فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی

محمد خان


بچپن سے ہم سنتے آرہے ہیں کہ مسجد اللہ کا گھر ہوتا ہے۔ مسجدکو اللہ تعالیٰ کا گھر کہنا قرآن سے بھی ثابت ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں کہ “بےشک مساجد اللہ کی ہیں”۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذاتِ خود مساجد کو بیت اللہ (یعنی اللہ کے گھر کا) نام دیا ہے۔ اس کے علاوہ سکولوں میں علامہ اقبال کا وہ شعر بار بار پڑھایا جاتا ہے کہ ؛
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و آیاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اس شعر کی تشریح میں ہمیں صرف اتنا بتایا جاتا ہے کہ نماز کے دوران امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر کوئی غریب پہلے صف میں کھڑا ہو تو گاو¿ں کے وڈیرے اور چودھری کو اسے پیچھے کی جانب کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں ہوتا، اور نہ ہی کوئی شخص مسجد میں اپنے لئے پیشگی کوئی جگہ مختص کر سکتا ہے، مسجد میںتمام نمازی کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ اس دوران غریب اور امیر کا فرق بالکل ختم ہوجاتا ہے اور سب ایک ساتھ صرف بطور مسلمان ایک ہی صف مہیں کھڑے ہوتے ہیں۔
میرا قد اتنا بڑا تو نہیں ہے کہ میں مذہب جیسے حساس موضوع پر کچھ لکھ سکوں لیکن علامہ اقبال کی اس شعر کی تشریح اگر وسیع تناظرمیں دیکھی جائے تو کچھ اس طرح کے معنی نکلتے ہیں کہ “نماز کے دوران کوئی شیعہ، سنی، بریلوی وغیرہ نہیں ہوتا بلکہ سب مسلمان ہوتے ہیں جو ایک اللہ کی سامنے سر بسجود ہوتے ہیں” علامہ اقبال کے اس شعر کا حقیقی مفہوم بھی کچھ یوں ہی بنتا ہے۔
آج جمعے کا دن تھا تو میں بھی دوستوں کے ہمراہ نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے مسجد گیا۔ عام طور پر میں نمازِ جمعہ یونیورسٹی کی جامعہ مسجد میں پڑھتا ہوں لیکن آج طبیعتناساز تھی جس کی وجہ سے یونیورسٹی بھی نہیں گیا، تو اسی وجہ سے آج اپنے فلیٹ کے قریب ایک مقامی مسجد میں پہلی بار نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ مسجد میں داخل ہوا تو دیواروں پر مختلف قسم کی ہدایات لکھے گئے تھے۔ کہیں لکھا تھا کہ نماز کے دوران موبائل فونز بند رکھیں۔ صفائی کا اہتمام کریں۔ یہاں تک تو بات ٹھیک تھی لیکن پھر میری نظر ہال کے صدر دروازے پر پڑی۔ صدر دروازے کے عین اوپر کچھ جملے لکھے گئے تھے ، یہ ایسے جملے تھے کہ میری طرح حساس بندہ قطعی برداشت نہ کر پائے، صدر دروازے کے اوپر لکھا تھا کہ:
“یہ مسجد اہلِ سنت والجماعت حنفی (بریلوی) مسلک حضرات کی ہے۔ کسی دوسرے فرقے کا کوئی شخص اس میں مداخلت کرنے کا مجاز نہیں۔ مسجد میں وعظ ، تقریر اور قیام انتظامیہ کی اجازت لے کر بریلوی مسلک کے لوگ ہی کر سکیں گے۔
منجانب: وقف کنندہ و انتظامیہ۔”
ان مختصر جملوں کا مطلب یہی تھا کہ اگر آپ نے مسجد کی تعمیر میں چندہ دیا ہے یہ کسی اور طریقے سے معاونت فراہم کی ہے تو مسجد میں بات بھی آپ کی مرضی کے مطابق ہوگی۔ لیکن اگر آپ نے چندہ نہیں دیا اور آپ طے شدہ مسلک سے تعلق نہیں رکھتے تو آپ اس مسجد میں عبادت بھی نہیں کرسکتے۔
یہاں میں سوچ میں پڑ گیا کہ اگرکوئی اس مسجد میں نیکی کی بات کرنا چاہے ،کوئی نصیحت کرنا چاہے ،کسی کو اللہ کی دین کی طرف بلانا چاہے تو ضروری ہے کہ آپ کا تعلق تحریر شدہ مسلک سے ہو؟ اور اگر آپکا تعلق تحریر شدہ مسلک سے نہیں ہے تو آپ اللہ کا دین آگے نہیں پہنچا سکتے۔۔؟ کیا پھر آپ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں؟
میں مسجد میں بیٹھا رہا اور اسی وقت ذہن میں آیا کہ میں اس حوالے سے ضرور لکھوں گا۔ چونکہ ڈیجیٹل دور ہے ہر چیز ہمارے پاس کیمرے میں محفوظ ہو سکتی ہے تو اسی وجہ سے ہم کاہل اور کام چور ہو گئے ہیں اور ہمارا حافظہ بہت کمزور ہوگیا ہے۔ مجھے خدشہ تھا اپنے فلیٹ تک جاتے جاتے میں یہ لائن بھول جاﺅں گا۔ اس لیے موبائل نکال کر اس کی تصویر لینے کا سوچا تاکہ تحریر شدہ جملے بھی محفوظ رہیں اور اگر کوئی ثبوت مانگے تو اس تصویر کو بطورِ ثبوت استعمال بھی کر سکوں۔
مجھے معلوم ہے کہ مسجد میں فون نکالنا اور دوران خطبہ استعمال کرنا اچھی بات نہیں۔ دل اسی کشمکش میں مبتلا تھا کہ فون نکالوں کہ نہیں، یہی ڈر تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا اور برا منا لیا تو لاہور کے اس گرم موسم میں مجھ پر لاتوں اور مکّوں کی بارش ہو سکتی ہے۔ اب مذہبی انتہا پسندی اتنی بڑھ گئی ہے کہ آپ اس واقعے سے اندازہ لگا لیں۔ سوشل میڈیا پر ایک شخص نے لکھا کہ “نماز کی دوران میری فون کی گھنٹی بجی۔سلام پھیرنے کے بعد تمام لوگوں نے مجھے گھورا اور برا بھلا کہنا شروع کیا۔اس دن کے بعد میں کبھی مسجد نہیں گیا۔ پھر یورپ کے ایک نائٹ کلب میں میرے ہاتھ سے شیشے کی ایک پیالی گر کر ٹوٹ گئی۔ ویٹر کو اپنی طرف آتے دیکھ کر میں گھبرا گیا لیکن میں یہ سن کر بہت حیران ہوا جب ا±س نے کہا “سر آپ کو لگی تو نہیں۔۔؟” یہ کتنا خوبصورت واقعہ ہے کہ جس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ آپ غصّے کی بجائے اخلاق اور پیار سے لوگوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔
مسجد میںبیٹھے بیٹھے کافی چیزیں ایسی تھیں کہ میرے اندر مسجد کے خطیب کی ہر ایک بات کو غور سے سننے کا تجسّس پیدا ہوا۔ صاحب نے کہا کہ مسجد میں بچوں کو لانے سے گریز کریں کیونکہ ان کی شرارتوں کی وجہ سے یہاں بڑوں میں لڑائیاں ہو جاتی ہیں۔میرے خیال میں مولوی بچوں کو نہ لانے کی بجائے ا±ن کے بڑوں کو صبر کا درس دے کر بھی لڑائی روک سکتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم آپ ﷺکے ساتھ عشاءکی نماز پڑھ رہے تھے، جب آپ ﷺ سجدہ میں تشریف لے گئے تو حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپ ?ﷺکی کمر پر چڑھ گئے، پھر جب آپ ﷺ سجدہ سے سرمبارک اٹھانے لگے تو انتہائی پیار سے آہستہ سے انہیں کمر سے ہٹا کر زمین پر بٹھایا۔
یہ تو مسجد کی ایک چھوٹی سی مثال تھی۔ بین الاقوامی سطح پر عالم اسلام فرقوں کی وجہ سے کس قدر تقسیم کاشکار ہے۔سعودی عرب اور ایران اگر فرقہ وارانہ جنگوں کی وجہ سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے کوشش نا کرے تو اسلام کتنی ترقی کر سکتا ہے۔۔؟ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ اس پر پھر کبھی لکھنے کی کوشش کروں گا۔ تاہم اس وقت غیر مسلموں کو اسلام کی تبلیغ دینے سے ہزار گناہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مسلمانوں کے مابین ہی اسلام کی اصل تصویر دکھا دیں اور مسلمانوں کو حقیقی اسلام سکھا دیں تاکہ چھوٹے چھوٹے فرقوں کی بجائے اییک امت واحدہ کا وجود ممکن ہو

اپنا تبصرہ بھیجیں