ترکیہ کا اسرائیل کو منہ توڑ جواب،ایسا اقدام کہ مسلم امہ خوشی سے جھوم اٹھے

انقرہ(مانیٹرنگ ڈیسک)ترک صدر رجب طیب اردوگان نے مغربی ممالک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپ یوکرین میں مرنے والوں کے لیے آنسو بہاتے ہیںلیکن آپ غزہ کے بچوں کے لیے آواز کیوں نہیں اٹھاتے؟ یورپی یونین کمیشن جنگ بندی کا مطالبہ کر نے کے لیے مزید کتنے بچوں کو مرتا دیکھے گی؟ہم اسرائیلی جبر کے خلاف ان کالوں کو مزید مضبوط بنائیں گے، ترکی اسرائیل کو دنیا کے سامنے جنگی مجرم کے طور پر متعارف کرائے گا۔

سب سے مستند اور معتبر خبریں پڑھنے،دلچسپ ویڈیوز دیکھنے اور سیاسی حالات سے باخبر رہنے کے لئے پاکستان ٹائم کا واٹس ایپ چینل جوائن کریں
غیرملکی میڈیا کے مطابقترکیہ کے سخت گیر موقف کے بعد اسرائیل نے ترکی سے اپنے سفارتی عملے کو واپس طلب کر لیا ہے جبکہ ترک صدر اردوگان نے کہا کہ ہم اسرائیل کو بھی دنیا کے سامنے جنگی مجرم قرار دیں گے،ہم اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں،اسرائیلی انتظامیہ نے وحشیانہ قتل عام کیا،غزہ پر حملے پہلے ہی اپنے دفاع کی حد سے تجاوز کر چکے ہیں اور یہ ظلم،درندگی،قتل عام اور بربریت میں بدل چکے ہیں،افسوس کی بات یہ ہے کہ غیر مہذب لوگ جو مہذب ہونے کا ڈھونگ کرتے ہیں وہ صرف اس ظلم کا تماشا دیکھتے ہیں۔ترک صدر کا کہنا تھا کہ مغربی دنیا نے اپنے سیاست دانوں اور میڈیا کو غزہ میں بے گناہ لوگوں کے قتل عام کو جائز قرار دینے کے لیے متحرک کیا اور اسرائیل جنگی جرائم کا ارتکاب کر رہا ہے، یوکرین روس جنگ میں مارے جانے والے شہریوں کے لیے مگرمچھ کے آنسو بہانے والے غزہ میں ہزاروں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں،میں مغرب سے پوچھ رہا ہوں،کیا آپ صلیبی جنگ کا ایک اور ماحول بنانا چاہتے ہیں؟غزہ میں ہونے والے قتل عام کے پیچھے اصل مجرم مغرب ہے۔بے شک ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے لیکن انصاف کہاں ہے؟کوئی دفاع نہیں بلکہ غزہ میں قتل عام کیا جا رہا ہے،ہر کوئی جانتا ہے کہ اسرائیل خطے کا ایک پیادہ ہے،جو وقت آنے پر قربان ہو جائے گا۔ترک صدر نے کہا کہ یقیناً آگ اور خون کے اس ماحول میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے ہیں تاہم ان میں سے کوئی بھی ایسی مہم کے لیے بہانہ نہیں بن سکتا جس کا مقصد فلسطینی عوام کی جانب سے مختلف ناموں سے چلائی جانے والی مزاحمت کو بدنام کرنا ہے،میں نے کہا کہ حماس دہشت گرد تنظیم نہیں ہے اور اسرائیل اس سے بہت پریشان تھا،خطے میں کھیلے جانے والے کھیل کے اصل مالک وہ ہیں،جو اسرائیلی حکومت کی خواہشات کی حمایت کرتے ہیں کیونکہ اسرائیل ان کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھا سکتا،کیا مغرب ایک بار پھر صلیب اور ہلال کی جنگ چاہتا ہے،اگر مغرب نے ایسی کوشش کی تو جان لےکہ یہ قوم ابھی مری نہیں ہے،ترکی کے لوگ ابھی زندہ ہیں۔دوسری طرف اسرائیلی وزیرخارجہ ایلی نے سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں کہا کہ ترکی کے سنگین بیانات کے پیش نظر وہاں سفارتی نمائندوں کی واپسی کا حکم دیا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ اسرائیل اور ترکی کے درمیان تعلقات کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق مذکورہ فیصلے سے دونوں ممالک کے تعلقات کو دھچکا لگا ہے،جنہوں نے صرف گزشتہ سال ہی سفیروں کی دوبارہ تقرری پر اتفاق کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں