سیالکوٹ پریس کلب۔۔۔۔۔۔قصہ ماضی!!!

سیالکوٹ پریس کلب۔۔۔۔۔۔قصہ ماضی!!!

تحریر:امجد عثمانی

سیالکوٹ سے “اٹوٹ انگ” رشتہ ہے کہ یہ میرا پیدائشی ضلع ہے۔۔۔۔مڈل تک ناجانے کتنی بار گورنمنٹ پرائمری سکول منڈیالہ اور گورنمنٹ مڈل سکول گڈگور لکھتے قلم و قرطاس ٹوٹ کر “ہم کنار” ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔کتنی ہی عقیدت سے ایک دوسرے کو “بوسہ” دیا۔۔!!!اٹوٹ انگ کا یہی مفہوم ہے۔۔۔۔۔۔اب بھی گاہے اپنی دھرتی جانا ہو تو یادیں چھم چھم برسنے لگتی ہیں۔۔۔گائوں اور خاص طور پر دونوں ابتدائی تعلیمی اداروں کے “سرناموں” کی ایک جھلک دیکھنے کو دل تڑپ اٹھتا ہے۔۔۔اب کی بار لاہور پریس کلب کے لائف ممبر اور سنئیر اخبار نویس برادرم خالد منہاس کے “حکم” پر شہر اقبال جانا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واپسی پر عزت مآب بزنس مین میزبان نے کہا کہ ہمارے کانوں نے لاہور پریس کلب کا شہرہ تو بہت سنا ہے۔۔۔جاتے جاتے آپ بھی اپنی آنکھوں سیالکوٹ پریس کلب کی “حالت زار” بھی دیکھتے جائیے۔۔۔!!میں کم و بیش ڈیڑھ دہائی پہلے سیالکوٹ پریس کلب تب گیا تھا جب شہر اقبال میں عزیز از جان دوست ڈاکٹر شمس جاوید سیالکوٹ پریس کلب کے سیکرٹری بنے اور چودھری رشید مرحوم۔۔۔نوازش قریشی۔۔۔۔حاجی عارف اور تنویر حیدر اعوان ان کے ہم قدم تھے۔۔۔۔یہ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی وزارت اطلاعات کا زمانہ تھا اور یہی سیالکوٹ پریس کے “شباب”کا زمانہ ٹھہرا کہ ڈاکٹر صاحبہ نے اپنے شہر کے صحافیوں کے لیے “دیدہ و دل” فرش راہ کر دیے۔۔۔۔انہیں سیالکوٹ پریس کلب کی “معمار”بھی کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ میرے لیے ہمیشہ چشم بر راہ ڈاکٹر شمس جاوید اس سفر کے دوران بوجوہ دستیاب نہ تھے جس پر یہ سفر ادھورا ادھورا سالگا۔۔۔۔برسوں بعد سیالکوٹ پریس کلب کا خزاں رسیدہ منظر دیکھ کر دل خون کے آنسو رودیا کہ ہم کتنے سنگدل لوگ ہیں کہ اپنا چہکتا مہکتا گھر اجاڑ دیتے اور ملال بھی نہیں کرتے۔۔۔۔پتہ چلا کہ دس بارہ مرلے پر محیط وہ پریس کلب جہاں جگمگاتا صدر روم تھا ۔۔۔۔سیکرٹری روم تھا۔۔۔۔۔۔مینجر روم اور کمپیوٹر روم تھا۔۔۔۔۔کانفرنس روم اور ریسٹ روم تھا۔۔۔۔کچن اور لائبریری تھی۔۔۔پریس کلب میں پانچ ائیر کنڈیشنر نصب تھے۔۔۔۔قطار اندر قطار کرسیاں تھیں۔۔۔۔میزیں تھیں۔۔۔۔ڈائس تھے۔۔۔۔سائونڈ سسٹم تھا۔۔۔۔۔لوگ تھے اور چہل پہل تھی۔۔۔۔۔سیمینارزاور پریس کانفرنسز ہوتی تھیں۔۔۔گذشتہ سات سال سے بند ہے۔۔۔۔۔بند چھوٹا لفظ ہے۔۔۔۔کہہ لیں سب کچھ لٹ پٹ چکا اور پریس کلب کی عمارت بھوت بنگلہ بن گئی ہے۔۔۔درو دیوار بھی زبان حال سے کہہ رہے تھے کبھی یہاں سیالکوٹ پریس کلب ہوا کرتا تھا۔۔۔!!!صحافیوں کے لیے درد دل رکھنے والے عزت مآب میزبان نے سرد آہ بھری اور کہا کہ دکھ ہوتا ہے کہ شہر اقبال کے صحافیوں کے لیے بیٹھنے کے لیے کوئی ایک ٹھکانہ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ اب سیالکوٹ کے صحافیوں کا حال یہ ہے کہ وہ چار پانچ گروپس میں تقسیم ہیں۔۔۔ہر کسی کا اپنا چیئرمین اور سیکرٹری یے۔۔۔۔شاید اسی لیے وہ سب “در بدر” ہیں۔۔۔۔اب یہاں کوئی باقاعدہ پریس کانفرنس نہیں ہوتی۔۔۔میڈیا ٹاک نہیں ہوتی۔۔۔۔کسی وزیر ہو یا بیوروکریٹ کاجب کچھ کہنے کو من چاہے،تو وہ اپنے من پسند تین چار ٹی وی نمائندوں کو اپنے در بلاتا اور جو فرمانا ہوتا فرما دیتا یے۔۔۔انہوں نے اس حوالے سے وزیر دفاع جناب خواجہ آصف کی ایک درخت نیچے اپنی ڈیرہ نما نشست گاہ پر سجنے والی”مجلس ذرائع ابلاغ”کا حوالہ دیا۔۔۔۔سیالکوٹ پریس کلب کی حالت زار دیکھ کر سوچنے لگا کہ یہ جگہ تو ضلعی انتظامیہ کے دائرہ کار میں ہے ۔۔۔۔سات سال میں چار پانچ ڈپٹی کمشنر تو آئے گئے ہونگے۔۔۔۔انہیں اجڑا پریس کلب کیوں نظر نہیں آیا؟؟پھر خیال آیا کہ”صاحب لوگ” یہ خیال کرتے تو ملک ہی کیوں اجڑتا؟؟؟کاش سیالکوٹ کے موجودہ ڈپٹی کمشنر جناب محمد ذوالقرنین ہی پریس کلب کو”ٹیک اوور” کرکے یہ “داغ” دھو ڈالیں۔۔۔۔!!!حسن اتفاق دیکھیے کہ لاہور واپس آتے ہوئے پسرور سے دانشور استاد گرامی قدر جناب ابن آدم پسروری کا فون آیا اور وہ بھی اسی طرح کا “دکھڑا” سنا رہے تھے۔۔۔۔۔۔بہر کیف ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تو اپنے دور اقتدار میں شہر اقبال کے صحافیوں سے “عہد وفا”نبھا گئیں۔۔۔کاش خواجہ آصف بھی سمجھیں کہ آج نہیں تو کل اقتدار کے سورج نے ڈھلنا ہے۔۔۔۔۔۔شام اترنے سے پہلے اپنے حصے کی شمع جلا دیں تو ڈاکٹر فردوس عاشق کی طرح ان کا نام بھی “جگمگاتا” رہے گا ورنہ تاریخ کے باب میں گھپ اندھیرا نوشتہ دیوار ہے۔۔۔۔!!!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں