ممنوعہ فنڈنگ کیس ، الیکشن کمیشن نے تہلکہ خیز فیصلہ سنا دیا

اسلام آباد(وقائع نگار خصوصی)الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف( پی ٹی آئی) ممنوعہ فنڈنگ کیس میں عمران خان کے بیان حلفی کو غلط قراردیتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کردیا جبکہ چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ یہ متفقہ فیصلہ ہے، تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈز لیے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین کی جانب سے جمع کروایا گیا بیان حلفی مس ڈیکلریشن ہے،پارٹی اکاونٹس کے حوالے سے بھی جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا گیا۔
تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سربراہی میں پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے 3 رکنی بینچ نے ‘متفقہ’ فیصلے میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پرممنوعہ فنڈز لینا ثابت ہوگیا ہے، کمیشن اس بات پرمطمئن ہے کہ تحریک انصاف نے ممنوعہ فنڈنگ حاصل کی، پی ٹی آئی نے امریکا سے ایل ایل سی فنڈنگ لی ہے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن میں غلط بیان حلفی جمع کرایا،چیئرمین پی ٹی آئی نے2008سے2013 تک غلط ڈیکلیریشن دیے۔ پارٹی نے 34 غیرملکیوں اور عارف نقوی سے فنڈزلیے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی نے کیس کے آغازمیں 8 اکاونٹس کی تصدیق کی اور 13 کوپوشیدہ رکھا۔ پی ٹی آئی نے 34 غیرملکیوں سے فنڈزلیے، ابراج گروپ،آئی پی آئی اور یوایس آئی سے فنڈنگ لی۔
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کوووڈن کرکٹ سے ملنے والی فنڈنگ بھی ممنوعہ قرار دی جس کا انکشاف 29 جولائی کو برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کی رپورٹ میں کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کو امریکا، کینیڈا، رومیتا شیٹی سمیت 34غیرملکی شہریوں سے ملنے والی فنڈنگ کے علاوہ 351 غیرملکی کمپنیز سےملنے والی فنڈنگ بھی غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے فنڈنگ درست ہونے کے سرٹیفکیٹ غلط تھا
الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کوشوکازنوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ کیوں نہ پی ٹی آئی کے فنڈز ضبط کرلئے جائیں، بینک اکاونٹس چھپانا آرٹیکل 17کی خلاف ورزی ہے-الیکشن کمیشن نے قانون کے مطابق اقدامات کرنے کا حکم دیتے ہوئے فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھی بھجوانے کی ہدایت کی۔
فیصلہ الیکشن کمشنر آف پاکستان سکندر سلطان راجا کی سربراہی میں الیکشن کمیشن کے 3 رکنی کے دیگر2 ارکان میں نثار احمد درانی اور شاہ محمد جتوئی شامل ہیں۔چیف الیکشن کمشنرسکندرسلطان راجا کی سربراہی میں یہ فیصلہ 21 جون 2022 کو محفوظ کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شمارکیے جانے والے اکبر ایس بابر نے پارٹی کی غیر ملکی فنڈنگ کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی تھی۔ یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان میں 7 سال 7 ماہ سے زائد زیر سماعت رہا۔اکبر ایس بابر کے مطابق انہوں نے ممنوعہ ذرائع سے پارٹی کو ملنے والے فنڈز کا معاملہ سب سے پہلے پارٹی چیئرمین عمران خان کے سامنے سن 2011 میں اٹھایا تھا۔
بعد ازاں اکبر ایس بابر 14 نومبر 2014 کو یہ کیس الیکشن کمیشن آف پاکستان لے کر گئے اوربتایا کہ پی ٹی آئی نے 2009 سے 2013 کے درمیان 12 ممالک سے 73 لاکھ امریکی ڈالرسے زائد فنڈز اکٹھے کیے۔انہوں نے کہا کہ بیرون ملک سے ممنوعہ ذرائع سے حاصل کیے جانے والے فنڈز کے لاکھوں ڈالرز بذریعہ آف شور کمپنیز پارٹی کے بینک اکاونٹس میں منتقل کیے گئے ان بھاری رقوم کے اصل ذرائع کا کسی کو علم نہیں۔پی ٹی آئی کے بانی رکن کی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ پی ٹی آئی کو جن ممالک سے ممنوعہ فنڈنگ ہوئی ان میں ڈنمارک، ناروے، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ،سوئیڈن ، سنگا پور، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ ، فن لینڈ، آسٹریا،متحدہ عرب امارات، اور سعودی عرب شامل ہیں۔
ان ممالک سے لاکھوں ڈالرزآئے مگر ذرائع نہیں بتائے گئے، بھارتی، اسرائیلی اور امریکی شہریوں سمیت 90 کے قریب غیرملکیوں اور 200 سے زائد غیرملکی کمپنیوں نے بھی پاکستان تحریک انصاف کو فنڈز دیے۔اس دوران پی ٹی آئی نے اکتوبر 2015 میں کیس کی سماعت رکوانے کے لیے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جسے طویل سماعتوں کے بعد فرروی 2017 میں مسترد کردیا گیا۔ کیس کی سماعت کے دوران 9 وکلاء تبدیل کیے گئے۔الیکشن کمیشن کی جانب سے بینک اکاونٹس کی جانچ پڑتال کے لیے مارچ 2018 میں سکروٹنی کمیٹی قائم کی گئی الیکشن کمیشن کے ڈائریکٹرجنرل لا کی سربراہی میں 3 رکنی سکروٹنی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے دیگر2 ارکان میں آڈیٹرجنرل آف پاکستان اور وزارت خزانہ کا نمائندہ شامل تھے۔کمیٹی نے 95 اجلاسوں کے بعد اگست 2020 میں اپنی رپورٹ جمع کرائی جسےمسترد کردیاگیا، کمیٹی نے جنوری 2022 میں حتمی رپورٹ جمع کروائی۔اس دوران پی ٹی آئی نے قائم کی جانے والی خصوصی سکروٹنی کمیٹی قائم کے خلاف بھی عدالت سے رجوع کیا تاہم یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی۔
حتمی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے 65 بینک اکاونٹس میں سے الیکشن کمیشن کو صرف 12 کے بارے میں آگاہ کیا گیا اورمبینہ طور پر 53 اکاونٹس چھپائے گئے۔سکروٹنی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہاکہ پی ٹی آئی نے بینک اکاونٹس اورمتعلقہ تفصیلات الیکشن کمیشن سے چھپانے کے علاوہ پارٹی کو ملنے والے عطیات سے متعلق بھی غلط معلومات فراہم کیں، پارٹی کے بینک کھاتوں کی تفصیلات میں شامل رسیدیں بینک اسٹیٹمنٹ سے مطابقت نہیں رکھتیں۔
الیکشن کمیشن نے 21 جون 2022 کو کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا، اس دوران مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور جے یو آئی (ف) کی جانب سے بارہا کیس کا فیصلہ جلد ازجلد سنانے کا مطالبہ کیا جاتا رہا۔اس موقع پر چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ معاملہ قومی مفادکاہے،جمہوریت کی مضبوطی اور ووٹرزکااعتماد بحال کرنا ضروری ہے، اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ سب کے ساتھ انصاف ہو۔
یہ بھی یاد رہے کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز نے 29 جولائی کو شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ ابراج گروپ کے بانی عارف نقوی نے برطانیہ میں صاحب حیثیت لوگوں سے ’ چیریٹی فندز“ کے نام پر رقم جمع کرکے پی ٹی آئی کے بینک اکاونٹس میں جمع کرائی۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ جب فنڈنگ لی گئی تو اس وقت یہ فنڈنگ ممنوعہ نہیں تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں