نو منتخب وزیر اعلیٰ مریم نواز کا اپنا ویژن ہی سب سے بڑا امتحان

تحریر:زینب وحید
“آنکھوں میں چمک،چہرے پر اطمینان اور عزم،الفاظ میں جذبہ،دل میں والدہ کی یاد سے آواز قدرے بھر آئی لیکن غیر متزلزل لہجے میں آواز گونجتی رہی۔مریم نواز نے 26 فروری کی شام پاکستان میں تاریخ رقم کر دی۔نعروں اور تالیوں کی گونج میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو خود بھی اپنی سیاسی جدوجہد پر سرشار نظر آئیں۔۔۔۔کچھ دیر بعد اپنے والد نواز شریف سے ملاقات کے لئے پہنچیں تو بیٹی کی کامیابی دیکھ کر میاں صاحب کا سر بھی فخر سے بلند ہو گیا۔۔۔۔عوام دیکھ رہے تھے بےنظیر بھٹو کے بعد ایک اور خاتون مشکلات کا مقابلہ کر کے مسند اقتدار تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔مریم نواز کا پنجاب کی وزارت عظمیٰ کے منصب پر پہنچنا ہمارے سیاسی منظر نامے میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔انہوں نے سیاسی مرکز میں پہلی خاتون وزیر اعلیٰ کے طور پر چیلنجز قبول کر کے کٹھن سفر کا آغاز کر دیا ہے۔
میں سمجھتی ہوں کہ انہیں بیک وقت سیاسی اور انتظامی محاذوں پر بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔۔۔۔سب سے بڑا چیلنج تو یہ ہے کہ اُن کا اپنا ویژن ہی اُن کا امتحان ثابت ہو گا۔۔۔۔وہ ابھرتی ہوئی ایسی لیڈر کے طور پر سامنے آئی ہیں جو عمران خان کی سیاست اور بیانیے کو کھل کر چیلنج کررہی ہیں۔۔۔۔اُن کی کامیاب سیاست اور جارحانہ تقاریر نے ن لیگ کو دوبارہ میدان میں تو کھڑا کر دیا لیکن اصل امتحان اُن وعدوں پر عمل کرنا ہے جو اُنہوں نے پہلی تقریر میں کیے۔۔۔۔ انہیں نہ صرف اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ذریعے موثر حکمرانی ثابت کرنا ہو گی بلکہ سیاسی نظام پر عوام کے بکھرے ہوئے اعتماد کو بھی دوبارہ قائم کرنا ہو گا۔۔۔سوشل میڈیا کے اس بے باک دور میں خاتون کی حیثیت سے اعلیٰ ترین عہدے پر فائر ہونے کے بعد بعض منفی سوچ رکھنے والے عناصر کے رویوں کا بھی بہادری سے مقابلہ کرنا پڑے گا۔۔۔۔یہ خطرہ اس حقیقت کے باوجود موجود ہے کہ سابق وزیر اعظم کی بیٹی  ہونے کے ناطے انہیں وہ مراعات اور تحفظ حاصل ہیں جو کسی عام سیاستدان کو کبھی حاصل نہیں،اس لئے انہیں ثابت قدمی کے ہتھیار سے مثالی حکمرانی ثابت کرنا ہو گی۔۔۔۔کامیابی کا انحصار نہ صرف حکمرانی کے ٹھوس نتائج ہیں بلکہ اپوزیشن کی ضد کے باوجود ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرنے پر بھی انحصار ہے۔
نوجوان اب کھوکھلے سیاسی نعروں پر یقین کرنے کو تیار نہیں،اس لئے عوامی خدمت اور ویژن کے لحاظ سے اُن کا مقابلہ ایک طرف سندھ کے تین بار وزارت اعلیٰ کا تجربہ رکھنے والے مراد علی شاہ سے ہو گا تو دوسری طرف خیبر پختونخوا میں اُن کے سخت سیاسی حریف علی امین گنڈا پور ہیں۔۔۔شدید سیاسی مخالفت کے ماحول میں اُن کے ہر قدم اور ہر فیصلے کو جانچ پڑتال کی ایسی کڑی سطح سے گزرنا ہو گا جو شاید دوسرے صوبوں میں نہ ہو۔۔۔۔چیلنجز کا ایسا انبار اُن کا منتظر ہے جسے عبور کر کے ہی وہ مقصد میں کامیاب ہوسکیں گی۔۔۔۔اُن کے ناقدین بھی سیاسی طور پر مخالفین کے سامنے مزاحمت کے لحاظ سے اُن کے موقف کے معترف ہیں لیکن بطور حکمران انہیں سیاسی سے زیادہ جمہوری انداز اپنانا ہو گا جس کا اظہار وہ اپنی پہلی تقریر میں کر چکی ہیں۔۔۔۔والدہ کے ساتھ مل کر مشکل حالات کا جس طرح انہوں نے سامنا کیا اور  پھر اپنے والد کے ساتھ مل کر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں،امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کافی سیاسی اور جمہوری داو پیچ سیکھ چکی ہیں۔۔۔۔۔اس معاملے میں مریم نواز کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ والد اور چچا کی صورت میں گھر کے اندر جو سیاسی استاد موجود ہیں اُن سے صلاح مشورے صنف آہن کے ہاتھ اور مضبوط کریں گے۔۔۔۔ بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے ایک بڑے مقصد کی طرف بڑھنے کے لئے وزارت اعلیٰ مریم نواز کی سیڑھی ہے۔اُن کی پرفارمنس پر ہی اُن کی جماعت کے مستقبل کا بھی انحصار ہو گا۔۔۔۔اُن کا یہ بھی امتحان ہے کہ وہ کس طرح وزیر اعلیٰ سے مستقبل میں پارٹی کو کامیابی دلوا کر وزارت عظمیٰ کے عہدے تک پہنچنے میں کامیاب ہوں گی۔۔۔اگر اس منزل پر اُن کے پاوں ڈگمگا گئے تو پارٹی کا مستقبل بھی دھندلا سکتا ہے۔مریم نواز کی پہلی تقریر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے کس قدر پر عزم ہیں۔۔۔۔۔۔۔ان کے پہلے خطاب میں نوجوانوں اور خواتین کو مرکزی حیثیت حاصل رہی۔۔۔۔۔تعلیم اور کلائمٹ چینج جیسے چیلنجز میرے دل کے بہت قریب ہیں۔۔۔۔۔مجھے بہت خوشی ہوئی کہ یہ دونوں ایشوز اُن کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔۔۔۔۔خواتین کو ہراساں کرنا اپنی ریڈ لائن قرار دینے کا خوش آئند اعلان اظہار ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق اور معاشرے میں انہیں آن کا جائز حق دلانے کے لئے کتنی پرعزم ہیں۔۔۔۔یقینی طور پر لڑکیاں اور خاص طور پر طالبات اُس وقت بہت خوش ہوں گی جب اُن کی اعلان کردہ الیکٹرک موٹربائیکس انہیں مل جائیں گی۔۔۔۔۔معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کو اوپر اٹھانا اور انہیں باعزت روزگار کی فراہمی کے لئے ان کا ہوم ورک بتاتا ہے کہ یہ کام بھی وہ کر جائیں گی۔۔۔۔انہوں نے محروم طبقات کو بھی ترقی کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا عزم کیا جس میں ٹرانسجینڈر سمیت دیگر کمیونیٹیز بھی اُن کی ترجیح ہوں گی۔۔۔۔مجھے یقین ہے کہ سگنلز پر معصوم بچوں کے ساتھ بھیک مانگے والی ماوں کے لئے بھی وہ کوئی بہتر انتظام کریں گی۔۔۔۔۔نوجوانوں کو سٹارٹ اپس کے لئے بلاسود قرضوں کی فراہمی،سرکاری سکولوں کو ماڈل بنانے،نصاب کی از سر نو تشکیل اور سکولوں سے باہر بچوں کو واپس علم کی روشنی کی طرف لانے جیسے امور نہایت اہمیت کے حامل ہیں جن پر انہیں شاباش دینی چاہیئے۔پنجاب میں پانچ آئی ٹی سٹیز بنانے کا اعلان،نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے وسائل فراہم کرنا،انٹرن شپ کے دوران 25 ہزار روپے ماہانہ وظیفہ،وسائل کی کمی کے باعث سکول سے باہر بچوں کو واپس لانا اور  پنجاب کے ہر ضلع میں کم از کم ایک دانش سکول کا قیام بھی نہایت خوش آئند اعلانات ہیں۔۔۔۔
میرے فیورٹ ایشو کلائمٹ چینج کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سموگ کے تدارک کے لئے کوششیں کریں گی۔اُن کے پیش رو محسن نقوی صاحب نے بھی اس سلسلے میں کافی قابل قدر کوششیں کیں لیکن ماضی کی طویل غفلت کا نتیجہ اتنی جلدی سامنے  نہیں آ سکتا۔اس لئے نومبر سے بہت پہلے ہی متعلقہ محکموں کو اقدامات شروع کرنا ہوں گے۔ صرف سکولوں میں چھٹیاں دینے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا بلکہ روز روز سکول بند ہونے سے خود اُن کا تعلیم کے فروغ کا مشن متاثر ہو گا۔انہوں نے لاہور سمیت دیگر شہروں کو جدید بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔گذارش ہو گی وہ ریزیلینٹ سٹیز کے جدید طرز پر شہروں کی آباد کاری اور انہیں ترقی دینے کے تصور پر بھی غور فرمائیں جو کلائمٹ چینج کا مقابلہ کرنے کے لئے دنیا بھر میں فروغ پا رہا ہے۔۔۔۔مریم نواز نے پہلے خطاب میں بلاشبہ صوبے کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ایک انقلابی،روایت شکن اور پرعزم جامع منصوبہ پیش کیا۔۔۔۔۔بطور وزیر اعلیٰ پہلی تقریر متاثر کن تھی۔۔۔۔امید ہے اس لب و لہجے کے ساتھ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو پنجاب کی ترقی کے سفر میں شامل کر پائیں گی اور جن ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے اور کارکردگی دکھانے کا عہد کیا ہے،ان تمام وعدوں پر پورا اترتے ہوئے شفافیت یقینی بنا کر گڈ گورننس قائم کریں گی۔۔۔۔سیاسی منافرت کم کرنے اور گڈ گورننس لانا بھی ان کے بڑے امتحانات میں شامل ہے۔۔۔۔۔ان کے پلانز پر کس حد تک عمل ہوتا ہے،یہ تو ہر گزرتے دن کے ساتھ واضح ہوتا جائے گا لیکن مجھے یقین ہے کہ جس طرح شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیر اعظم بن کر ثابت کیا کہ وہ مردوں کے اکثریتی ایوانوں میں کامیابی سے حکومت کرسکتی ہیں،اسی طرح مریم نواز بھی پنجاب کے ایوانوں میں کامیاب حکمران بنیں گی۔۔۔۔۔

زینب وحید اے لیولز کی طالبہ،کلائمٹ چینج،سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،مصنفہ،وی لاگر اور صف اول کی مقررہ ہیں۔وہ یونیسف یوتھ فورسائیٹ فلوشپ 2024 کی ونر ہیں۔عالمی شہرت یافتہ میگزین”اسمبلی”یورپ کے معتبر میگزین “جنرل آف سٹی کلائمٹ پالیسی اینڈ اکانومی”میں ان کے مضامین چھپے ہیں۔پاکستان کے دو قومی اخبارات اور ’پاکستان ٹائم‘ میں بلاگز لکھتی ہیں۔اقوام متحدہ کے تحت امریکہ اور  اٹلی میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ارجنٹائن میں میں انٹرنینشل سی فورٹی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کی۔اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں بطور پینلسٹ شامل ہیں۔مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔نیدرلینڈز کے سرکاری ٹی وی نے زینب وحید کو پاکستان کی گریٹا تھنبرگ قرار دیا ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں