انتخابات میں 90 دن سے تاخیر آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے،جسٹس اطہر من اللہ کا بیان

انتخابات میں 90 دن سے تاخیر آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے،جسٹس اطہر من اللہ کا بیان

اسلام آباد(وقائع نگار)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ کا عام انتخابات کی تاریخ کے کیس سے متعلق 41 صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ سامنے ا? گیا۔
”پاکستان ٹائم “کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے اضافی نوٹ میں لکھا الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے 8 فروری کی تاریخ دے کر خود کو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ٹھہرایا، انتخابات میں 90 دن سے اوپر ایک بھی دن کی تاخیر سنگین آئینی خلاف ورزی ہے جو اب ہو چکی، اس خلاف ورزی کو مزید ہونے سے روکا بھی نہیں جا سکتا۔اضافی نوٹ میں کہا گیا الیکشن کی تاریخ دینا آرٹیکل 48 شق پانچ کے تحت صدر مملکت کا اختیار ہے، اگر صدر مملکت یا گورنرز تاریخ دینے کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہے تھے تو الیکشن کمیشن کو اپنا کردار ادا کرنا تھا، الیکشن کمیشن صدر یا گورنرز کے ایکشن نہ لینے پر خاموش تماشائی نہیں بن سکتا۔جسٹس اطہر من اللہ کے اضافی نوٹ میں مزید لکھا گیا نوے روز میں انتخابات نہ کرانے کی آئینی خلاف ورزی اتنی سنگین ہے کہ اس کا کوئی علاج ممکن نہیں۔اضافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 12 کروڑ 56 لاکھ 26 ہزار 390 رجسٹرڈ ووٹرز کو ان کے حق رائے دہی سے محروم رکھا گیا، انتخابات میں تاخیر کو روکنے کے لئے مستقبل میں ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے، ہر عوامی عہدہ رکھنے والا آئین کے تحفظ کا حلف اٹھاتا ہے۔اضافی نوٹ میں کہا گیا کہ بادی النظر میں وفاقی حکومت بھی عدالتی احکامات کو نظر انداز کرتی رہی، صدر مملکت، گورنرز، الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت نے آئین سے انحراف کیا، آئینی خلاف ورزی سنگین غداری کے زمرے میں آتی ہے، عوامی اختیار کے غلط استعمال سے زیر حراست افراد پر تشدد، صحافیوں، سیاسی کارکنان پر تشدد، اظہار رائے پر پابندیاں روایت بن چکی ایسے اقدامات سے پورا معاشرہ نشانہ بنتا ہے۔جسٹس اطہر نے اضافی نوٹ میں مزید لکھا کہ سپریم کورٹ نے پہلی بار مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت کو زندہ کیا، مولوی تمیز الدین کیس میں نظریہ ضرورت زندہ کرنے سے آنے والوں کیلئے سپریم کورٹ نے راہ ہموار کی۔

یہ بھی پڑھیں:اسد قیصر رہا ہونے کے بعد دوبارہ گرفتار

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں