نیب کا یوٹرن،مریم نواز کو شوگر ملز کیس میں سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا

ا سلام آ باد (عدالتی رپورٹر ) قومی احتساب بیورو(نیب)کی طرف سے درخواست واپس لیے جانے کی وجہ سے سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز کی ضمانت منسوخی کی درخواست نمٹا دی۔

یہ بھی پڑھیں:زرتاج گل کی گرفتاری کیلئے چھاپے

پاکستان ٹائم کے مطابق نیب کی جانب سے عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ نیب ترامیم کے بعد اس کیس پر دائرہ اختیار باقی نہیں رہا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست واپس لینے کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے،نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خارج کے بجائے آرڈر شیٹ میں نمٹا دی گئی لکھا جائے،جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں یہ آپ کو اچھا لگے گا؟اسی کیساتھ عدالت نے درخواست واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

دوسری طرف اس سے قبل والیم 10 تک رسائی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے کیونکہ اس میں تو ایک منتخب وزیر اعظم کو ہٹایا گیا،آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا،وہاں معاملہ نمٹ چکا اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو چکی۔براڈ شیٹ کی جانب سے وکیل لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ معاملہ ابھی غیر موثر نہیں ہوا۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں ثالثی کورٹ میں کارروائی کا کیا بنا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب میں کہا کہ ثالثی کا معاملہ نمٹ چکا ہے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو سنیں گے مگر ہمیں پتہ تو چلے کہ ہمارے سامنے درخواست کیا ہے،اس وقت آپ عدالت کے سامنے میرٹ کی درخواست پر موجود نہیں ہیں،ہمارے سامنے متفرق درخواست ہی ہے۔

براڈ شیٹ کمپنی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ والیم 10 میں ایسا کیا ہے کہ اسے خفیہ رکھا جائے؟جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ 5 رکنی بینچ نے پانامہ فیصلے میں والیم 10 کے بارے میں کوئی آبرویشن دی تھی؟اس پر وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل 19 اے کے تحت عوام کا حق ہے کہ وہ دیکھیں کیسے ملک کو لوٹا گیا؟۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم اس طرف نہیں جائیں گے،اس میں تو ایک منتخب وزیرِاعظم کو ہٹایا گیا،آپ کو والیم 10 ثالثی کورٹ میں کارروائی کے لیے چاہیے تھا،وہاں معاملہ نمٹ چکا اب تو آپ کی درخواست غیر موثر ہو گئی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ براڈ شیٹ کو ریکورکی جانے والی پراپرٹی سے 20 فیصد حصہ مل چکا، 28 ملین ڈالر دیے گئے۔وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ معاہدہ یہی تھا کہ شریف فیملی کی پراپراٹی سے ریکور 20 فیصد حصہ کمپنی کو ملے گا، پاکستان عوام کا 80 فیصد حصہ کہاں ہے؟۔اس پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ پاکستانی عوام کی نہیں ااپنے موکل براڈ شیٹ کی بات کریں،اگر والیم 10 میں کچھ بھی ہوتا تو پاناما کا 5 رکنی بینچ ضرور لکھتا۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ براڈ شیٹ اب والیم 10 سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتی،ان کی حد تک معاملہ نمٹ چکا ہے۔ دوسرا فریق نیب ہے اور وہ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا 5 رکنی پاناما بینچ نے والیم 10 سے متعلق کچھ لکھا۔ براڈ شیٹ کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس بینچ نے والیم 10 کو سیل ہی کردیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معاملے پر آپ 184/3 کے تحت درخواست لاسکتے ہیں، مسٹراسٹیورٹ کے کندھے پر رکھ کر مفاد عامہ کی بات نہ کریں۔جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ لطیف کھوسہ صاحب کیس میں وکالت کیلئے آپ کا پاور آف اٹارنی تو دفتر خارجہ سے تصدیق شدہ ہی نہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ پاناما فیصلے پر دوبارہ نظرثانی کرانا چاہتے ہیں؟اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ نہیں، پاناما فیصلے میں جانا نہیں چاہتا،مجھے پاناما فیصلے کے تحت نااہلی کی پرواہ نہیں ہے،شریف فیملی آخر اتنی طاقتور کیوں ہے کہ ہر ادارے کو قابو میں کر رکھا ہے۔چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا،سردار صاحب انگریزی کا لفظ ہے ریلیکس،آپ ریلیکس کریں یا پھر ہم ٹھنڈا پانی پیش کریں گے،پاناما کے 5 رکنی بینچ نے والیم 10 پر کچھ نہیں لکھا،آپ نے کوئی الگ درخواست دائرکرنی ہے تو کریں،براڈ شیٹ کی درخواست پر ہم اس معاملے میں نہیں جا رہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ براڈ شیٹ پاکستانی عوام کی نمائندہ نہیں ہے۔اس کے بعد براڈ شیٹ کی جانب سے والیم 10 کا ریکارڈ حاصل کرنے کی درخواست واپس لے لینے کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے درخواست نمٹا دی۔

۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں