میاں دے نعرے۔۔۔بیرسٹر امجد ملک

وہ آئے اور چھا گئے سنا تو تھا ہی اب دیکھ بھی لیا کہ میاں نواز شریف آئے اور چھا گئے۔ہر طرف سے مایوسی نا امیدی اور معاشی ابتری کے بادل چھٹنا شروع ہوگئے ہیں۔ گر بڑوں نے سمت کی درستگی اور کورس کوریکشن کا فیصلہ کرلیا تو ملک ترقی کی منزلیں طے کرنا شروع کردے گا انشاللہ۔قسمت کا دھنی نواز شریف آیا ہے اور چل دیا ہے یہی دراصل حقیقی تبدیلی ہے۔
مسلم لیگ کو حکومت بنانے چلانے اور کامیاب بنانے کیلئے اپنا منشور اور لائحہ عمل وقت پر بنانا اور عوام کو دینا ہوگا۔ نواز شریف کے پاس ٹیم تجربہ اور کارکردگی کا ٹریک ریکارڈ ہے اب تو عوامی مقبولیت کی سند بھی ہے۔ انکے پاس انکے اردگرد شہباز شریف، مریم نواز شریف اور سینیٹر اسحق ڈار کا گھیرا ہے جو ایک قابل ذکر بات ہے۔
اقتدار یا اختیار کی بھول بھلیوں سے نکلیں تو آگے معاشی گرداب سے نکلنے کا چیلنج درپیش ہے۔ سمت کی درستگی تاکہ دوبارہ دھرنا نما انقلاب نہ آئے اسکے لئے پارلیمانی کمیشن جس میں سب اسٹیک ہولڈرز شامل ہوں بے حد ضروری ہے۔ اصلاحات چاہے ملٹری ہوں یا سول یا عدالتی ہوں یا پروفیشنل باڈیز تمام اداروں میں درکار ہیں۔ غریب ملک ہونے کے ناطے ملک اب صحیح معنوں میں وزیراعظم کو سائیکل پر اور وزیروں کو فوکسی کاروں میں دیکھنے کا متمنی ہے۔ قرضوں کی بھرمار کی وجہ سے کفایت شعاری ہر حکومت اور انتظامیہ کے منشور کا اہم ستون ہونا چاہیے۔ عوام اب وزیروں سفیروں جرنیلوں اور ججوں کے من پسند اخراجات سے اکتا سے گئے ہیں اب وہ عوامی بجٹ کا صحیح استعمال اور احتساب چاہتے ہیں۔قرض کی پیتے تھے مے اور یہ سمجھتے تھے کہ یاں، رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن۔
میاں نواز شریف کیساتھ انکی چارٹرڈ فلائٹ میں ساتھ آنے کا دوسری بار موقعہ ملا اور یہ حقیقت ہے کہ یہ احساس کہ ہم بھی انکے تاریخی سفر میں ساتھ تھے بہت اہم ہے۔ لوگ فلائی دبئی کی فلائٹ نمبر FZ 4525 کے مسافر بننے کیلئے آخری دن تک تگ و دو کرتے رہے۔ لیڈر کی کامیابی اس میں بھی ہے کہ ہر طبقہ انکو ویلکم کرنے کیلئے بیتاب تھا۔ گلوکار وارث بیگ سے لیکر زبیر گل اور لندن سے مرتضی شاہ ، اظہر جاوید کیساتھ ساتھ چینل ۹۲ کے نمائیندے غلام حسین اعوان بھی میاں جی کے ساتھ محو پرواز تھے۔ اب تو جہلم کے میاں جی کی دال سے زیادہ میاں جی کی فلائٹ مشہور ہے۔ کچھ لونڈوں لپاڈوں نے جہاز میں بھی خبر بنانے کیلئے لفظوں کی مار دھاڑ کرنے کی کوشش کی لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور معاملہ اوئے اوئے تک محدود رہا۔ لوگ میاں صاحب کیساتھ ملنے اور انکی جھلک دیکھنے کیلئے بیتاب تھے۔ یہ زیادتی تھی کہ انکی نان سیاسی ٹیم قائد سے ان 170 لوگوں کو نہ ملوا سکی جو صرف اور صرف اپنے قائد کی محبت میں گرفتار تھے۔ جن کو ملنا تھا وہ سارا دن انکے گھر سے ہی نہیں نکلے لیکن یہ راج نیتی ہے یہاں سب ہی اہم ہیں یہی وہم ہے۔ من پسند برفی کی طرح من پسند میڈیا نے بھی قائد ن لیگ کو خوب گھیرا ڈال کر رکھا ہے۔
متحدہ عرب امارات میں ملنے والی محبت اور شفقت میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ ایک ہی دن میں چار پانچ میٹنگز کا انعقاد اور لوگوں کی اس میں دلچسپی قابل دید تھی۔ غوث قادری نے پارٹی میٹنگ کا انعقاد ، مجید مغل کی بے لوث مہمان نوازی اور ہماری کامریڈ ساتھی فرزانہ کوثر کی بیماری کے باوجود کور کمیٹی کے اجلاس میں معاونت اور مصطفی مغل کے دل میں گھر کرنے والے الفاظ میرا اثاثہ ہیں۔ یہ مسلم لیگ ن کے قائد کا ویژن تجربہ توانائی اور کارکردگی ہی تو ہے کہ جہاں جاتے ہیں لوگ جوق در جوق شامل ہوتے ہیں اور رضاکارانہ طور پر پزیرائی کرتے ہیں۔ اللہ سلامت رکھیں۔
مسلم لیگ ن کے اکابرین میں نواز شریف کے آنے سے خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔بچپن کے دوست عرفان منان اور بھتیجے بیرسٹر رویل عرفان کے توسط سے فیصل آباد میں میاں نواز شریف کے شیروں طلال چوہدری ،ذیشان ملک سے ملاقات ہوئی۔ رانا حبیب ہمارے بہت اچھے دوست ہیں۔ عابد شیر علی اور بہت سارے مسلم لیگی اکابرین رابطہ سازی بہتر کررہے ہیں۔ الیکشن کا احساس ہوا، ٹکٹوں کیلئے لیڈران جوڑ توڑ میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن اب ریس میں آگے ہے۔
مختصر وزٹ کے دوران ماں جی کیساتھ وقت گزارنا ناقابل بیان خوشی ہے۔ ماں کا گھر ایک جنت ہے۔اسکا احساس پردیس میں بسنے والے اوورسیز پاکستانیوں سے زیادہ کس کو ہوسکتا ہے۔ اللہ یہ سلسلہ محبت قائم رکھیں۔ ماں کی گھر میں موجودگی باعث رحمت و محبت ہے۔ باپ کی کمی تو کبھی پوری نہ ہو گی۔ اللہ پاک سب کی مائیں سلامت رکھیں آمین ثم آمین
اپنے آبائی کالج اور سکول کا دورہ میرے دورے کی ہائی لائٹ تھی اور یہ واقعات بے انتہا نقوش چھوڑ گئے ہیں۔سچ ہے آپ کا اصل سے تعلق برقرار رہنا چاہیے۔ صاحبزادہ میاں محمد ضمیر الحق،ایم اے ،ایم ایڈ ، بانی انجمن سراجیہ سکول کا ادارہ احسان مند رہے گا کہ جسطرح اصول پسندی شفقت اور صلہ رحمی سے غریب پسماندہ اور پسے ہوئے طبقات سے آئے بچوں کو ہیروں کی طرح تراشا وہ قابل تحسین اور اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ درجات بلند فرمائیں۔
ویسے ہی ضمناً کہنا تھا کہ آپ احتساب سے اتنا کیوں گھبراتے ہیں۔ ملک تقسیم ہوگیا ، اب دیوالیہ ہونے سے بچا ہے اس سے ڈر نہیں لگتا؟ آپ کا تو وہی حال ہے، “نفرت سے ڈر نہیں لگتا ، محبت سے ڈر لگتا ہے صاحب”۔
آخر میں اللہ جسے چاہیں عزت دیں۔قاضی عیسی صاحب انتیسویں چیف جسٹس آف پاکستان کاحلف لے چکے ہیں۔ شفاف اور منصفانہ انتخابات کی نگرانی، پارلیمان اور اداروں میں تناو¿ کا خاتمہ ، آئین اور پارلیمان کی بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی ، قانون کی حکمرانی اورعدالتی اصلاحات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ وَت±عِز±ّ مَن تَشَائ ± وَت±ذِل±ّ مَن تَشَائ ±۔ اب الیکشن اور نان الیکٹیڈ کے درمیان صرف چیف جسٹس حائل ہے اللہ خیر کریں۔
میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میاں نواز شریف قسمت کا دھنی ہے اور اب آر یا پار ہے اور کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ اب آئے ہیں تو چلو کچھ کام کرتے ہیں۔ ملک اب پرانی تنخواہ پر چلنے والا نہیں ہے۔ خود احتسابی کیلئے تمام ادارے ازخود اپنی منجی کے نیچے ڈنڈا پھیرنے کا انتظام کریں۔ میاں دے نعرے وجنے وی وجنے نیں۔۔۔
(بیرسٹر امجد ملک برطانیہ سے پاکستان ٹائم کے لئے کالم لکھتے ہیں )

اپنا تبصرہ بھیجیں