وی سی یو ای ٹی وائسرائے بن گئے،سنڈیکیٹ کے اختیارات چھین لیے

لاہور(ایجوکیشن رپورٹر)ملک کی سب سے بڑی انجیئرنگ یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر وائس رائے بن گئے،سنڈیکیٹ کے اختیارات چھین لیے۔سینڈیکیٹ کے بعض ارکان کی طرف سے تحفظات کا اظہار ” پاکستان ٹائمز“ نے سینڈیکٹ کے فیصلے کی کاپی حاصل کرلی۔
تفصیلات کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے وائس چانسلر اور رجسٹرار کے دستخطوں سے جاری نوٹیفکیشن کے تحت وائس چانسلر نے یوای ٹی لاہور کے ایکٹ 1974 کے سیکشن 24 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت اپنی طاقت کا استعمال کیا۔نوٹیفکیشن کے مطابق یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور ایکٹ 1974 میں شامل پہلے قانون کی شق 3(2) کے تحت دیے گئے تدریسی شعبے کے چیئرپرسن اور ایک انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار وائس چانسلر کو سونپ دیا۔

وائس چانسلر نے نئے اختیارا ت ملنے کے بعدکیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کی چیئرپرسن کے عہدے سے مستعفی ہونے والی ڈاکٹر صائمہ یٰسین کو دوبارہ چیئرپرسن،ڈاکٹر شہاب ثاقب کو چیئرمین مائننگ انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ اور ڈاکٹر علی حسین کاظم کو ڈائریکٹر آٹو موٹیو انجینئرنگ سنٹر مقرر کر دیا گیا۔سینئر ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر کو نظر انداز کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر عامر اخلاق کو ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف انوائرنمنٹل انجینئرنگ اینڈ ریسرچ (IEER مقرر کیا گیا۔کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر عامر اخلاق کی پی ای سی کے ایکریڈیشن کے معیار کے خلاف تقرری کردی گئی۔ڈاکٹر سجاد حیدر کا کہنا ہے کہ پی ای سی کے مطابق شعبہ کا سربراہ انجینئر ہونا ضروری ہے ورنہ ایکریڈیشن کینسل ہو سکتا ہے۔ مائننگ کےڈاکٹر شہاب ثاقب،ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں جبکہ ڈاکٹر ذوالفقار علی سینئر ہیں۔اسی طرح 8 آٹھ پروفیسروں سے جونیر ڈاکٹر علی کاظم کو ڈائریکٹر آٹو موٹو لگادیا گیا۔

سنڈیکیٹ کے رکن پروفیسر ڈاکٹر توصیف ایزد نے ڈائریکٹر/چیئرمین کی تقرری کا اختیار وائس چانسلر کو سونپنے کے فیصلے کی مخالفت کردی۔ان کا کہنا ہے کہ یو ای ٹی لاہور ایکٹ 1974 کے تحت سنڈیکیٹ کو یونیورسٹی چلانے کا مجاز فورم قرار دیا گیا تھا۔وائس چانسلر واحد فیصلہ ساز نہیں لیکن وہ اپنے اعمال پر سنڈیکیٹ کے سامنے جوابدہ ہیں۔ سنڈیکیٹ کے ایک رکن کا کہنا ہے کہ وائس چانسلر کی ذات میں اختیارات کے ارتکاز سے سینڈیکیٹ کا وجود اور کارروائیاں بے معنی ہو چکی ہیں۔ارکان نے چانسلر کے دفتر میں متعدد شکایات درج کی گئی تھیں کہ وائس چانسلر نے سنڈیکیٹ کو “سیاسی اور ذاتی انتقام”کا فورم بنا دیا ہے۔وائس چانسلر نے مختلف شعبوں کے چیئرمینوں/ڈائریکٹرز کی تقرری میں سینئر پروفیسرز کو نظر انداز کیا۔وی سی نے بھی تقرری کے معاملے پر ناراض فریق کی کسی بھی نمائندگی کو سنڈیکیٹ کے سامنے رکھنے کی اجازت نہیں دی۔کالا شاہ کاکو کیمپس میں جونیئر پروفیسروں کو کوآرڈینیٹر مقرر کیا گیا ہے۔

سابق ممبر سینڈیکیٹ کے مطابق یو ای ٹی ایکٹ 1974 کے تحت کچھ اختیارات سنڈیکیٹ کے پاس ہیں اور یہ وائس چانسلر کو نہیں دیے جا سکتے۔ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ (ایچ ای ڈی)کو سنڈیکیٹ کے اس اقدام کا نوٹس لینا چاہیے۔ سنڈیکیٹ میں 17 ممبران شامل ہیں جن میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس،ایک ایم پی اے،ہائر ایجوکیشن اور فنانس ڈیپارٹمنٹ کے حکومتی نمائندے اور اساتذہ کے چار نمائندے شامل ہیں۔ایچ ای ڈی کے ایک ایڈیشنل سیکرٹری،جو سنڈیکیٹ کے رکن بھی رہے، نے بتایا کہ وی سی کسی کو بھی انسٹی ٹیوٹ/ڈیپارٹمنٹ کا چیئرمین/ڈائریکٹر مقرر کرنے کے لیے کوئی بھی سفارش کر سکتا ہے اور وہ 45 دنوں کے اندر سنڈیکیٹ سے منظوری لینے کا پابند ہے۔ان کے مطابق
اگرچہ یو ای ٹی ایکٹ 1974 نے سنڈیکیٹ کو کسی بھی افسر کو اختیارات تفویض کرنے کی اجازت دی ہے لیکن یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں