سٹیٹ بینک نے شرح سود 15فیصد مقرر کر دی

کراچی(کامرس رپورٹر)سٹیٹ بینک نے شرح سود میں مزید 125 بیسز پوائنٹس کا اضافہ کرتے ہوئے 13.75 سے بڑھا کر 15 فیصد کردی۔
قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے پریس کانفرنس میں کہا کہ مہنگائی بہت زیادہ ہوگئی ہے، کھانے پینے کی اشیا بہت مہنگی ہوگئی ہیں، پھر حکومت نے ابھی مشکل فیصلہ کیا ہے جو صحیح فیصلہ تھا کہ بجلی اور پیٹرول کی سبسڈی ختم کردی جائے، اس کی وجہ سے عام آدمی پر بہت دباو¿ آرہا ہے، سٹیٹ بینک اور زری پالیسی کمیٹی اس چیز پر بہت زیادہ زور دے رہی ہے کہ مہنگائی کنٹرول کرنا ہے کیونکہ یہ ہمارے عام آدمی کے لیے بہت مشکلات پیدا کر رہی ہے، مہنگائی کنٹرول کرنا اب ہمارا سب سے اہم مقصد ہے تاکہ ہمارے عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
قائم مقام گورنر نے کہا کہ سٹیٹ بینک کی زری پالیسی کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ شرح سود 1.25 فیصد بڑھا کر 15 فیصد کردی جائے، پاکستان میں ہونے والی مہنگائی کی بنیادی وجوہات کیا ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ پوری دنیا میں ہو رہا ہے، 1970 کے بعد مارکیٹ میں اتنی زیادہ مہنگائی پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی، کووڈ کے بعد جب معشتیں بحال ہونے لگیں تو طلب میں تیزی سے اضافہ ہوا اور شپنگ اور دیگر مد میں لاگت میں اضافہ ہونے لگا، خیال تھا کہ قیمتیں بتدریج نیچے آنا شروع ہوں گی لیکن فروی میں روس یوکرین جنگ کے بعد اشیا کی چیزیں اور بھی اوپر چلی گئیں اور عالمی مسئلہ بھی ہے، جس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑ رہے ہیں، اس کے علاوہ ہمارے اندرونی سطح پر بھی چند وجوہات ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھی ہے، سب سے پہلی یہ ہے کہ مالی سال 2021 اور 2022 میں ہم نے بہت تیزی سے شرح نمو دیکھا جو تقریباً 6 فیصد تھی، ویسے تو 6 فیصد شرح نمو بڑی اچھی چیز ہے لیکن دو سال تک شرح نمو 6 فیصد رہے تو ہماری معیشت کا ڈھانچہ ایسا ہے کہ مسئلے شروع ہوجاتے ہیں، مہنگائی شروع ہوتی اور کرنٹ اکاونٹ پر دباو آجاتا ہے۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ شرح نمو میں ہماری تیز رفتاری کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بدقسمتی سے مالی وسعت ہوگی اور اس وجہ سے بھی طلب بڑھ گئی اور اس سال پھر سے شرح نمو 6 فیصد ہوگئی حالانکہ رواں سال تھوڑی سی کم ہونی چاہیے تھی تو اس وجہ سے بھی مہنگائی ہو رہی ہے، اس وقت جو ماحول بنا ہوا ہے وہ بڑا مشکل اور غیریقینی ہے، دنیا بھر کے مرکزی بینکوں کے سربراہان پریشان ہیں کیونکہ دنیا بھر میں مہنگائی ہورہی ہے اور اس قسم کی مہنگائی ہم نے کوئی 50 سے 60 برسوں بعد دیکھی ہے، مہنگائی دنیا میں سب کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے لیے بھی چیلنج ہے لیکن جس طرح ہم نے کووڈ کا مقابلہ کیا تھااسی طرح اس مرحلے سے بھی نکل آئیں، مشکل مرحلہ ضرور ہے کیونکہ ایک سال تک مہنگائی بلند رہے گی، اشیا کی قیمتیں اوپر گئی ہیں تو ایک سال تک مہنگائی رہے گی لیکن ہم کوشش کریں گے کہ مزید نہیں بڑھے تاکہ آم آدمی پر مزید دباو نہ پڑے۔
قائم مقام گورنر سٹیٹ بینک نے کہا کہ اگر ہم شرح سود آج نہیں بڑھاتے تو خدا نخواستہ مزید برے نتائج ہوسکتے تھے، مہنگائی پر کنٹرول کرنا مشکل ہوجاتا، ہائپر انفلیشن ہوسکتی تھی جو کئی ممالک میں ہوچکی ہے، اس سے یہ ہوتا کہ ایک دن کسی چیز کچھ ہوتی اور اگلے 100 فیصد بڑھ جاتی، اسی طرح ہمارے ذخائر اور کرنسی پر بھی مزید دباو آسکتا تھا اور ہم ایک بری صورت حال میں بھی پھنس سکتے تھے، حالات اس وقت بھی خراب ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ خراب ہوسکتے تھے۔ ہمارے خیال اگلے مالی سال 2023 میں شرح نمو 3 سے 4 فیصد کے درمیان ہوگی جو کہ ایک اچھی شرح ہے، اس سے مہنگائی کے مزید بڑھنے کا خطرہ کم ہوگا، اسی طرح اگلے سال کے لیے مہنگائی 18 سے 20 فیصد دیکھ رہے ہیں کیونکہ قیمتیں بڑھ گئی ہیں لیکن ہم کوشش کر رہے ہیں کہ جہاں قیمتوں کی سطح آگئی ہے وہاں سے مزید اوپر نہ جائے، ہم ماہانہ بنیاد پر مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں، سالانہ بنیاد پر ہونے والی مہنگائی بدقسمتی سے اگلے 12 مہینوں کے لیے 18 سے20 فیصد رہے گی۔
ڈاکٹر مرتضیٰ سید نے کہا کہ عام آدمی پر بہت دباو ہوگا تو کوشش کریں گے غریب طبقے کو بچایا جا سکے اور صاحب ثروت افراد کوشش کریں کہ ٹیکسز اور قیمتوں کا بوجھ زیادہ اٹھائیں، ٹارگٹڈ سبسڈیز کے ساتھ ہو تاکہ عام آدمی کو فائدہ پہنچے، غذائی اشیا پر مہنگائی پر قابو پایا جائے، اس کو مانٹیری پالیسی کنٹرول نہیں کرسکتی لیکن کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں کم کرنے کے لیے اور چیزیں کی جاسکتی ہیں جیساکہ اشیا کی پیداوار میں اضافہ کریں اور سپلائی میں جو تعطل آتا ہے اس پر قابو پایا جائے کیونکہ اس سے عام آدمی زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں