بیرونی قرضوں کی ادائیگی میں اضافے کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)پاکستان میں بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے ساتھ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں جس کے سبب ملک کو شدید معاشی چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے۔

نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق 22-2021 کی پہلی 3 سہ ماہیوں میں ملک کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی بڑھ کر 10 ارب 88 کروڑ 6 لاکھ ڈالر تک پہنچ گئی، جبکہ مالی سال 2021 میں یہ 13 ارب 38 کروڑ ڈالر تھی۔مالی سال 21-2020 کی پہلی سہ ماہی میں قرضوں کی ادائیگی 3 ارب 51 کروڑ ڈالر کے مقابلے میں 22-2021 کے پہلے سہ ماہی میں صرف 16 ارب 53 کروڑ ڈالر رہی تاہم 22-2021 کی دوسری سہ ماہی میں یہ 43 ارب 57 کروڑ ڈالر جبکہ تیسری سہ ماہی میں 48 ارب 75 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی۔

معاشی لحاظ سے ملک کو بیرونی محاذ پر شدید خطرات کا سامنا ہے کیونکہ گزشتہ ماہ کے آخر میں چین سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر کی آمد کے باوجود اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے نیچے آگئے۔ہر سہ ماہی میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کا بڑھتا ہوا حجم اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حکومت اپنی غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے اعلی تجارتی شرحوں پر ڈالر قرض لے رہی ہے۔مسلم لیگ (ن)کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے اس شرح کا انکشاف نہیں کیا جس پر اس نے چین سے 2 ارب 30 کروڑ ڈالر کا قرضہ لیا۔

ابتدائی طور پر چین نے پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے سے قبل سنڈیکیٹڈ قرضوں کی تجدید پر اتفاق کیا تھا، تاہم موجودہ حکومت کو چین سے قرضہ حاصل کرنے کے لیے 2 ماہ انتظار کرنا پڑا۔مالیاتی شعبہ اور معیشت کے دیگر اسٹیک ہولڈرز اب بھی چین سے ملنے والے قرض کی پوشیدہ قیمت سے مطمئن نہیں ہیں، مارکیٹ میں قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ چین سے ملنے والا قرضہ بہت زیادہ شرح پر لیا گیا ہے۔وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل عوام کو یقین دلاتے رہے ہیں کہ ایک ارب ڈالر کی قسط کا اجرا چند روز میں متوقع ہے لیکن آئی ایم ایف کی جانب سے کسی تسلی بخش جواب کے انتظار میں 3 ماہ گزر گئے، بینکرز کا خیال ہے کہ امریکا کی طرح آئی ایم ایف بھی حکومت کو مزید اقدامات اٹھانے کا حکم دے رہا ہے۔آئی ایم ایف کی جانب سے فنڈنگ روکنے کے بعد سے ملک کو ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بنک سے پراجیکٹ فنڈنگ نہیں مل رہی۔

ایک سینئر تجزیہ کار نے کہا کہ چین اس بات سے واقف ہے کہ پاکستان بین الاقوامی قرضوں کی منڈی میں واپسی کا اہل نہیں اور آئی ایم ایف پاکستان کی مدد کے لیے جلدی میں نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ چین نے بہت زیادہ شرح پر پاکستان کو قرض دیا ہے۔پاکستان تجارتی قرضے کے ذریعے قرضوں کی ادائیگی کر رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ اگلے مالی سال میں مزید بیرونی قرضوں کی ادائیگی ہو گی۔مالی سال 2022 میں دونوں حکومتیں 80 ارب ڈالر کی بھاری درآمدات کی آمد کو کنٹرول نہیں کر سکیں جس سے کرنٹ اکانٹ خسارہ (سی اے ڈی) بڑھ گیا، ریکارڈ ترسیلات زر اور برآمدات کے باوجود ملک بین الاقوامی قرضہ منڈی سے ڈالر حاصل کرنے سے قاصر ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں