نیوز روم/امجد عثمانی
سیاست میں “سرخ لکیریں” کھینچی جاتی ہیں نہ”کالے کاٹے” لگائے جاتے ہیں بلکہ “سیاست کے باب میں دل کے دروازے” کھلے رکھے جاتے اور”نئے راستے “نکالے جاتے ہیں۔۔۔۔!!تحریک انصاف کے”غیر سیاسی چیئرمین” کے”سیاسی وفد”کی جے یو آئی سربراہ جناب مولانا فضل الرحمان کے گھر آمد اوران کی امامت میں نماز مغرب۔۔۔۔۔۔Talk of the town۔۔۔۔۔۔ہے۔۔۔۔۔اتنی”موضوع بحث”کہ جہاں ٹی وی چینلز نے اسے “بریکنگ نیوز” کا درجہ دیکر نشر کیا وہاں ملک کے بڑے قومی اخبار نے اسے اپنی “سپر لیڈ “یعنی دوسری بڑی شہ سرخی کی جگہ شائع کیا۔۔۔۔۔بریکنگ نیوز اور شہ سرخی تو بنتی ہے کہ ابھی کل تک جناب عمران خان اپنے حریفوں کو “طعنہ”دیا کرتے تھے:
تیرا امام بے حضور۔۔۔۔۔ تیری نماز بے سرور
ایسی نماز سے گزر۔۔۔۔۔ ایسے امام سے گزر
تفنن بر طرف۔۔۔وفد میں شامل سابق سپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر اور سابق وفاقی وزیر جناب علی محمد خان پی ٹی آئی کے وہ “سیاسی چہرے” ہیں جن کے “دم قدم” سے ہی سیاسی جماعتیں”پت جھڑ”کے ظالم موسم میں بھی” تن آور”رہتی ہیں۔۔.دھیمے مزاج کے یہ وہ اعتدال پسند رہنما ہیں جنہوں نے مشہور زمانہ “طوفان بدتمیزی” کے زمانے میں بھی کبھی اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ورنہ ان کے کپتان کا اپنے مخالفین خصوصا مولانا کے بارے غیر مہذب “لب و لہجہ” تو بچے بچے کو یاد ہے۔۔۔۔۔شاید دونوں حضرات اپنے اسی”شائستہ رویے” کی بدولت ہی حلیف کی طرح اپنے حریف کے روبرو جا بیٹھے اور مولانا صاحب نے بھی چشم ما روشن دل ما شاد کہہ کر پلکیں بچھادیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اگرچہ جناب اسد قیصر اور جناب علی محمد خان نے اس “نشست” کو مولانا صاحب کی خوشدامن کی وفات پر تعزیت کا نام دیا تاہم “دیر آید درست آید” کے مصداق یہ ایک سیاسی مکالمہ ہے جو خو¿ش آئند ہے۔۔۔۔۔دونوں رہنماﺅں نے واضح کیا کہ یہ ہمارا پشتون کلچر ہے کہ کسی کے ہاں فوتیدگی ہو جائے تو سیاسی اختلاف کو بالائے طاق رکھ کر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ پشتون ہی نہیں ہمارا اسلامی،علاقائی اور قومی کلچر بھی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے سماج میں” مرگ”ہی وہ “گھڑی” ہوتی ہے جس لمحے “پتھر دل” بھی پگھل جاتے ہیں۔۔۔۔ہمارے ہاں “میت” ہی وہ “مقناطیسی قوت”ہے جو سال ہا سال سے بکھرے رشتوں کو چشم زدن میں “یک جا”کر دیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔شنید ہے بیرسٹر سیف نے ملاقات کیلئے مولانا فضل الرحمان سے رابطہ کیا جس میں جناب عمران خان کی”رضامندی” بھی شامل تھی۔۔۔۔سوا گھنٹے کی نشست میں تعزیت کے ساتھ ساتھ ملکی اور سیاسی حالات پر بھی گفتگو ہوئی۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں مولانا صاحب نے کپتان کی بھی خیریت بھی پوچھی جبکہ ملاقات کے بعد وہ خود پی ٹی آئی رہنماو¿ں کو گاڑی تک چھوڑنے باہر بھی آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔دو ہزار چھ میں لندن کے تاریخ ساز میثاق جمہوریت کے بطن سے ملک میں سیاسی رواداری کے کلچر نے جنم لیا مگر برا ہو دو ہزار چودہ میں سجے نفرت کے”مکروہ کنٹینر” کا جو سیاست کو ایک بار پھر نوے کی دہائی میں گھیسٹ لیا گیا اور اختلاف رائے کو دشمنی میں بدل دیا۔۔۔۔۔۔رہے مولانا صاحب تو وہ بنیادی طور پر آدمی ہی مکالمے اور کے دلیل ہیں۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے تو بارود کی بدبو میں بھی “ڈائیلاگ”کی خوشبو بکھیری ہے۔۔۔۔۔۔ملک کو علمائے کرام کی صف میں شاید ہی ایسا “سیاسی چہرہ” پھر کبھی ملے۔۔۔۔۔۔مولانا صاحب ہی نہیں نواز شریف اور آصف زرداری بھی سیاست میں “ریڈ لائن” کے قائل نہیں کہ یہ سرے سے ہی”غیر سیاسی اصطلاح” ہے۔۔۔۔۔ان رہنماﺅں نے بھی سیاسی اختلافات کے باوجود وقت پڑنے پر ہاتھ بھی ملایا اور گلے بھی ملے۔۔۔۔یادش بخیر! قارئین کرام کو یاد ہوگا کہ دو ہزار تیرہ کی انتخابی مہم کے دوران عمران خان لاہور میں سٹیج سے گر کر شدید زخمی ہو گئے تھے۔۔۔۔۔ نواز شریف نے ناصرف شوکت خانم ہسپتال جا کر ان کی عیادت کی اور گلدستہ پیش کیا بلکہ یہ بھی کہا کہ میرا غصہ ختم ہوگیا اور اب ایک دوستانہ میچ ہونا چاہیے۔۔۔اسی طرح دو ہزار سات میں نظیر بھٹو کی شہادت پر بھی نواز شریف اپنی سیاسی سرگرمی ترک کرکے راولپنڈی کے ہسپتال پہنچ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بعد میں لیگی وفد کے ساتھ نوڈیرو جاکر آصف زرداری اور بلاول بھٹو سے تعزیت کی جبکہ گڑھی خدا بخش میں بے نظیر شہید کی قبر پر فاتحہ خوانی کی اور پھول بھی چڑھائے۔۔۔۔گردش ایام کب رکتی ہے۔۔۔۔آج ایک تو کل دوسرے کی باری ہے۔۔۔۔پھر نواز شریف پر بھی غم ٹوٹ پڑے۔۔۔۔پہلے اہلیہ اور پھر والدہ کی جدائی کا صدمہ۔۔محترمہ کلثوم نواز تو خاتون ہی ایسی”فرشتہ صفت” تھیں کہ ان کی وفات پر اپنے بیگانے سب رو دیے۔۔۔۔۔۔مکہ مکرمہ میں مقیم ہمارے ممدوح عالم دین جناب ڈاکٹر سعید احمد عنایت اللہ محترمہ کلثوم نواز کے مداح ہیں۔۔۔۔۔وہ بتاتے ہیں کہ مشرف دور کی جلاوطنی میں کلثوم نواز نے ان سے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھا۔۔۔۔انہیں کلام اللہ سے بے حد لگاﺅ تھا۔۔۔۔۔وہ بتاتے ہیں کہ نواز شریف کی والدہ محترمہ بیگم شمیم کو بھی قرآن سے بے پناہ محبت تھی اور پیرانہ سالی میں بھی بڑے اہتمام سے تلاوت کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔محترمہ کلثوم نواز کے انتقال پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو سمیت ملک کی صف اول کی سیاسی قیادت نے جاتی امرا جا کر ان سے تعزیت کی لیکن خان صاحب نے ایوان وزیر اعظم سے صرف رسمی بیانات دیکر پھر “غیر سیاسی” ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔۔وہ بھی جناب اسد قیصر اور علی محمد خان کی طرح سیاست کو بالائے طاق رکھ کر ان کے گھر جاکر تعزیت کرآتے تو اچھا جیسچر جاتا اور سیاسی تلخیاں کم ہو جاتیں۔۔۔۔۔۔ان سے زیادہ رودادی کا مظاہرہ تو سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کیا اور نواز شریف کو فون کرکے اظہار افسوس کیا۔۔۔۔۔۔۔سیاسی لوگ تو اپنے مخالفین کی خوشی غمی نہیں چھوڑتے مگر خان صاحب کی “بے حسی” دیکھیے کہ وہ اپنے انتہائی قریبی ساتھی جناب نعیم الحق کے جنازے کو کندھا دینے بھی نہ پہنچ پائے۔۔۔۔۔نواز شریف نے مینار پاکستان جلسے میں درست کہا کہ ان کی والدہ اور اہلیہ سیاست کی نذر ہو گئیں۔۔۔بڑا مشکل ہوتا ہے بیوی کو دیار غیر وینٹی لیٹر پر تنہا چھوڑنا۔۔۔۔بڑا مشکل ہوتا ہے والدہ کے تابوت کو تنہا روانہ کرنا۔۔۔۔۔بہر حال یہ ماننا پڑے گا کہ نواز نے مشکل ترین حالات میں تصادم کے بجائے”بیچ بچاﺅ” کا راستہ لیا۔۔انہوں نے بیوی کو بستر مرگ پر سسکتے چھوڑا اور ماں کی جدائی میں اشکبار بیٹی کی انگلی پکڑے جیل چلے گئے۔۔۔۔۔۔۔تب دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کا نقارہ بھی بچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔میاں صاحب نہ آتے تو ن لیگ کی سیاست”وڑ”جاتی۔۔انہوں نے بہت بڑی قربانی دیکر پارٹی بھی بچالی اور خود بھی بچ گئے۔۔عمران خان بھی “سیاسی” ہوتے تو سیاسی راستہ اپناتے۔۔۔۔زمان پارک کو “ممنوعہ علاقہ” اور کارکنوں کو “ڈھال” بنانے کے بجائے “دھج” سے جیل چلے جاتے۔۔۔۔۔ہیرو بھی ٹھہرتے اور سانحہ نو مئی بھی نہ ہوتا۔۔۔۔خود بھی امان پاتے اور پارٹی بھی کڑے امتحان سے بچ جاتی۔۔۔۔نواز شریف نے اس مہینے یعنی اکیس اکتوبر دو ہزار تییس کو ایک بار پھر سیاسی ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔۔وہ وطن واپسی سے پہلے” جارحانہ” ہوئے لیکن جلد ہی “محتاط” ہوگئے۔۔۔۔۔۔دو ہزار چوبیس کے الیکشن کے لیے ن لیگ کے پلے کچھ نہیں تھا۔۔۔۔وہ”انتقامی بیانیے” پر “اڑ”جاتے تو پارٹی کی سیاست “وڑ”جاتی لیکن انہوں نے “مصالحت” کا راستہ اپنا کر سیاسی میدان بھی مار لیا اور اقتدار کی منزل بھی کھری کر لی۔۔۔۔۔وہی بات کہ سیاست میں ‘سرخ لکیریں” کھینچی جاتی ہیں نہ” کالے کاٹے” لگائے جاتے ہیں۔۔۔۔دل کے دروازے کھلے رکھے جاتے اور نئے راستے نکالے جاتے ہیں۔۔۔۔!!!!