ترکیہ میں زلزلہ متاثرین کی امداد کے دوران پاکستانی خاتون اہلکار کا ایسا کارنامہ کہ ہر کوئی عش عش کر اٹھے

آدیامان(مانیٹرنگ ڈیسک)ترکیہ اور شام میں آنیوالے ہولناک زلزلے کو تقریباً ایک ہفتہ بیت گیا ہے لیکن ملبے تلے پھنسے افراد کو نکالنے کا کام اب بھی تیزی کے ساتھ جاری ہے،امدادی کاموں میں پاکستانی ٹیم کی واحد خاتون رکن دیبا شہناز بھی شامل ہیں جنہوں نے آدیامان کے علاقے میں مشکل ریسکیو آپریشن کے بعد ایک 50 سالہ کو ملبے سے نکالنے میں کامیاب ہوگئیں۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق ترکیہ اور شام میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد اب تک جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 45 ہزار تجاوز کرچکی ہے۔تباہ کن زلزلے کے نتیجے میں متعدد عمارتین منہدم ہوچکیں ہیں،زلزلے کے بعد ترکیہ اور شام میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے اپنی اپنی ریسکیو ٹیمیں روانہ کی ہیں جبکہ شدید سردی کے باعث آپریشن میں مشکلات کا سامنا ہے۔ڈاکٹر رضوان نصیر کی قیادت میں پاکستان کی ریسکیو ٹیم 7 فروری کو ترکی پہنچی،جس میں دیبا شہناز اختر بھی شامل تھیں،جو اقوام متحدہ کی انسراگ سرٹیفائیڈ اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیم کی واحد خاتون ممبر ہیں،جنھوں نے ریسکیو 1122 کو 2006 میں جوائن کیا تھا۔دیبا شہناز اختر ترکیہ میں پاکستان ریسکیو ٹیم کیساتھ بحثیت لیزان افسر اور سیکٹر انچارج آپریشن میں حصہ لے رہی ہیں،وہ ریسکیو 1122 کے کمیونٹی ٹرینگ اور انفارمیشن ونگ کو لیڈ کرتی ہیں،جبکہ انہوں نے اپنی جان کی پراہ کیے بغیر مشکل ترین آپریشن کی سربراہی کرتے ہوئے ایک 50 سالہ خاتون کی جان کو بچایا تھا۔

دیبا شہناز نے ویڈیو بیان میں ریسکیو آپریشن سے متعلق بتایا کہ پانچ افراد پر مشتمل میری ٹیم کو ٹاسک دیا گیا تھا کہ اس مقام سے آوازیں آ رہی ہیں اور ایک خاتون اندر ملبے تلے دبی ہوئی ہیں،جو ایک منہدم رہائشی عمارت کا ملبہ تھا۔ہماری ٹیم نے بہادری سے خطرہ مول لے کر یہ آپریشن کیا اور جب ہمیں خاتون تک رسائی ملی تو وہ جگہ بہت تنگ تھی اور 50 سالہ خاتون کی دونوں ٹانگیں کنکریٹ کے اندر بری طرح سے پھنسی ہوئی تھیں،یہ ایک مشکل اور طویل آپریشن تھا۔چار گھنٹے کے اس طویل آپریشن کے دوران خاتون کی ایک ٹانگ کو تو کنکریٹ کاٹ کر نکال لیا لیکن دوسری ٹانگ کو نکالنے میں کافی مشکل کا سامنا تھا۔اس دوران ہمارے اوپر بھی کنکریٹ تھا،ہم نے آپس میں مشورہ کیا خاتون کو کیسے نکالیں کیا ان کی دوسری ٹانک کو بھی کاٹ دیا جائے پھر ہم نے ترکی کے محکمہ صحت سے رابطہ کر کے ڈاکٹرز کو بھی بلوا لیا گیا مگر ہماری پوری کوشش تھی کہ ان کی دونوں ٹانگوں کو بچائیں تاکہ وہ معذور نہ ہوں۔جس وقت ہم نے خاتون کو نکالا وہ سب سے قیمتی لمحہ تھا جبکہ خاتون 57 گھنٹوں سے ملبے تلے دبی ہوئی تھی جب ہم خاتون کو باہر لے کر آئے وہ اپنے ایک عزیز سے ملی جو کسی معجزے سے کم نہیں تھا۔

دیبا شہناز کہتی ہیں کہ ہم ریسکیو آپریشن کر رہے تھے لیکن ساتھ ساتھ دعائیں بھی مانگ رہے تھے کہ ہم تین لوگ اتنا رسک لے رہے ہیں،پتہ نہیں واپس بھی نکلیں گے یا نہیں،کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کب بلڈنگ گر جائے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں