔۔۔یعنی بارہ کروڑ کے صوبے کے سربراہ نے “زمانہ جاہلیت “سے تہذیب و تمدن کا “سفر”اتنی سرعت سے طے کیا کہ “شریک “دیکھتے رہ گئے۔۔۔۔۔۔
اللہ والے نیک اور صالح لوگوں کی صحبت اور انجام بخیر کی دعا بڑے اہتمام سے کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بستی کے مکین مولانا عبدالحفیظ مکی شدت سے یاد آئے کہ آج ان کی چھٹی برسی بھی ہے۔۔۔۔۔یہ دو ہزار پندرہ کی بات ہے۔۔۔۔۔۔شہر رسول ﷺمدینہ منورہ کی وہ مجلس زندگی بھر نہیں بھولے گی۔۔۔۔۔ہم لوگ مکہ کے بعد مدینہ میں بھی مولانا عبدالحفیظ مکی رحمتہ اللہ علیہ کے ہاں مدعو تھے ۔۔۔۔۔انڈیا سے مولانا زکریا کاندھلوی رحمتہ اللہ کے نواسے مولانا شاہد صاحب بھی شریک مجلس بلکہ مہمان خصوصی تھے۔۔۔۔۔۔مکی صاحب”شرکائے محفل”کا تعارف کراتے کراتے فقیر مدینہ ڈاکٹر احمد علی سراج تک پہنچے تو فرمایا کہ یہ ہمارے ڈاکٹر صاحب ہیں۔۔۔۔۔برسوں کویت میں مقیم رہے۔۔۔۔۔کویت اسلامی بینک میں ایگزیکٹو اور وہاں کی مسجد غانم میں خطیب بھی تھے۔۔۔۔۔سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر مدینہ منورہ آگئے ہیں۔۔۔۔۔۔مولانا شاہد نے ان کی طرف دیکھا اور صرف ایک جملہ فرمایا کہ اللہ ان کا انجام بخیر کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔
انجام بخیر کے باب میں مولانا عبدالحفیظ مکی پر بھی رشک آتا ہے۔۔۔۔۔۔ہندوستان میں پیدائش۔۔۔۔۔۔قیام پاکستان پر لائل پور ہجرت۔۔۔۔۔۔پھر مکہ مکرمہ میں مستقل قیام۔۔۔۔سولہ جنوری دو ہزار سترہ کو جنوبی افریقہ کے روحانی سفر کے دوران قرآن کی تلاوت کرتے اللہ کے حضور پیشی اور پھر مسجد نبوی شریف میں صبح سویرے بڑے جنازے کے بعد مدینہ منورہ میں صحابہ اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے قبرستان جنت البقیع میں اپنے شیخ مولانا زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے پہلو میں تدفین۔۔۔۔۔۔اس سے اچھا انجام کیا ہو سکتا ہے۔۔۔۔؟
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جس مٹی سے انسان کا خمیر لیا جاتا ادھر ہی سپرد خاک ہوتا ہے:
پہنچی وہیں خاک جہاں کا خمیر تھا
آسمانوں اور زمینوں کا مالک نہ چاہے تو سب چالیں دھری کی دھری رہ جاتی ہیں۔۔۔۔۔وہی بات کہ بندہ تدبیر کرتا اور تقدیر ہنستی ہے۔۔۔۔۔
سب عزتوں کا مالک بھی اللہ ہے۔۔۔۔۔اور۔۔۔سب بادشاہیں بھی اس کی ہیں۔۔۔۔۔عزت اور شہرت میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔۔ضروری نہیں ہر صاحب شہرت صاحب عزت بھی ہو۔۔۔۔کئی شہرت یافتہ عزت کو ترستے دیکھے۔۔۔۔۔۔وہی بات جس کا اعتراف پنجابی شاعر بابا نجمی نے ان الفاظ میں کیا کہ یہ مقبولیت محض اللہ کا کرم ہے۔۔۔۔۔ورنہ تو مجھ سے بھی بڑے بڑے شاعر ہیں۔۔۔انہوں نے بتایا کہ ایک پنجابی ادیب شاعر کی سو کتابیں ہیں لیکن اپنے شہر کے باہر انہیں کوئی نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔۔وہی بات جو ایک ہوٹل کے مالک نے کہی اور کمال ہی کر دیا۔۔۔۔۔سوال کرنے والے نے سوال کیا کہ اتنا ذائقہ ہے۔۔۔۔کھانوں میں کیا ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔اس نے جواب دیا وہی جو سب ڈالتے ہیں۔۔۔۔۔میرا کوئی کمال نہیں یہ اللہ کا کرم ہے کہ وہ میری “ترکیبوں” کو “ذائقے” کا حسن بخش دیتا ہے۔۔۔۔۔۔ایک اللہ والے نے کیا خوب فرمایا کہ زندگی کے ہنگاموں میں نیویں نیویں ہو کر نکل جاﺅ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ مارے جاﺅ گے۔۔۔۔۔۔سیدھا راستہ ہی عزت کا راستہ ہے۔۔۔۔۔۔۔!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں