حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کا جرم

تحریر:محمد اشفاق پتافی
گذشتہ چند دنوں سے ایک بار پھر دوست لوگوں کے نشانہ پر چیئرمین پاکستان علماء کونسل حافظ محمد طاہر محمود اشرفی ہیں،سانحہ جڑانوالہ کے بعد حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے لاہور میں مسیحی برادری سے معافی مانگ لی۔ اس پر بھی دوست لوگوں کو بہت تکلیف ہے،سوال یہ ہے کہ جب زیادتی مسلمانوں کی ہے تو معافی بھی مسلمانوں کو ہی مانگنی تھی،اگر قرآن کریم کی توہین کسی مسیحی نے کی تھی تو کیا اس سے یہ جواز مل جاتا ہے کہ آپ تمام مسیحیوں کے گھر جلا دیں؟ان کی عبادت گاہیں جلا دیں؟ہر گز نہیں! اسی پریس کانفرنس میں آرچ بشپ لاہور سبسٹئین شاء نے قرآن کریم کی توہین کرنے والے مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ان سے مکمل برأت کا اعلان کیا اور کہا کہ کوئی مسیحی قرآن کریم کی توہین نہیں کر سکتا،اگر کوئی کرتا ہے تو ہم اس سے اعلان برأت کرتے ہیں، اس کو سزا دو۔دوست لوگوں کو آرچ بشپ کے یہ الفاظ تو یاد نہیں رہے۔۔۔حافظ محمد طاہر محمود اشرفی رنجیدہ ہیں،ان کا کہنا ہے کہ ڈنمارک،سویڈن،ہالینڈ میں قرآن کریم کی توہین کے خلاف پاکستان کی مسیحی برادری مسلمانوں کے ساتھ کھڑی تھی،چرچوں میں عظمت قرآن کریم پر مشترکہ کانفرنسیں ہو رہی تھیں،پوری دنیا میں قرآن کریم کی توہین کی مذمت ہو رہی تھی،پوپ فرانسس اس کی مذمت کر چکے تھے،ان حالات میں اس واقعہ نے مسلمانوں کا مقدمہ کمزور کیا ہے۔
حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کا جرم یہی ہے کہ وہ منافقت نہیں کرتے،وہ بند کمروں میں جو کہتے ہیں وہی باہر کہتے ہیں اور جہاں تک بات معافی اور مذمت کی ہے تو ما سوائے متشدد گروہوں کے سب اس پر شرمندہ ہیں اور معافی مانگ رہے ہیں۔جہاں تک قرآن کریم کی توہین کی بات ہے تو حافظ محمد طاہر محمود اشرفی نے تو عالمی سطح پر تحریک شروع کر رکھی ہے کہ قرآن کریم ،ناموس رسالتﷺ ،آسمانی کتب،انبیاء و رسل کی ناموس کا عالمی سطح پر قانون بنایا جائے،دوست لوگوں نے تنقید کے علاہ کیا کیا ہے؟ایک اور اعتراض حافظ محمد طاہر محمود اشرفی پر بہتان تراش گروہ نے شروع کر رکھا ہے۔جس گروہ کو اشرفی صاحب کذاب کہتے ہیں کہ ناموس اصحاب رسول ؐ و اہل بیت ؓ بل کی انہوں نے مخالفت کی اس عقل کے اندھے اور سماعت سے محروم گروہ نے ان کا پیغام صحیح طرح سنا ہی نہیں ہے اور تہمت لگا دی۔
حافظ محمد طاہر محمو داشرفی نے کسی بھی لمحے ناموس اصحاب رسول و اہل بیت ؓ بل کی مخالفت نہیں کی،ان کا مؤقف تھا کہ صدر اس بل پر اس وقت دستخط کریں گے جب اس پر اتفاق ہو گا کیونکہ اہل تشیع کے تمام حضرات نے اس پر اس وقت مہم شروع کر دی جب ایک جماعت نے اس پر جشن منانا شروع کر دیااور اہل تشیع کے تمام افراد خواہ وہ کسی بھی جگہ پر بیٹھے تھے متحرک ہو گئے تھے۔حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی رائے تھی کہ اہل تشیع سے بات چیت کی جائے وہ جو مطالبات کر رہے ہیں ان میں اکثر پہلے ہی اہل سنت پیغام پاکستان اور ملی یکجہتی کونسل میں مان چکے ہیں،اس طرح یہ بل منظور ہو جائے گا لیکن افسوس کہ سستی شہرت کے طالب گروہ نے قوم کو گمراہ کیا اور اس طرح یہ بل صرف چند افراد کی نا اہلی، نالائقی،سستی شہرت اور عدم اخلاص کی نذر ہو گیا۔سوال یہ ہے کہ کیا صدر مملکت سے مفتی تقی عثمانی،علامہ ابتسام الٰہی ظہیر،حافظ محمد طاہر محمود اشرفی، مفتی عبد الرحیم کے علاوہ بھی کسی نے رابطہ کیا جبکہ اہل تشیع کے تمام اکابرین نے صدر سے نہ صرف رابطے کیے بلکہ ہر سطح پر رابطوں کے ساتھ اسلام آباد میں بھرپور علماء و زاکرین کنونشن کرنے میں کامیاب ہوئے جبکہ وفاق المدارس العربیہ کی شوریٰ و عاملہ کا ان ہی دنوں اجلا س تھا کیا اس نے اس بل کی تائید میں ایک جملہ بھی کہا۔۔۔ہر گز نہیں!آخر کیوں؟ کیا اس سوال کا جواب قوم کو مل سکے گا۔گذارش یہ ہے کہ الزام تراشی،تہمت لگانے کی بجائے اپنے گریبان میں دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کا مؤقف سو فیصد درست تھا۔خواہ وہ جڑانوالہ کا واقعہ ہو یا توہین ناموس اصحاب رسولؐ و اہل بیت ؓ بل کا۔حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کا جرم اتنا ہی ہے کہ وہ بت پرستی نہیں کرتا،حق پرستی کرتا ہے اور جو سچ سمجھتا ہے کہہ دیتا ہے اور ہمیشہ اس کا مؤقف درست ثابت ہوتا ہے لیکن دوست لوگوں کو جو مرض حسد و بغض ہے اس کا علاج تو صرف اللہ ہی کے پاس ہے۔

نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز مضمون نگار کی نگارشات سے کلی طور پر متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں