طلباءکا آرٹیفشل انٹیلی جنس پرمکمل انحصار تباہ کن

تحریر: زینب وحید
کلاس۔ اے لیولز II

50 سال کے بعد کی دنیا کیسی ہو گی؟ٹیچر نے میری پوری کلاس کو اس موضوع مضمون لکھنے کےلئے دیا تھا لیکن چیکنکگ کے دوران انہوں نے میری ساتھ بیٹھی طالبہ کو پیار بھرے انداز میں ڈانٹا کہ یہ مضمون دوبارہ لکھیں،آپ نے انگلش تو اچھی لکھی ہے لیکن اس میں کوئی ربط ہی نہیں ہے اور خیالات بھی بکھرے ہوئے ہیں،لگتا ہے کہ جیسے آپ نے خود نہیں لکھا بلکہ کسی سافٹ ویئر نے لکھ مارا ہے۔یہ مکالمہ سن کر کلاس میں چند لڑکیاں کن اکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھ بھی رہی تھیں۔یقیناً ٹیچر بھی جانتی تھیں کہ اس طالبہ نے مضمون لکھنے کے لئے کسی سافٹ ویئر کی مدد لی ہے تاہم اوور سمارٹ لڑکیاں جانتی تھیں کہ یہ مضمون آرٹیفشل انٹلی جنس کے ذریعے لکھوایا گیا ہے۔اس طالبہ نے کمال ہوشیاری سے اے آئی کے ذریعے لکھوایا گیا مضمون ایک دوسرے سافٹ ویئر میں پیسٹ کیا جس سے الفاظ بدل گئے۔پھر اس نے اسی مضمون کو وہاں سے کاپی کر کے دوبارہ چیٹ جی پی ٹی میں پیسٹ کیا جس نے الفاظ کو مزید بدل ڈالا۔میری ساتھی طالبہ نے بظاہر سمجھا کہ اس مضمون میں انسانی سوچ و فکر آ گئی ہے اور اب چوری نہیں پکڑی جائے گی کہ مضمون کس طرح لکھا گیا ہے؟مگر یہ کوئی قابل اعتماد اور قابل رشک بات نہیں ہے۔اب تو عالمی سطح پر بھی یہ بات کھلنا شروع ہو گئی ہے کہ اگر طلباء اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور ہنر کو بروے کار لانے کے بجائے مکمل طور آرٹیفشل انٹیلی جنس کے ذریعے تیار کردہ کونٹینٹ یعنی معلومات پر انحصار کریں گے تو سوچنے سمجھنے کی ان کی اپنی صلاحیت وقت کےساتھ کم یا پھر ختم ہو جائے گی۔اس لئے عالمی سطح پر اس کو ضابطہ اخلاق میں لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے دنیا بھر کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ سکولوں میں Generative AI کے استعمال کو کسی ضابطہ اخلاق میں لے کر آئیں۔ Generative AI، دراصل آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا وہ شعبہ ہے جس میں یہ ٹیکنالوجی تحریر،تصاویر اوردیگر میڈیا خود کار طریقے سے تیار کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یونیسکو نے تعلیم میں Generative AI کو استعمال کرنے کے لئے بھی انسانی سوچ کو مرکز و محور یقینی بنانے کےلئے مناسب ضوابط تیار کرنے اور اساتذہ کی تربیت کی تجویز دی ہے۔ Generative AI یا تخلیقی آرٹیفیشل انٹیلی جنس غیر صلاحیتوں کی عامل غیر معمولی ایجاد ہے جس سے انسانی ترقی کے لیے بے مثال مواقع دستیاب ہوئے ہیں لیکن کسی سوچ و فکر کے بغیر اس کا بے جا استعمال بے انتہا نقصان دہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔اپنی گائیڈ لائنز میں یونیسکو کہتی ہے کہ عوام کی رائے جانے بغیر Generative AI کو شعبہ تعلیم میں ضم یا شامل نہ کیا جائے تو بہتر ہو گا۔ضروری ہے کہ حکومتیں پہلے تمام ضروری حفاظتی انتظامات اور بہترین قواعد و ضوابط بنا لیں۔یہ رہنمائے اصول پالیسی سازوں اور اساتذہ کی مدد کریں گے کہ وہ طلباء کو سیکھنے میں مدد دینے کے لئے Generative AI کے اندر چھپی صلاحیتوں کو بہترین انداز میں بروئے کار لا سکیں۔یونیسکو نے تیرہ سال کی عمر کے بچوں کے لئے تعلیم و تحقیق میں Generative AIکے اخلاقی استعمال کےلئے حکومتیں کو سات بنیادی تجاویز اور پالیسی فریم ورک پیش کیا ہے۔اس میں عالمی،مقامی اور قومی سطح پر ڈیٹا کا تحفظ اور پرائیویسی کے معیارات بھی شامل ہیں۔

اقوام متحدہ نے کلاس رومز میں AI ٹولز کے استعمال کےلئے 13 سال کی عمر تجویز کی ہے اور اس مضمون پر اساتذہ کی ہنگامی بنیادوں پر تربیت پر بھی زور دیا ہے۔ان گائیڈ لائنز میں مصنوعی ذہانت میں اخلاقیات کے استعمال پر یونیسکو کی 2021 کی سفارشات اور شعبہ تعلیم میں مصنوعی ذہانت پر بیجنگ میں 2019 میں ہونے والے اتفاق رائے کو بنیاد بنایا گیا ہے۔یعنی اس ٹیکنالوجی میں انسانی فکرکے استعمال،مساوات،صنفی مساوات،ثقافت اور زبانوں کے امتزاج کو بھی مد نظر رکھا جانا چاہیئے۔نومبر 2022 میں مصنوعی زہانت سے لیس چیٹ جی پی ٹی کےلانچ ہوتے ہی Generative AI نے دنیا بھر میں زبردست پذیرائی حاصل کر لی تھی۔ Generative AI میں صلاحیت ہے کہ آپ اس کی مدد سے ٹیکسٹ،تصویر،ویڈیوز،میوزک اور سافٹ ویئر کوڈز تخلیق کر سکتے ہیں،اسی وجہ سے یہ Generative AI شعبہ تعلیم و تحقیق کےلئے نہایت پر کشش ثابت ہوئی لیکن اس کے باوجود ایجوکیشن سیکٹر تیزی سے تخلیق ہونے والے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس انقلاب کے اخلاقی لحاظ سے درست استعمال کےلئے تیار نہیں ہے۔اقوام متحدہ نے حال ہی میں 450 سکولوں اور یونیورسٹیوں کا گلوبل سروے کیا جس میں انکشاف ہوا ہے کہ ان میں سے صرف 10 فیصد سے بھی کم اداروں نے AI applications کے استعمال کے حوالے سے پالیسیاں تشکیل دی ہیں یا باضابطہ رہنما اصول بنائے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ قومی سطح پر قواعد و ضوابط کا نہ ہونا ہے۔
یونیسکو نے اس سال جون میں ہی خبردار کر دیا تھا کہ سکولوں میں AI applications کا استعمال بہت تیزی سے شروع ہو رہا ہے لیکن قواعد و ضوابط، عوام کی رائے یا عوام کے تحفظ کے اقدامات کی تشویشناک حد تک کم ہیں۔اس لئے بچوں کے لئے نئی درسی کتاب میں AI applications کے بجائے مصدقہ اور قابل اعتماد مواد شائع کیا جائے۔رپورٹ میں ایک نہایت باریک نکتہ یہ بھی اٹھایا گیا ہےکہ چیٹ جی پی ٹی کے موجود ماڈلز کی بنیاد Global North یا قطب شمالی کے آن لائن صارفین ہیں جو انہی امیر ممالک کی اقدار اور سماجی و معاشرتی معیارات کی عکاسی کرتے ہیں جبکہ قطب جنوبی یا کم آمدنی والے ممالک کے معاملات،ترقی یافتہ ممالک سے بالکل الگ ہیں۔

زینب وحید کیمرج 11 کی طالبہ،کلائمٹ چینج،سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،مصفنفہ اور صف اول کی مقررہ ہیں۔زینب وحید کو اقوام متحدہ کے تحت میلان میں یوتھ فار کلائمٹ چینج انٹرنیشنل کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل ہے۔وہ انٹرنیشنل یوتھ کانفرنس 2021 کی پینلسٹ،اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل سول سوسائٹی کے تحت کانفرنس میں پینلسٹ کے طور پر بھی شامل ہیں۔لمز جیسے تعلیمی ادارے میں لڑکیوں کی تعلیم اور پنجاب ہارٹیکلچر اتھارٹی کی سفیر،یوتھ ایڈووکیسی نیٹ ورک کی والنٹیئر،پاکستان ڈیبیٹنگ سوسائٹی لاہور کی صدر ہیں۔انٹرنیشنل میگزین “اسمبلی” کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔مضمون نویسی کے متعدد بین الاقوامی مقابلے بھی جیت چکی ہیں

نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز مضمون نگار کی نگارشات سے کلی طور پر متفق ہونا ضروری نہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں