"استقبال رمضان و اعمال رمضان سیرت طیبہؐ کی روشنی میں "

“استقبال رمضان و اعمال رمضان سیرت طیبہؐ کی روشنی میں “

علامہ محمد اسیدالرحمن سعید

قرآن مجید اور احادیث نبوی ؐمیں رمضان المبارک کی بہت زیادہ فضیلت و عظمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کے ثمرات و برکات سے محروم نہ رہ جائیں

1-روزہ کا لغوی اور اصطلاحی معنٰی۔

روزہ کو عربی زبان میں صوم کہتے ہیں ، صوم کا لغوی معنی امساک یعنی “رکنے” کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں صبح صادق سے لیکر غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عمل مباشرت سے رک جانے کا نام روزہ ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : رمضان رمض سے ماخوذ ہے اور یہ ایک بارش ہے جو کہ موسم خریف میں برستی ہے تو اس مہینہ کا نام رمضان اس سبب سے ہوا کہ وہ ایمانداروں کے جسموں کو گناہوں سے دھو ڈالتا ہے اور ان کے دلوں کو گناہوں کی آلودگیوں سے پاک و صاف کردیتا ہے۔
روزہ فرض محکم و فرض عین ہے اور دین کا ایک بڑا رکن ہے ۔
2- روزہ کی شرائط تین قسم کی ہیں۔
الف۔روزہ کے وجوب ہونے کی شرطیں چار ہیں۔
1- مسلمان ہونا، 2- عاقل ہونا۔ 3- بالغ ہونا۔ 4- دارالسلام میں ہونا یا جو شخص دالحرب میں مسلمان ہوا ہو اسکو رمضان کے روزے کی فرضیت کا علم ہونا۔
ب-روزہ کے ادا کی واجب ہونے کی شرطیں دو ہیں۔
1- صحت مند ہونا۔ 2- مقیم ہونا۔
ج-روزہ کے ادا کی صحیح ہونے کی دو شرطیں ہیں ۔
1- نیت ۔ 2- حیض و نفاس سے پاک ہونا۔
3-استقبال رمضان میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ !
حضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کے فضائل اور اس کی خصوصیات کے بیان کا اہتمام فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت سلمان فارسیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے عمومی طور پر ایک تقریر فرمائی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ! اے لوگوں! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے۔ اس مبارک مہینہ کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہونے(یعنی ترایح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیرِ فرض عبادت ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا اجر و ثواب ملے گا اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا اجر و ثواب دوسرے زمانے کے 70 فرضوں کے برابر ہوگا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو(اللہ کی رضا اور اجرو ثواب حاصل کرنے کے لیے) افطار کرایا تو یہ عمل اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دار کے برابر اجر و ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دار کے اجر و ثواب میں کوئی کمی کی جائے ۔ آپؐ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ : اللہ تعالیٰ یہ اجر و ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسّی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دارکا روزہ افطار کرادے ۔اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پیٹ بھر کر کھانا کھلا دے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض(یعنی حوض کوثر) سے ایسا سیراب فرمائینگے جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی حتی کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اس کے بعد آپؐ نے ارشاد فرمایا : اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش دوزخ سے آزادی ہے۔اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادینگے اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی عطا فرمائینگے۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان،مشکوة المصابیح صفحہ 173 جلد 1)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلفاً فرمایا: تم پر ایسا مہینہ سایہ فگن ہوگیا ہے کہ مسلمانوں پر اِس سے بہترمہینہ اور منافقین پر اس سے بڑھ کر برا مہینہ کبھی نہیں آیا۔ پھر دوبارہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حلفاً ارشاد فرمایا: ﷲ تعالیٰ اس مہینے کاثواب اور اس کی نفلی عبادت اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے اور اس کی بدبختی اور گناہ بھی اس کے آنے سے پہلے لکھ دیتا ہے، کیونکہ مومن اس میں انفاق کے ذریعے قوت حاصل کر کے عبادت کرنے کو تیاری کرتا ہے اور منافق مومنوں کی غفلتوں اور ان کے عیب تلاش کرنے کی تیاری کرتا ہے۔‘‘ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ، احمد اور بیہقی نے روایت کیا۔
حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو ﷲ تعالیٰ ان کی طرف نظرِ التفات فرماتا ہے اور جس پر اُس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو ﷲ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ ﷲ ل اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
4- روزہ داروں کیلئے پانچ مخصوص انعام۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کیا ہے کہ میری امت کو رمضان المبارک کے بارے میں پانچ چیزیں مخصوص طور پر دی گئی ہیں جو پہلی امتوں کو نہیں ملی ہیں (1)روزہ دار کے منہ کی (روزہ کی وجہ سے) بو اللہ کے نزدیک مشک وعنبر سے زیادہ پسندیدہ ہے (2)روزہ دار کیلئے دریا کی مچھلیاں تک دعا کرتی ہیں اور افطار کے وقت تک کرتی رہتی ہیں (3)جنت ہر روز (روزہ دار)کیلئے آراستہ کی جاتی ہے پھر حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتے ہیں کہ قریب ہے کہ میرے نیک بندے (دنیا کی) مشقتیں پھینک کر تیری طرف آئیں (4) اس میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں کہ وہ رمضان المبارک میں روزہ دار کو ان برائیوں کی طرف نہیں لا سکتے جن کی طرف غیر رمضان میں لا سکتے ہیں (5) رمضان کی آخری رات میں روزہ داروں کیلئے مغفرت کی جاتی ہے صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا شبِ مغفرت، شب قدر ہے؟ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا نہیں بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہونے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔(بخاری شریف ،کتاب الصوم1894, مسلم شریف2703,2704,سنن ترمذی 764 , مسند احمد37/16)

5-سحری کرنے میں برکت ہے۔
رمضان المبارک میں سحری کھانے کی فضیلت اور اس کے فیوض و برکات کا بکثرت تذکرہ ہمیں احادیث مبارکہ میں ملتا ہے۔ کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بالالتزام روزے کا آغاز سحری کھانے سے فرماتے اور دوسروں کو بھی سحری کھانے کی تاکید فرماتے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے :
1۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِی السَّحُوْرِ بَرَکَةً.
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تأکيد استحبابه، 2 : 770، رقم : 1095
’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
2۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلسُّحُوْرُ أَکْلُهُ بَرَکَةٌ فَلَا تَدْعُوْهُ.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12، رقم : 11102
’’سحری سراپا برکت ہے اسے ترک نہ کیا کرو۔‘‘
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا :
فَإِنَّ اﷲَ وَ مَلاَئِکَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَأ الْمُتَسَحِّريْنَ.
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 12، رقم : 11102
’’اﷲ تعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کرنے والوں پر اپنی رحمتیں نازل کرتے ہیں۔‘‘
4۔ حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْکِتَابِ، أَکْلَةُ السَّحَرِ.
مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فضل السحور و تأکيد استحبابه، 2 : 771، رقم : 1096
’’ہمارے اور اہل کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘

5- عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه یَقُوْلُ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.
أخرجه البخاري في الصحیح،
ترجمہ !
’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔‘‘

6- حضرت عرباض بن ساریہ رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا :
وَهُوَ يَدْعُوْا إِلَی السُّحُوْرِ فِی شَهْرِ رَمًضَانْ، فَقَالَ : هَلُمُّوْاإِلَی الْغَدَاءِ الْمُبَارَکِ.

  1. ابن حبان، الصحيح، 8 : 244، رقم : 3465
  2. بيهقی، السنن الکبری، 6 : 23، رقم : 7905
    ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک میں سحری کے لئے بلاتے اور ارشاد فرماتے : صبح کے مبارک کھانے کے لئے آؤ۔‘‘
    روزے میں سحری کو بلاشبہ اہم مقام حاصل ہے۔ روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اﷲ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔
    6- روزہ چھوڑنے پر وعید ۔
    حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    مَنْ أفْطَرَ يَوْمًا مِنْ رَمَضَانَ، مِنْ غَيرِ رُخْصَة وَلَا مَرَضٍ، لَمْ يقْضِ عَنْهُ صَوْمُ الدَّهْرِ کُلِّه، وَإِنْ صَامَه.
    ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی الإفطار متعمداً، 2 : 93، رقم : 723
    ’’جو شخص بغیر شرعی رخصت اور بیماری کے رمضان کا روزہ چھوڑ دے تو چاہے پھر وہ زندگی بھر روزے رکھتا رہے وہ اس رمضان کے روزے کا بدل نہیں ہو سکتے۔‘‘
    7- روزہ غیبت اور رزق حرام سے روکتا ہے۔
    حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزوں سے بھوک و پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا۔“(مسند امام احمد،ج307ص3،حدیث:8865) اس کا ایک معنیٰ یہ ہے کوئی شخص روزہ رکھ کر حلال کھانے سے تو رُک جائے لیکن لوگوں کا گوشت کھاتا رہے یعنی غیبت کرتا رہے جو حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ یہ بھی معنیٰ ہے کہ حلال کھانے، پینے، جِماع سے تو خود کو بچائے لیکن حرام دیکھنے، بولنے، سننے، کرنے اور کمانے سے نہ بچے۔
    8- تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی۔
    حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین آدمیوں کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ (1)ایک روزہ دار کی افطار کے وقت۔ (2) عادل بادشاہ کی۔ (3) مظلوم کی جس کو اللہ تعالیٰ بادلوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے اور اس کے لیے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور ارشاد ربانی ہوتا ہے! ’’میں تیری مدد ضرور کروں گا گو کسی مصلحت سے کچھ دیر ہوجائے۔‘‘
    (مسنداحمد، ترمذی،صحیح ابن خزیمہ، صحیح ابن حبان، الترغیب والترہیب
    9- روزہ داروں کیلئے جنت کا مخصوص دروازہ ۔
    ‎حضرت سہل بن سعد رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمای :
    ‎إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُوْنَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ : أَ يْنَ الصَّائِمُوْنَ؟ فَيَقُوْمُوْنَ، لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلُوْا أُغْلِقْ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ.
    ‎ بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، 2 : 671، رقم : 1797
    ‎’’جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزِ قیامت اس میں روزہ دار داخل ہوں گے ان کے سوا اس دروازے سے کوئی اور داخل نہیں ہو گا۔ کہا جائے گا : روزہ دار کہاں ہیں؟ پس وہ کھڑے ہوں گے، ان کے علاوہ اس میں سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا، جب وہ داخل ہو جائیں گے تو اس دروازے کو بند کر دیا جائے گا۔ پھر کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔‘‘
    ‎ریان کی وجہ تسمیہ کے بارے میں محدّث ملا علی قاری رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : یا تو وہ بنفسہ ریان ہے کیونکہ اس کی طرف کثیر نہریں جاری ہیں اور اس کے قریب تازہ اور سر سبز و شاداب پھل پھول بکثرت ہیں۔ یا قیامت کے دن اس کے ذریعے سے لوگوں کی پیاس مٹے گی اور ترو تازگی و نظافت چہرے پر ہمیشہ رہے گی۔
    ‎ ملا علی قاری، مرقاة المفاتيح فی مشکاة المصابيح، 4 : 230
    10- ” روزہ اور قرآن کی شفاعت ۔
    عَنْ عَبْدِ ﷲِ بْنِ عَمْرٍو رضي اﷲ عنہما: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، یَقُوْلُ الصِّیَامُ: أَيْ رَبِّ، مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ، وَیَقُوْلُ الْقُرْآنُ: مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّیْلِ فَشَفِّعْنِي فِیْهِ. قَالَ: فَیُشَفَّعَانِ.
    رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْحَاکِمُ، وَقَالَ:صَحِیْحٌ عَلَی شَرْطِ مُسْلِمٍ.
    أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/174، الرقم: 6626، والحاکم في المستدرک، 1/740، الرقم: 2036، والبیهقي في شعب الإیمان، 2/346، الرقم: 1994، وابن المبارک في المسند، 1/59، الرقم: 96، والدیلمي في مسند الفردوس، 2/408، الرقم: 3815، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/181، وقال: ورجاله رجال الصحیح.
    ’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزہ اور قرآن بندے کے لیے قیامت کے دن شفاعت کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے کھانے پینے اور خواہشِ نفس سے روکے رکھا لہٰذا اس کے لیے میری شفاعت قبول فرما اورقرآن کہے گا: اے میرے رب! میں نے اسے رات کے وقت نیند سے روکے رکھا (اور قیام اللیل میں مجھے پڑھتا یا سنتا رہا) لہٰذا اس کے حق میں میری شفاعت قبول فرما۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دونوں کی شفاعت قبول کر لی جائے گی۔
    قارئین کرام! رمضان المبارک کے ماہ سعید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ عبادت و ریاضت اور مجاہدہ میں عام دنوں کی نسبت بہت اضافہ ہو جاتا۔ اس مہینے اﷲ تعالیٰ کی خشیت اور محبت اپنے عروج پر ہوتی۔ اور اسی شوق اور محبت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کا قیام بھی بڑھا دیتے۔ رمضان المبارک میں درج ذیل معمولات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کا حصہ ہوتے۔ 1۔ کثرتِ عبادت و ریاضت۔
    ‎ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے :
    ‎کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إذَا دَخَلَ رَمَضَانَ لَغَيَرَ لَوْنُهُ وَ کَثُرَتْ صَلَا تُهُ، وابْتَهَلَ فِي الدُّعَاءِ، وَأَشْفَقَ مِنْهُ.
    ‎بيهقی، شعب الايمان، 3 : 310، رقم : 3625
    ‎’’جب ماہ رمضان شروع ہوتا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ مبارک متغیر ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوجاتا، اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتے اور اس کا خوف طاری رکھتے۔‘‘
    ‎2۔ سحری و افطاری
    ‎رمضان المبارک میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روزے کا آغاز سحری کھانے اور اختتام جلد افطاری سے کیا کرتے تھے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے سحری کھانے کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
    ‎تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَةً.
    ‎مسلم، الصحيح، کتاب الصیام، باب فضل السحور و تأکید استحبابه. . . ، 2 : 770، رقم : 1095
    ‎’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘
    ‎ایک اور مقام پر حضرت ابو قیس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’ہمارے اور اہلِ کتاب کے روزوں میں سحری کھانے کا فرق ہے۔‘‘
    ‎مسلم، الصحيح، کتاب الصيام، باب فصل السحور و تأکيد استحبابه، 2 : 771، رقم : 1096
    3۔ قیام اللیل
    ‎رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی راتیں تواتر و کثرت کے ساتھ نماز میں کھڑے رہنے، تسبیح و تہلیل اور ذکر الٰہی میں محویت سے عبارت ہیں۔ نماز کی اجتماعی صورت جو ہمیں تراویح میں دکھائی دیتی ہے اسی معمول کا حصہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک میں قیام کرنے کی فضیلت کے بارے میں فرمایا :
    ‎’’جس نے ایمان و احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتوں کو قیام کیا وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس دن وہ بطن مادر سے پیدا ہوتے وقت (گناہوں سے) پاک تھا۔‘‘
    ‎نسائی، السنن، کتاب الصيام، باب ذکر اختلاف يحيی بن أبی کثير والنضر بن شيبان فيه، 4 : 158، رقم : 2208۔2210
    4۔ کثرت صدقات و خیرات
    ‎حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صدقات و خیرات کثرت کے ساتھ کیا کرتے اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ کبھی کوئی سوالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در سے خالی واپس نہ جاتا رمضان المبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سخاوت اور صدقات و خیرات میں کثرت سال کے باقی گیارہ مہینوں کی نسبت اور زیادہ بڑھ جاتی۔ اس ماہ صدقہ و خیرات میں اتنی کثرت ہو جاتی کہ ہوا کے تیز جھونکے بھی اس کا مقابلہ نہ کر سکتے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے :
    ‎فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عليه السلام کَانَ (رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم) أَجْوَدَ بِالْخَيْرِ مِنَ الرِّيْحِ الْمُرْسَلَةِ.
    ‎بخاری، الصحيح، کتاب الصوم، باب أجود ما کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يکون فی رمضان، 2 : 672 – 673، رقم : 1803
    ‎’’جب حضرت جبریل امین آجاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھلائی کرنے میں تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے۔‘‘
    ‎حضرت جبریل علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کی طرف سے پیغامِ محبت لے کر آتے تھے۔ رمضان المبارک میں چونکہ وہ عام دنوں کی نسبت کثرت سے آتے تھے اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے آنے کی خوشی میں صدقہ و خیرات بھی کثرت سے کرتے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث پاک سے کئی فوائد اخذ ہوتے ہیں مثلاً
  3. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جود و سخا کا بیان۔
  4. رمضان المبارک میں کثرت سے صدقہ و خیرات کے پسندیدہ عمل ہونے کا بیان۔
  5. نیک بندوں کی ملاقات پر جود و سخا اور خیرات کی زیادتی کا بیان۔
  6. قرآن مجید کی تدریس کے لئے مدارس کے قیام کا جواز۔
    ‎ نووی، شرح صحيح مسلم، 15 : 6
    5۔ اعتکاف
    ‎رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعتکاف کرنے کا معمول تھا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے :
    ‎أَنَّ النَّبِيَ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّی تَوَفَّاهُ اﷲُ، ثُمَّ اعْتَکَفَ أَزْوَاجُهُ مِنْ بَعْدِهِ.
    ‎بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الا واخر والإعتکاف فی المساجد کلها، 2 : 713، رقم : 1922
    ‎’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک کے آخری دس دن اعتکاف کرتے تھے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج مطہرات نے اعتکاف کیا ہے۔‘‘
    ‎حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر سال رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف فرماتے تھے اور جس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا، اس سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیس دن اعتکاف کیا۔‘‘
    ‎ بخاری، الصحيح، کتاب الاعتکاف، باب الاعتکاف فی العشر الأوسط من رمضان، 2 : 719، ر قم : 1939
    قارئین کرام ! ہمیں اللہ تعالی سے اس ماہِ مبارک میں اپنے لئے ،اپنے عزیز واقارب کیلئے اور وطن عزیز پاکستان بلکہ عالم اسلام کیلئے دعائیں مانگنی ہیکہ اللہ تعالی اس ماہ مبارک میں ہماری عبادات کو اپنی بارگاہِ جلیلہ میں شرف قبولیت عطا فرمائیں اور اس ماہ مبارک کی برکت سے ہم سب کو ایمان صحت تندرستی سلامتی وعافیت والی پُرمسرت زندگی نصیب فرمائیں ۔ آمین یا رب العلمین۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں