مواخات مدینہ۔۔۔۔سیرت مبارکہ کا سنہری باب


تحریر:امجد عثمانی
مواخات مدینہ۔۔۔۔زندگی کے بکھیڑوں سے فرصت ملے تو سیرت مبارکہ کے اس سنہری باب کا گہرائی سے مطالعہ ضرور کیجئے….روح جھوم اٹھے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیرت نگار نعیم صدیقی نے اپنی کتاب “محسن انسانیت” میں ہجرت مدینہ کو تاریخ کا بڑا معاشرتی اور معاشی بحران قرار دیا ہے۔۔۔۔یہ ریاست مدینہ کو درپیش پہلا گھمبیر چیلنج تھا۔۔۔۔۔۔چشم فلک گواہ ہے کہ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بحران کو ایک “معجزانہ اصول” کے تحت چشم زدن میں حل کرکے عظیم سربراہ مملکت ہونے کا ثبوت دیا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ “شئیرنگ فارمولہ”دنیا کے لیے ہمیش ایک “اکنامک روڈ ماڈل”ٹھہرا ہے۔۔۔۔تاریخ اسے “مواخات مدینہ”کے نام سے یاد کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔۔۔
صدیقی صاحب نے مواخات کے باب میں لکھا:مدینہ کے معاشرے کا ایک بڑا مسئلہ سینکڑوں مہاجرین کی بحالی کا مسئلہ تھا……گھر بار چھوڑ چھاڑ کر مسلسل لوگ اکھڑے چلے آرہے تھے اور چند ہزار کی آبادی رکھنے والی متوسط سی بستی کو انہیں اپنے اندر جذب کرنا تھا……واقعہ یہ ہے اس مسئلے کو،جو تاریخ میں جب بھی پیدا ہوتا ہے،پریشان کن بن جایا کرتا ہے،مدینہ کے معاشرے اور صدر ریاست نے جس کمال حکمت عملی سے حل کیا ،اس کی کوئی دوسری مثال دنیا میں نہیں ملتی….کوئی آرڈی نینس جاری نہیں کیے گئے…..کوئی قانون نہیں ٹھونسے گئے……الاٹ منٹس نہیں کی گئیں…..مہاجرین کی تعداد معین کرکے کوئی قدغن نہیں لگائی گئی…..کسی جبر سے کام نہیں لیا گیا…..محض ایک اخلاقی اپیل سے اس پرپیچ مسئلے کو چند روز میں حل کرلیا گیا…..سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے عقیدے ،نظریے اورمقصد کی صحیح معنوں میں ایک نئی برادری پیدا کر دکھائی اور ایک ایک انصاری کے ساتھ ایک ایک مہاجر کا رشتہ قائم کر دیا…..انصار کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے مال،مساکن،باغات اور کھیت آدھوں آدھ بانٹ کر رفقائے مقصد کو دے رہے تھے بلکہ بعض تو دو دو بیویوں میں سے ایک ایک کو طلاق دیکر اپنے دینی بھائیوں کے نکاح میں دینے کوتیارہوگئے……دوسری طرف مہاجرین کی خود داری کا نقشہ یہ تھا کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں کھیت یا بازار کا راستہ دکھا دو،ہم تجارت یا مزدوری کرکے پیٹ پال لیں گے…….
اخوت……احساس کو کہتے ہیں…..اور بانٹ کر کھانے کا نام مواخات ہے……ریاست مدینہ ……مواخات کی بنیاد پر استوار ہوئی……اور انصار مدینہ…. مواخات مدینہ کے علم بردار ٹھہرے…….ایثار کے عملی اظہار کا نام انصار ہے…..انصار مدینہ اس لیے بھی عالی شان ہیں کہ وہ اصحاب رسول ہیں…….رضی اللہ عنہم مواخات کی برکت کا یہ عالم ہے کہ انسان تو کیا مدینہ کی بلیاں بھی بھوکی نہیں سوتیں…قدرت اللہ شہاب بتاتے ہیں کہ میں نے مسجد نبوی شریف کے دروازے پر جوتوں کے پاکستانی رکھوالے سے پوچھا کہ آپ کے کھانے کا انتظام کیسے ہوتا ہے؟بولا ایک ولی یہاں بلیوں کے لیے کھانا اکٹھا کرنے پر مامور ہیں……سارا دن سر پر ٹوکری اٹھائے پھرتے ہیں…..جگہ جگہ سے کھانے کے ٹکڑے اکٹھے کرتے رہتے ہیں اور پھر جب وہ کھانے کے وقت ٹوکری لے کر آتے ہیں تو مدینہ کی ساری بلیاں میائوں میائوں کرتی اکٹھی ہو جاتی ہیں….جس شہر میں بلیوں کا اتنا اچھا انتظام ہے وہاں انسان کیسے بھوکا رہ سکتا ہے؟……مواخات مدینہ کی خوشبو سے مہکتا یہی وہ احساس ہے جس کی روشنی میں ریاست مدینہ تشکیل پاتی ہے………دنیا میں مدینہ بھی ایک ہی ہے اور ریاست مدینہ بھی ایک ہی ………جس طرح شاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں اسی طرح انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کا بھی کوئی نعم البدل نہیں۔۔۔۔۔کہاں وہ نفوس قدسیہ کہاں ہم سیاہ کار۔۔۔۔؟؟؟ہمیں تو خاک مدینہ اور انصار مدینہ کے نقش ہائے پا ہی مل جائیں تو زہے نصیب۔۔۔۔۔!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں