ثقافت کا لالہ وقار

ثقافت کا لالہ وقار

تحریر:سلطان لالہ

ابھی میکالی کلرک کے کرتوت سامنے لانے کا ارادہ باندھا تھا تو خبر آئی کہ اس دور کا ثقافتی وقار کچھ دنوں بعد زندگی کی اگلی اننگز شروع کرنے والا ہے ایک آہ بھری اور زمانے کی چال پر تف کیا پھر خیال آیاکہ باقار رہنے کے لیے آخری رستہ یہی بچتا ہے۔ پنجاب کی ثقافت پر حملہ کے لیے لارڈلے میکالے کے نصابی کُتے ہی چنے گئے اوار المیہ یہ رہا کہ چنے جانے والے بھی خود کو پنجابی خیال کرتے تھے۔ 14مارچ کی آمد آمد ہے اور “راول ” وقار سرکاری بیڑیوں سے آزاد ہونے والا ہے۔ ناہید منظور سے وقار احمد تک کا سفراتنا آسان نہیں ایک پورا گھر داؤ پر لگا کر اپنا گھر ٹھٹھرتی راتوں میں جلا کر ثقافت کا الاؤ بُجھنے نہ دیا۔ ان کی ذاتی زندگیوں کے مغالطے ایک طرف مگر چار دہائیوں کی خدمت نے اجارہ داری کی شکل بالکل اختیار نہیں کی۔ فکری اور شخصی خاکہ خلوص سے مستعار تاہم خوف کے انتظامی بُت کے آگے زبان حلق تک نہ گئی اور یہ عادت شاید ثقافتی وقار بچانے کے لئے 36 سال تک کم و بیش ساتھ رہی ۔کئی خاکی دور آۓ نون،قاف،پے اور ماشاءاللہ مگر وقار جناب ڈٹے رہے۔ 23 مارچ کی پریڈ گاہ ہو تو چاہے لوک ورثہ معاشی فوائد کا چرچا رہا ایگزیکٹو ڈائریکٹر ،سیکرٹری سب نے مال بٹورہ تو انتظامی مشینری نے سب اچھا کہے کہ شہر اور وقار کو آمنے سامنے کردیا۔شہر نے وقار اور وقار نے شہر سے ہاتھ ملا لیا اور سب اچھا چلتا رہا۔ حال ہی میں وقار نے خبطی کلرک کے ہمراہ چار شیشوں کے میوزیم کا افتتاح کیا مگر حصے میں جی حضوری پر ناہید منظور کی خدمات پر کاٹا لگا کر میکالی کلرک نے دانشمندی کے مسطر پر اپنے قد پر نشان لگایا۔بیچارے سلیم گیلانی کے بیٹے کو جمال ناصر کے ذریعے پیغام ملا ادھر وقار بے خبر رہا۔ وقار نے قریب چار دہائی کا سفر شکر سے ختم کرنے کا عہد کر رکھا ہے مگر جاتے جاتے خوف کے بُت کو ٹھوکر نہ مار کر آنے والے میکالی گماشتوں کی سہولت کاری بھی کی ہے۔شیخ رشید اور حنیف عباسی کے خاکی شہر میں لیاقتی خاک کو خون سے دھویا جاتا رہا ہے۔ تاہم ثقافت کی آبیاری کی ذمہ داری تو لالہ وقار کی تھی جسے ناہید منظور کی توسیع خیال کیا جاتا تھا اور ثقافتی وقار کی سنت کو خوب ادا کیا تاہم جلال کی بجاۓ جمال اور کمال سے کام لینے والےلالے وقار کاعہد اپنے اندر جاذبیت لیےہے ایک اس دور میں جہاں دو نمبر بھرتیوں کا دور دورا ہو، لارڈ میکالے کا نفسیاتی کلرک ذاتی تشفی کے لئے تفویض حدود سے تجاوز کرے تو اس دور میں باوقار رہنے کے لئے جلال ضروری ہوتا ہے ۔جناب وقار کا عہد ریکارڈ پروگرامز کی تاریخ ہے کہنے والے انہیں گزشتہ چار دہائیوں کا انتظامی ثقافتی دیو کہتے ہیں مگر اس دیو کی سب سے بڑی انتظامی عہدے سے شعوری دوری پر خود غرضی کا شائبہ بھی گزرتا ہے جس نے بلا شبہ اداراتی تاریخ کے خدوخال مزید بھدے کر دیے ہیں۔ لالہ وقار ، آپ کی خدمات کی کہانی ایک طرف ،آپ تو نفاست و جمال کے پیش نظر آپ قابل ستائش ہیں۔ آپ جیتے رہیں ان بیڑیوں سے آزادی کے ساتھ لب آزاد ہوں گےآپ بولیں گے ہم سنیں گے تاہم ابھی ہماری کہ جاتے جاتے اس لارڈ میکالے کے کلرک کے داخلے کا دروازہ بند کر جاتے تو آپ کا جلال بھی دیکھتے۔خیر ابھی لالہ، میکالی کلرک کی بات اگلی دفعہ پھر کرے گا تب تک باوقار وقار کو ثقافتی سلام۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں