فافن نے سیاسی جماعتوں کو ’مفت مشورہ ‘ دیتے ہوئے خبردار کردیا


اسلام آباد(وقائع نگار) فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے انتخابی اصلاحات کے حوالے سے رپورٹ جاری کردی ہے جبکہ سیاسی جماعتوں کو ”مفت مشورہ“ دیتے ہوئے ’فافن‘ کا کہنا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے لئے اگر سیاسی جماعتیں متحد نہ ہوئیں تو کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گےاور ملک بھی سیاسی عدم استحکام کا شکار رہے گا ۔
”پاکستان ٹائم “ کے مطابق فافن کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں’مفت مشورہ ‘ دیتے ہوئے خبردار کیا گیا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی قوانین کی کمزوریاں دور کرنے اور کے لیے جامع مذاکرات شروع کریں، سیاسی جماعتیں اختلافات چھوڑ کر مذاکرات کریں، آزادانہ، منصفانہ اور شفاف انتخابات کے لئے متحد ہو جائیں ورنہ ملک سیاسی عدم استحکام کی لپیٹ میں رہےگا، انتخابی اصلاحات کے لئے اگر سیاسی جماعتیں متحدہ ہوئیں تو کمزور معیشت پر مزید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔اپنی مشاہداتی رپورٹ میں فافن نے نشان دہی کی کہ بلدیاتی حکومت کے لیے انتخابات میں بہت سے تنازعات قانون سازی کے ڈھانچے کی کمزوریوں کی وجہ سے پیدا ہوئے، تمام سیاسی فریقین کو بات چیت کے ذریعے انہیں درست کرنے کی ضرورت ہے، جب تک انتخابات سیاسی استحکام کا باعث نہیں بنتے، جمہوریت کا عمل کمزور ہوتا رہے گا اور اسی طرح عوام کا جمہوریت پر اعتماد اور عوام کی سماجی اور معاشی بہبود کو بہتر بنانے کی صلاحیت بھی کمزور ہوتی رہے گی، اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سیاسی فریقین سے کھل کر بات کرتے ہوئے ان کے جائز خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بدین، جامشورو، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار، ٹھٹہ اور ملیر کے اضلاع میں ووٹرز کی متاثر کن تعداد نے ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشن کا رخ کیا جبکہ کراچی وسطی، کراچی شرقی، کراچی غربی، کراچی جنوبی، کورنگی، حیدرآباد اور کیماڑی کے اضلاع میں ووٹرز کی تعداد ’نسبتاً کم‘ تھی، بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے برعکس ووٹنگ کا عمل منظم رہا تاہم پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور اس کے اطراف مہم چلانے سے متعلق قانونی اور طریقہ کار کی بے ضابطگیاں اور بیلٹ جاری کرنے کا عمل پہلے مرحلے کی طرح دوسرے مرحلے میں بھی برقرار رہا، فافن کے مبصرین نے دوسرے مرحلے کے دوران پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ فارم (فارم 11) میں کوتاہیوں کو نوٹ کیا ہے، انہوں نے ایسے معاملات کی اطلاع دی جہاں پریزائیڈنگ افسران نے نتیجے کے فارم کو صحیح طریقے سے پر نہیں کیا جس میں پولنگ سٹیشنوں کے نام، رجسٹرڈ ووٹرز، پولنگ کے ووٹوں کی صنفی تفریق شدہ تعداد اور پولنگ اہلکاروں کے دستخطوں کے لیے حصے خالی چھوڑ دیے گئے تھے۔رپورٹ میں عام انتخابات سے قبل پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ ڈے کے انتظام کو بہتر بنانے کے لیے انتخابی مہم کے حوالے سے ضابطہ اخلاق پر سختی سے عمل درآمد یقینی بنانے، مناسب فاصلے پر پولنگ بوتھ قائم کرنے، ووٹر کی شناخت اور بیلٹ جاری کرنے کے عمل کی تعمیل، خواتین پولنگ بوتھوں پر خواتین عملے کی دستیابی اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔
فافن نے اپنے مشاہدے میں کہا کہ اس کے مشاہدات 343 شماریاتی نمونوں کے حامل پولنگ سٹیشنوں پر تعینات ’تربیت یافتہ اور مستند شہری مبصرین‘ سے موصول ہونے والی رپورٹس پر مبنی ہیں، ہم نے 104 مبصرین تعینات کیے، جنہوں نے 90 پولنگ سٹیشنوں پر پولنگ کے آغاز کے عمل، 953 پولنگ بوتھوں پر انتخابی عملے اور ووٹنگ کے عمل میں مواد کی دستیابی، ایک ہزار121 ووٹرز کے لیے ووٹر کی شناخت اور بیلٹ جاری کرنے کے عمل اور 74 پولنگ اسٹیشنوں پر گنتی کے عمل کا مشاہدہ کیا، بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے دوران کچھ پولنگ اسٹیشنوں پر زبانی تلخ کلامی کے چند واقعات کو چھوڑ کر پولنگ کا عمل مناسب حفاظتی انتظامات کی بدولت پرامن اور منظم رہا، الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی مہم اور کینوسنگ پابندیوں کے نفاذ میں پہلے مرحلے کے بعد سے کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں دیکھی گئی کیونکہ تمام بڑی جماعتوں اور امیدواروں کو پولنگ سٹیشنوں کے قریبی علاقوں حتیٰ کہ پولنگ اسٹیشنوں کے اندر بھی ووٹرز کو اپنی جانب راغب کرتے دیکھا گیا، زیادہ تر پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ کی گنتی کے لیے مناسب طریقہ کار پر عمل کیا گیا اور انتخابی عملہ عام طور پر گنتی کے تقاضوں کی تعمیل کرتا نظر آیا، جن پولنگ سٹیشنوں کا مشادہ کیا گیا ان میں سے 89 فیصد پر پریزائیڈنگ افسران نے بیلٹ بکس کھولنے اور گنتی شروع کرنے سے پہلے انہیں ایک مرکزی مقام پر رکھ دیا، 64 فیصد پولنگ سٹیشنوں کے دروازے گنتی شروع ہونے سے پہلے بند کر دیے گئے تھے تاکہ گنتی کے عمل کے دوران کوئی بھی شخص کمرے سے باہر نہ جا سکے اور نہ ہی کوئی اندر آ سکے، مشاہدہ کیا گیا کہ پولنگ سٹیشنز میں سے 4 فیصد پر گنتی کے عمل کے دوران غیر مجاز افراد موجود تھے، مشاہدہ میں آیا کہ پولنگ سٹیشنوں میں 18 فیصد پریزائیڈنگ افسران نے پولنگ ایجنٹس کی درخواست پر بیلٹ کی دوسری گنتی کی جبکہ 45 فیصد پر ان کی اپنی ایما پر ایسا کیا گیا، پولنگ ایجنٹس اور سیکیورٹی اہلکاروں کو بالترتیب 12 فیصد اور 4 فیصد پولنگ سٹیشنوں پر بیلٹ پیپرز کو چھوتے ہوئے دکھا گیا۔مبصرین کے مطابق مشاہدہ میں آیا کہ پولنگ بوتھوں کی اکثریت پر انتخابی مواد دستیاب تھا، مٹائی نہ جانے والی سیاہی اور سٹمپ پیڈز 93 فیصد مشاہدہ شدہ پولنگ بوتھوں پر دستیاب تھے، انتخابی فہرستیں اور 92 فیصد پر رازداری، 93 فیصد پر ووٹرز کے بیلٹ پیپرز پر نشان لگانے کے لیے استعمال ہونے والے نو میٹرکس سٹیمپ، 89 فیصد پر ای سی پی کی آفیشل اسٹیمپ اور 9 فیصد پر شفاف بیلٹ بکس دستیاب تھے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں