عمران خان کے الزامات پر امریکہ بھی کھل کرمیدان میں آ گیا

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)امریکی سیکریٹری خارجہ کے سینئر مشیر ڈیرک شول نے کہا ہے کہ پاکستان امریکا کے لیے انتہائی اہم ملک ہے، امریکا کے بھارت اور پاکستان کے ساتھ اصولی اختلافات ہیں لیکن ہم پاکستان کے ساتھ اپنے مضبوط تعلقات برقرار اور وسیع تر رکھنا چاہتے ہیں،سابق وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے امریکہ پر لگائے گئے تمام الزامات کے دعوی بے بنیاد ہیں ،میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ان تمام الزامات کی کوئی صداقت نہیں، امریکا کو تشویش ہے کہ جو ممالک چین کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہیں ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا، امریکا، پاکستان سے یہ نہیں چاہتا کہ وہ امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخاب کرے بلکہ یہ ا±مید کرتا ہے کہ تمام ممالک خود اس بات کا فیصلہ کریں گے، امریکا، چین کے ساتھ کسی قسم کی مسابقت سے نہیں ڈرتا اور ہم چین کے ساتھ منصفانہ اور شفاف مسابقت کے خواہشمند ہیں۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان کے معروف انگریزی اخبار’ڈان‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی سیکریٹری خارجہ کے سینئر مشیر ڈیرک شول کا کہنا تھا کہ ہماری توجہ اس بات پر مرکوز ہونی چاہیے کہ امریکا۔ پاکستان تعلقات کس سمت میں گامزن ہیں، جو ناصرف اس بات کی عکاسی کرتے ہوں کہ جو کچھ ہم نے گزشتہ 75 برسوں میں حاصل کیا ہے بلکہ اس بات کی بھی عکاسی کریں جو ہم اگلے 75 برسوں میں حاصل کریں گے۔
امریکی عہدیدار نے پاکستان میں تباہ کن سیلابی صورتحال کے حوالے سے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی جانب سے 3 کروڑ ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا گیا ہے اور ہم مزید امداد دینے کو تیار ہیں ، 2010 کے بعد سے اس طرح کا خطرناک سیلاب پہلے کبھی نہیں دیکھا، یہ سیلاب 2010 کے سیلاب سے بھی بدتر ہے، موسمیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں خوفناک سیلاب آیا ہے، جس کی وجہ سے شدید المناک صورتحال پیدا ہوئی، امریکا اس خوفناک قدرتی آفت سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی مدد کرنے کو تیار ہے، امریکا بین الاقوامی برادری اور اپنے شراکت داروں سے مدد کی اپیل کرے گا، امریکا سیلاب زدگان کے لیے ایک کروڑ 60 لاکھ ڈالر امداد جمع کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے ساتھ تعاون کرے گا۔
امریکا کے چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے چین کے ساتھ بہت پرانے تعلقات ہیں، ہم عالمی دنیا کو امریکا اور چین میں سے کسی ایک کا انتخات کرنے کو نہیں کہہ رہے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمام ممالک اس قابل ہوں کہ وہ خود فیصلہ کر سکیں، ہم چین سے مزید وسیع تر تعلقات کے خواہاں ہیں، ہمارے چین کے ساتھ معاشی تعلقات بہت مضبوط ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اسے مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
پاکستان کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے امریکی مشیر نے کہا کہ ’جی بالکل، پاکستان دنیا کے بڑے مسلمان ممالک میں سے ایک ہے جبکہ دنیا میں پاکستان کی آبادی پانچویں یا چھٹے نمبر پر ہے، اسی وجہ سے پاکستان امریکا کے لیے انتہائی اہم ملک ہے، ’دونوں ممالک کے تعلقات اگلے 75 سالوں میں مزید مستحکم اور گہرے ہوں گے، تاکہ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک مشترکہ مفادات اور اہداف حاصل کر سکیں، ہمارے ہر ملک کے ساتھ تعلقات مختلف نوعیت کے ہیں، امریکا کے پاکستان اور بھارت کے ساتھ یقیناً اصولی اختلافات ہیں، سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم ان اختلافات کے باوجود کس طرح کام کرتے ہیں، پاکستان کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ہم شراکت داری اور تعاون کے جذبے کے ساتھ ان اختلافات کو دور کرنے جارہے ہیں اور ان تمام چیزوں پر نظر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہم آپس میں بانٹتے ہیں، ہم اپنے مفادات اور اقدار پر قائم ہیں لیکن ہم اس سے کہیں زیادہ مشترکہ طور پر بانٹ سکتے ہیں، ہم چین کے ساتھ تعلقات کو بھارت کے ساتھ منسلک نہیں کر رہے، دونوں ممالک کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور دونوں ممالک کے حوالے سے ہمارے مختلف اہداف، عزائم اور چیلنجز ہیںتاہم امریکا کو عالمی سطح پر چین کے حوالے سے تشویش لاحق ہے، چین پوری دنیا میں جو کردار ادا کر رہا ہے وہ امریکا کے مفادات میں نہیں ہے، امریکا، چین کے ساتھ مشترکہ اہداف مثلاً موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے لیکن چین نے اس موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا ہے۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ چین کے قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے کیا پاکستان کو بھی سری لنکا جیسے معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے؟ تو ڈیرک شول نے جواب دیا کہ ’ہمیں اس بات کی فکر ہے کہ چین کے ساتھ معاہدے کرنے والے ممالک چاہے وہ جنوبی ایشیا سے ہوں یا کہیں اور سے، ان کا انجام اچھا نہیں ہوتا، ہم عالمی دنیا کو واضح طور پر پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس فیصلہ کرنے کے پورے اختیارات ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں