شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد،جیل منتقل

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر) ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل کا مزید سات روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے شہباز گل کو جوڈیشل کرنے حکم دے دیا ۔
تفصیلات کے مطابق ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے بغاوت اور عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اکسانے کے الزام میں 9 اگست سے زیر حراست ڈاکٹر شہباز گل کا مزید جسمانی ریمانڈدینے سے انکار کرتے ہوئے 14روز کے لئے جوڈیشل ریمانڈ پر جیل منتقل کرنے کا حکم دیا ہے ۔اسلام آباد پولیس نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت سے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 7 روز کی توسیع کی درخواست کی تھی جسے مسترد کردیا گیا۔جسمانی ریمانڈ مسترد کرنے کا فیصلہ جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے جاری کیا۔
قبل ازیں، دوران سماعت پراسیکیوٹر راجہ رضوان عباسی کا کہنا تھا کہ ہر روز پولیس ملزم سے تفتیش کر رہی ہے، اسلحہ کے مقدمہ میں جوڈیشل کی استدعا ہے، ملزم کی حراست بہت ضروری ہے، پولوگرافک ٹیسٹ بھی کرانا ہے، شہباز گل کی تفتیش میں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا گیا، ابھی بھی تفتیش مکمل نہیں ہوئی، گھنٹوں کے ریمانڈ میں فونز، 4 یو ایس بیز اور اسکے کمرے کی تلاشی لی گئی، ابھی بھی ہمیں کچھ سوالات کے جوابات درکار ہیں، مرکزی موبائل فون جو شہباز گل استعمال کرتا تھا اسکی برآمدگی مقصود ہے، پولوگرافک ٹیسٹ لاہور سے کرانا ہے، اس لیے ملزم شہباز گل کا مزید 7 روز کا جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔
جج نے استفسار کیا کہ پولوگرافک ٹیسٹ کی پرانے ریمانڈ میں استدعا نہیں کی تھی جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پچھلے ریمانڈ میں استدعا نہیں تھا جو ریمانڈ معطل ہوا اس میں استدعا تھی۔جج نے ریمارکس دیے کہ 22 اگست کے حکم نامہ میں تو پولوگرافک ٹیسٹ کے بارے میں اسلام آباد کا کہا گیا ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ وہ شاید کا لفظ ہے اگر اسلام آباد میں ہوا تو ادھر سے کروالیں گے، کچھ پیش رفت ہوئی ہے اور ابھی بھی کچھ تفتیش رہتی ہے، کچھ برآمدگی اور ملزمان کے متعلق پوچھ گچھ کرنی ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ اگر پیش رفت نہ ہو تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ پیش رفت نہیں ہوئی، ملزم کے ریمانڈ کے لیے پندرہ دن تک ریمانڈ کی ہمیں اجازت مل سکتی ہے، دو دنوں کا جو ریمانڈ ملا اسکی پیش رفت موجود ہے ایک مقدمہ بھی درج ہوا، اسلحہ کے مقدمہ میں ہم نے خود کہا جوڈیشل ریمانڈ جیل بھیجا جائے۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز گل سے موبائل فون برآمد کرنا ہے، کچھ باتیں پوچھ چکے ہیں کچھ تفتیش ابھی رہتی ہے، تفتیشی نے دیکھنا تفتیش مکمل ہوئی یا نہیں، ہم عدالت سے کوئی غیر قانونی درخواست نہیں کر رہے، 4 دنوں کی پیش رفت موجود ہے تفتیش مکمل نہیں ہو سکی۔جج نے استفسار کیا کہ میڈم کی عدالت نے 48 گھنٹے دئیے اور میں نے بھی 48 گھنٹے دیے، کیا میڈم نے میرے لیے راستہ چھوڑا کہ مزید جسمانی ریمانڈ دوں جس پر پراسیکیوٹر نے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوھدری کا حکم نامہ پڑھنا شروع کر دیا۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری نے کم سے کم ٹائم دیا انہوں نے گیٹ تو بند نہیں کیا، عدالت نے یہ تو نہیں کہا پولیس کو آخری موقع دیا جاتا ہے تفتیش مکمل کرے،

ایڈیشنل سیشن جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میرے ہاتھ نہیں بندھے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہماری استدعا منظور کر کے ملزم شہباز گل کو پولیس کے حوالے کیا جائے۔پراسیکیوٹر کے بعد ملزم شہباز گل کے وکلا نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے میڈیا کے تعاون سے چھاپہ مارا۔وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ پولیس نے جتنی بھی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی ایک ہی بات موبائل فون برآمد کرنا ہے، چار موبائل فون پولیس برآمد کر چکی ہے، پولیس کو کونسے موبائل فون کی ضرورت ہے۔ لینڈ لائن نمبر پر بیپر ہوا اسکا فرد مقبوضگی نہیں بنتا، ان کو ابھی یہ نہیں معلوم اسلام آباد میں پولوگرافک ٹیسٹ کی سہولت ہے یا نہیں، 16 دن ہو چکے پولیس نے سوائے تشدد کے کچھ بھی نہیں کیا۔ پراسکیوٹر نے خود تسلیم کیا جیل میں تفتیش ہو سکتی ہے، تقریر کی بھی ٹکرے اکٹھے کر کے مقدمہ درج کیا گیا، اپنے دلائل کے دوران فیصل چوہدری نے پولیس کی جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی مخالفت کی۔وکیل فیصل چوہدری نے کہاکہ شہباز گل کو الٹا ننگا کر کے مارا گیا، ہائیکورٹ نے تشدد پر جوڈیشل انکوائری کا حکم دیا، ہم نے تشدد کو ایک ذریعہ بنا لیا ہے، صحافی، وکیل سمیت کوئی بھی شہری پولیس کے ہتھے چڑھتا ہے اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ شہباز گل پروفیسر ہے، چار دن میں پولیس نے صفر تفتیش کی ہے، مقدمہ کے اخراج کی درخواست پر عدالت عالیہ نے نوٹس جاری کیا ہوا ہے۔ملزم کے وکیل علی بخاری شہباز گل پر اس سے پہلے کوئی کیس نہیں ہے، 16 دنوں میں انکو یہ نہیں پتہ چلا کہ انہوں نے پولوگرافک ٹیسٹ کدھر سے کرانا ہے۔ملزم کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد جج نے پراسیکیوٹر کو ہدایت کی کہ آپ دلائل مکمل کر لیں۔
جج نے ریمارکس دیے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے تشدد کی انکوائری کا حکم دیدیا ہے، انکوائری آفسر نے اپنی رپورٹ جمع کرانی ہے، جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ شہباز گل نے تشدد کا الزام لگایا اور میڈیا پر آیا ہے۔
دورران سماعت شہباز گل کے وکلا اور پراسیکیوٹر کے درمیان نوک جھونک ہوئی جس پر پراسیکیوٹر نے کہا اگر شہباز گل کے وکلا کا یہ رویہ رہے گا تو میں دلائل نہیں دے سکوں گا جس پر جج نے کہا کہ آپ خاموش ہوجائیں، میں آپکو بھی 2 منٹ مزید دے دوں گا۔پراسیکیوٹر نے کہا کہ جو موبائل فون برآمد کرنا ہے، اس کا آئی ایم ای آئی پولیس ڈائری میں لکھا ہے، ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ساڑھے تین کروڑ موبائل فون برآمد کرنے ہیں۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے شہباز گل کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جس کے مطابق مزید 7روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی اسلام آباد پولیس کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں