روپے کی بے قدری جاری ،ایک ماہ میں ڈالر کتنا مہنگا ہوا ؟جانئے

اسلام آباد(کامرس رپورٹر)ملکی تبادلہ منڈیوں میں ڈالر کے بھاو میں تیزی سے اضافے کا سلسلہ جاری رہا اور انٹربینک میں صبح کاروبار کے دوران ڈالر کے مقابلے میں اس کی قدر میں 1.68 روپے کی گراوٹ دیکھی گئی جبکہ دن کے اختتام پر ڈالر 235 روپے 88 پیسے پر پہنچ گیا،گزشتہ روز ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے رہی تھی۔
سٹیٹ بیبنک کے مطابق جمعرات کے روز انٹر بینک میں 1 روپے 56 پیسے اضافے کے بعد ڈالر 235 روپے 88 پیسے کی بلند سطح پر بند ہوا ہے۔کاروباری ہفتے کے ابتدائی چار دنوں میں ڈالر کی قدر میں 7 روپے 70 پیسے کا واضح اضافہ ہوا ہے جب کہ اوپن مارکیٹ میں امریکی کرنسی کی قیمت فروخت 240 روپے ہے۔رواں ماہ کے دوران انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں اب تک 17 روپے 28 پیسے اضافہ ہوا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز انٹربینک میں 2 روپے 40 پیسے اضافے کے بعد ڈالر کی قیمت 234 روپے 32 پیسے ریکارڈ کی گئی تھی۔
دوسری طرف ڈالر کی آسمان کو چھوتی ہوئی پرواز کے حوالے سے ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچا نے کہا کہ روپے پر بہت زیادہ دباو ہے کیونکہ دوست ممالک جنہوں نے پیسے دینے کا وعدہ کیا تھا، انہوں نے ایسا نہیں کیا جس کی وجہ سے رجحان بدل گئے ہیں، اس وقت افغانستان اور ایران سے ڈالر اور سامان کی سمگلنگ عروج پر ہے، اس کی وجہ سے اوپن مارکیٹ میں دباو پڑا ہے جبکہ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر ‘تقریباً ختم ہو چکا ہے، ایکسچینج کمپنیاں جو یومیہ ڈھائی سے تین کروڑ کے درمیان ڈالر فروخت کرتی ہیں وہ اب اتنا فروخت کرنے کے قابل نہیں ہیں،البتہ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 240 روپے سے زیادہ نہ بڑھے لیکن انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں نرخ بڑھ رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے ایکسچینج کمپنیوں پر مزید قواعد و ضوابط نافذ کیے ہیں جس کے بعد لوگ ایکسچینج کمپنیوں میں نہیں آرہے بلکہ اس کے بجائے گرے مارکیٹ جارہے تھے، ڈالر باضابطہ کے بجائے بے ضابطہ طور پر فروخت کیا جارہا ہے اور پشاور میں 248 روپے جبکہ افغانستان میں 250 سے 252 روپے میں فروخت ہو رہا ہے۔ظفر پراچا نے حکومت پر ‘توجہ نہ دینے اور اخراجات کو کنٹرول نہ کرنے’ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو مطلوبہ امداد نہیں مل رہی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے ‘اعتماد کے فقدان’ کو قرار دیا، سیاسی صورتحال کی وجہ سے مارکیٹ کے رجحانات بدل گئے ہیں اور دیوالیہ پن کے بارے میں بات چیت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں