عمران خان کی توشہ خانہ اور عبدالقادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری،انتظار حسین پنجوتھا پھٹ پڑے،اظہر صدیق نے بھی گرفتاری غیر قانونی قرار دے دی

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)معروف قانون دان اور سابق وزیر اعظم کے وکیل انتظار حسین پنجوتھا نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)کے چیئرمین عمران خان کی توشہ خانہ اور عبدالقادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے سخت ردعمل دیا ہے جبکہ معروف قانون دان محمد اظہر صدیق کا کہنا ہے کہ سائفر کیس میں ضمانت ہونے کی صورت میں یہ گرفتاری ہونا تھی،عمران خان جیل میں تھے،تفتیش ہو سکتی تھی مگر کیوں نہ کی۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق انتظار حسین پنجوتھا نے عمران خان کی توشہ خانہ اور عبدالقادر ٹرسٹ کیس میں گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ نومئی کو بھی نیب نے ہی گرفتار کیا تھا،نو مئی کی گرفتاری کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تب تو ریمانڈ بھی ہوچکا تھا،اب بھی غیر قانونی گرفتاری کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،نیب عدالت کے فیصلے پر سٹے کی درخواست میں ہائی کورٹ میں یہ بیان دیا گیا تھا کہ ہم نے گرفتاری نہیں ڈالی،اب اس کیس کی سماعت سے ایک دن پہلے گرفتاری بھی غیر قانونی ہے،انشااللہ کل حق میں فیصلہ آئیگا۔انتظار حسین پنجوتھا کا کہنا تھا کہ عمران خان نے القادر ٹرسٹ کیس میں متعدد بار نیب تفتیش کا سامنا کیا اور نو مئی کوغیر قانونی گرفتاری بھی اسی کیس میں ہوئی،آج بشریٰ بی بی بھی اسی کیس میں پچھلی کئی تفتیشوں میں حاضری کے باوجود ایک بار پھر پیش ہوئیں،اس کیس کے الزامات یہ ہیں کہ عمران خان کی کابینہ نے ملک ریاض کی کمپنی کو نوے ملین پاونڈز کی رقم ریاست کی بجائے سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کروانے میں مدد کی اور بدلے میں ملک ریاض نے القادر یونیورسٹی کی زمین اور بلڈنگ بنا کر دی،ان الزامات پر تمام دستاویزی و دیگر ثبوت تفتیش کاروں کے سامنے رکھے گئے کہ ریاست پاکستان ملک ریاض کے خلاف ایک سو نوے ملین پاونڈز کیس میں برطانیہ میں کبھی بھی مدعی نہیں رہی ،برطانوی کرائم ایجنسی نے خود وہ پیسے اپنے آپ ضبط کیے اور تفتیش کے بعد ان پیسوں کو واپس کیا،اب برطانوی قانون کے مطابق وہ پیسے واپس اصل مالک یعنی ملک ریاض کو جانے تھے نہ کہ حکومت پاکستان کو یا ریاست کو، عمران خان نے صرف یہ کیا کہ وہ پیسے طریقے سے پاکستان منگوائے اور وہ پیسے آج بھی سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں موجود ہیں،رہا سوال القادر ٹرسٹ تو اس ٹرسٹ کا فائدہ عوام کو ہے نہ کہ عمران خان کی ذات کو،عمران خان یا بشری بی بی اسکے ٹرسٹی ہیں جو ایک روپیہ بھی اس ٹرسٹ میں سے نہیں لے سکتے،نیب قانون کے مطابق پیسوں کا فائدہ لینا کرپشن کے زمرے میں آتا ہے یہاں عمران خان نے تو ایک پیسہ بھی نہ لیا ہے اور نہ کے سکتے ہیں تو جرم کہاں ہے؟دوسری طرف معروف قانون دان محمد اظہر صدیق کا کہنا تھا کہ نیب ایک جانبدار ادارہ ہے،عمران خان کے وارنٹ گرفتاری کیوں جاری کیے؟نیب کی جانب سے القادر ٹرسٹ کیس اور توشہ خانہ نیب کیس میں ضمانت خارج ہونے کے 93 روز بعد آج ہی جیل میں عمران خان کی گرفتاری ڈال دے گئی،عمران خان جیل میں تھے،تفتیش ہو سکتی تھی مگر کیوں نہ کی؟سائفر کیس میں ضمانت ہونے کی صورت میں یہ گرفتاری ہونا تھی،بدنیتی یوں ہے کہ کل عدم پیروی ضمانتوں کی اخراج کی بحالی کی کی صورت میں سائفر کے علاوہ اور کوئی گرفتاری نہیں رہ جانی تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں