ch justice remarks

توشہ خانہ کیس میں چیف جسٹس کے اہم ریمارکس گیند ایک بار پھر اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس

اسلام آباد (کورٹ رپورٹر) سپریم کورٹ میں توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے اہم ریمارکس، ہائیکورٹ کو فیصلہ کرنے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیوں کے باوجود اسلام آباد ہائی کورٹ کی کارروائی کا انتظار کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں:”شہادت کیلئے تیار،خود کش حملہ آوروں سے نہیں ڈرتے “نگران وزیر اعظم کا انتہا پسندوں کو سخت پیغام


”پاکستان ٹائم“ کے مطابق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریماکس دیے کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جو درست نہیں تھا،ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں خامیاں ہیں،ابھی اس معاملے میں مداخلت نہیں کررہے،کل ہائی کورٹ کو فیصلہ کرنے دیں،ہم پرسوں کیس سنیں گے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے توشہ خانہ کیس میں مختلف درخواستوں کی سماعت کی۔بینچ کے دوسرے اراکین میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔سماعت کے آغاز میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف تین درخواستیں دائر کی گئی ہیں،عمران خان 2018 انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے،الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے،چھ اراکین اسمبلی نے عمران خان کی نااہلی کے لیے سپیکر قومی اسمبلی کو ریفرنس بھیجا،جس میں سابق وزیر اعظم پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا گیا اور سپیکر نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے سوالات اٹھائے کہ کیا ایک رکن قومی اسمبلی دوسرے رکن کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے اور ایک رکن اسمبلی نے دوسرے ممبر کے خلاف کس قانون کے تحت اسپیکر کو درخواست دی؟چیف جسٹس نے بھی وکیل سے دریافت کیا کہ سیشن عدالت میں کیا آپ کا موقف ہے کہ شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟اس پر لطیف کھوسہ نے جواب دیا کہ ان کے موقف کے مطابق توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانا چاہیے تھی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا،قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے؟وکیل لطیف کھوسہ نے جواب دیاکہ جائزہ لینے سے مراد ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں؟قتل نہ ہو تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے نہ کہ شکایت کی قانونی حیثیت پر،ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہو چکا ہے اب کس کو ریمانڈ کیا جا سکتا ہے؟موجودہ کیس کا سزا کے خلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہو گا؟ان سوالات پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانا ہوں گی۔چیف جسٹس نے اس موقع پر ریمارکس دیے کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ تاحکم ثانی کوئی فوجداری کارروئی نہیں ہو گی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا لاہور ہائی کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی؟لطیف کھوسہ نے کہا کہ توہین عدالت کی درخواست سپریم کورٹ میں دائر کریں گے۔چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ درخواست وہاں ہی دائر ہو سکتی ہے جس عدالت کی توہین ہوئی ہے۔عدالت نے عمران خان کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد الیکشن کمیشن کے حکام کو روسٹرم پر بلایا اور انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرائل کورٹ نے عمران خان کے تمام اعتراض پر فیصلہ کر رکھا ہے۔چیف جسٹس نے کہا بطور کورٹ آف لا ہم نہیں چاہتے یہ معاملہ بار بار ایک سے دوسری جگہ جائے،ہائی کورٹ نے جو معاملات ریمانڈ بیک کیے بہتر نہیں ہو گا ہائی کورٹ بھی ان پر اپنا مائنڈ اپلائی کرے؟کیا فوجداری مقدمات کی سماعت ایسے ہوتی ہے کہ ایک ہی دن میں سزا ہو جائے؟

یہ بھی پڑھیں:آرمی اور آفیشل سیکرٹ ترمیمی ایکٹ باقاعدہ قانون بن گئے،گزٹ نوٹیفکیشن جاری
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے بھی سوال اٹھایا کہ کیا قانون میں حق دفاع ملزم کا حق نہیں؟قانون میں استغاثہ کو بھی سات دن کا وقت دیا جاتا ہے۔اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کچھ گواہان کو ملزم پیش نہیں کر سکتا انہیں عدالت خود بلاتی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے لیے ملزم کو کتنے دن کی مہلت دی تھی،یا پھر ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں تین چار بار کیس کال کر کے فیصلہ کر دیا؟ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ سات دن میں کرنے کا کہا اور ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں ایسا کر دیا۔ایڈیشنل ڈی جی لا الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا کہ دفاع کا حق دینا قانونی طور پر لازمی ہے،ٹرائل کورٹ اٹھائے گئے ان تمام نکات پر فیصلہ دے چکی ہے،فیصلے کے خلاف کل اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیل پر سماعت مقرر ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ پانچ اگست کو ملزم کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا تو سزا سنا دی گئی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا ملزم نے گواہ پیش کرنے کا کہا تھا؟ٹرائل کورٹ کو اتنی کیا جلدی تھی جو صفائی کا موقع ہی نہ دیا گیا،ٹرائل کورٹ نے اپنے کالعدم شدہ فیصلے کی بنیاد پر کیسے فیصلہ کر دیا؟اس پر امجد پرویز نے بتایا کہ ملزم کے گواہان کو عدالت نے غیر متعلقہ قرار دیا تھا۔چیف جسٹس نے نکتہ اٹھایا کہ فوجداری کیس میں گواہ کو غیر متعلقہ کیسے کہا جا سکتا ہے؟اس طرح تو فیصلے میں غلطیاں ثابت ہو گئی ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ غلطیوں کے باوجود عمران خان کے پاس داد رسی کا فورم موجود ہے۔وکیل امجد پرویز نے وضاحت کی کہ ملزم کی عدم حاضری پر ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیا۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیسے کر دیا؟ملک کی کسی بھی عدالت میں فوجداری کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر فیصلہ نہیں ہوتا،توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی اتنی جلدی کیا تھی؟توشہ خانہ کیس میں ٹرائل کورٹ نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے،کسی ملزم سے گواہان پیش کرنے کا حق نہیں چھینا جا سکتا۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے توشہ خانہ اپیلوں پر سماعت جمعرات دن 2 بجے تک ملتوی کر دی۔

یہ بھی پڑھیں : بجلی 5روپے 40پیسے فی یونٹ مہنگی

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں