اقتدار کا اپنا ہی”خمار”ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی “بہک” گیا تو کسی پر “بھید”کھل گئے۔۔۔۔۔کچھ “صاحب اقتدار”اچھے خواب رکھتے اور تعبیر کے “تعاقب”میں آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔۔۔۔۔کچھ لوگ “مسند اقتدار”کو “خواب گاہ “سمجھ لیتے اور پھر “خواب و خیال” ہوجاتے ہی۔۔۔۔۔۔۔”معمار نارووال” جناب احسن اقبال” خوش اقبال”ہیں کہ جو خواب دیکھتے ہیں اس کی تعبیر بھی پا لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے اپنی دھرتی کے لیے قدم قدم سپنے دیکھے اور تعبیریں پائیں۔۔۔۔۔انہیں ایک اور خواب کی تعبیر مل گئی ہے اور وہ خواب ہے نارووال میڈیکل کالج کا۔۔۔۔۔۔نارووال کے دانشور اخبار نویس ملک سعید الحق صاحب نے خوشخبری دی کہ گورداس پور کے پڑوس میں واقع مشرقی شہر کے میڈیکل کالج کا خواب بھی پورا ہو نے جا رہا ہے اور فیصل آباد میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلر، پروفیسر ظفر علی چودھری کو نارووال میڈیکل کالج کے انتظامی اور مالی معاملات کی ہموار منتقلی یقینی بنانے کے لیے میڈیکل کالج کے پرنسپل کا اضافی چارج بھی سونپ دیا گیا ہے۔۔۔۔کچھ دن پہلے مسلم لیگ ن کے انتہائی تجربہ کار سیکرٹری جنرل جناب احسن اقبال نے “تنگ آمد بجنگ آمد” پیپلز پارٹی کے نا تجربہ کار چیئرمین بلاول بھٹو کو چیلنج دیا کہ نارووال کا مقابلہ لاڑکانہ سے کر لیں۔۔۔۔احسن اقبال صاحب” دعوت مناظرہ”دے سکتے ہیں کہ انہوں نے صرف دس سال میں پس ماندہ ترین ضلع کو ترقی کے اس بام عروج پر پہنچا دیا جہاں لاڑکانہ آدھی صدی میں بھی نہیں پہنچ پایا۔۔۔۔۔کہاں لاڑکانہ کے حکمران بھٹوز کی جنم بھومی اور مدفن۔۔۔۔کہاں خلق خدا کی بات کہنے والے شاعر فیض احمد فیض کی مٹی۔۔۔۔۔بظاہر تو دونوں میں”بعد المشرقین” لگتا ہے لیکن ترقی کے باب میں نارووال کا لاڑکانہ سے کوئی تقابل بنتا ہی نہیں بلکہ جچتا ہی نہیں کہ ایک طرف “خواب اور تعبیریں” ہیں اور دوسری جانب “سبز باغ” ہیں۔۔۔۔۔۔کہتے ہیں کسی کے پاس جو ہوتا ہے وہی تقسیم کرتا ہے۔۔۔احسن اقبال کو علم کی دولت ملی اور خوب ملی اور انہوں نے اپنے شہر کو علم کا شہر بنا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نارووال میں جدھر نگاہ دوڑائیں کوئی نہ کوئی اعلی پایہ دانش گاہ دکھائی دیتی ہے۔۔۔۔۔کسی نے تعلیمی انقلاب کا نظارہ کرنا ہو نارووال جا دیکھے۔۔۔۔نارووال میڈیکل کالج سے پہلے بھی تعبیروں کی ایک طویل فہرست ہے۔۔۔۔ایک سو چالیس ایکڑ پر پھیلی یونیورسٹی آف نارووال کے نام سے درس گاہ احسن اقبال کے بڑے خواب کی بڑی تعبیر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔دو سو پچیس ایکڑ پر محیط یو ای ٹی لاہور کا نارووال کمپس جبکہ ایک سو چالیس ایکٹر پر یونیورسٹی آف ویٹرنری سائنسز بھی ان کے “حسن تخیل”کا شاہ کار ہے۔۔۔۔اسلامیہ کالج کی بحالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کینسر ڈائیگناسٹک سنٹر اور ڈاکٹر اشفاق ایکسی سنٹر بھی ان کے منصوبے ہیں۔۔۔۔ملک سعید الحق کے مطابق احسن اقبال ایک اور خواب بھی دیکھ رہے ہیں اور وہ ہے ایگری کلچر یونیورسٹی کا کیمپس۔۔۔۔۔احسن اقبال نے نارووال کو چودہ کھیلوں کے لیے پینتالیس ایکڑ پر نارووال سپورٹس کمپلیکس بھی دیا۔۔۔۔۔وہی سپورٹس کمپلیکس جو “عمرانی دور “میں سکینڈل ٹھہرا اور اس کی پاداش میں احسن اقبال کو پابند سلاسل بھی ہونا پڑا اور وہ ہتھکڑی میں وکٹری کا نشان بناتے جیل چلے گئے۔۔۔۔سیاستدان اور فن کار میں یہی فرق ہوتا ہے کہ اول الذکر مسکراتے ہوئے “پس زنداں”چلا جاتا اور موخرالذکر روتے ہوئے “اماں کے گھر “کی راہ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ایسے “صنف نازک مزاج” لوگوں کو کون سمجھائے کہ مصر کی قید کے بدلے ہی” تاج شاہاں” ملتا ہے۔۔۔۔۔کسی کو یقین نہیں تو این اے 76جاکر دیکھ لے کہ سیاسی میدان خالی پڑا ہے اور کوئی احسن اقبال کے مدمقابل دکھائی نہیں دے رہا۔۔۔۔میرے خیال میں ان کے مقابلے میں بلاول بھٹو بھی الیکشن لڑیں تو ہار جائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بلاول کیا پی ٹی آئی کے”مہاتما”بھی میدان میں اتریں تو منہ کے بل جاگریں۔۔۔۔۔احسن اقبال کا سیاسی پروفائل بھی خوب ہے۔۔۔۔۔وہ 1993 میں پہلی بار رکن قومی اسمبلی بنے پھر نوازشریف کے دوسرے دورحکومت می٘ں 1997 سے 1999 تک بھی ایم این اے اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمشن رہے۔۔۔۔۔پرویزمشرف آمریت میں وہ پارلیمنٹ کا حصہ نہیں تھے۔۔۔۔۔ وہ 2008۔۔۔2013اور2018 میں بھی قومی رکن اسمبلی اور وفاقی وزیر بنے۔۔۔۔۔۔۔۔احسن اقبال کا ایک پروفائل ایمانداری بھی ہے۔۔۔۔وہ ذاتی طور پر وطن عزیز کے ان چند سیاستدانوں میں سے ہیں جنہوں نے سیاست کو “دھندہ” نہیں بنایا اور حلقے کا بچہ بچہ ان کی نیک نامی کی گواہی دیتا ہے۔۔۔۔۔۔۔یہی حال ان کے صاحب زادے حافظ احمد اقبال کا ہے۔۔۔۔۔احسن اقبال کی خوش قسمتی یہ ہے کہ انہیں بزرگوارم ملک سعید الحق ایسے باوقار مشیر دستیاب ہیں جو معدے نہیں دماغ سے سوچتے ہیں۔۔۔۔۔ان کی خوش قسمتی یہ بھی ہے کہ انہیں “سیاسی بانگڑو” نہیں جاں نثار سیاسی کارکن میسر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ورنہ ان کے اگلے حلقے میں فکری لحاظ سے کوئی قحط الرجال سا قحط الرجال ہے۔۔۔۔۔۔کچھ سال ہوئے میں نے ادھر صوبائی سطح کے ایسے ہی ایک سیاستدان کے ” رفیق خاص” سے ازراہ تفنن کہا کہ کبھی اپنے لیڈر کو حلال کی چائے بھی پینے دیا کریں تو وہ اچھلے اور کہا آپ کو پتا ہے کہ میں “ڈبل ایم اے” ہوں۔۔۔۔۔میں نے سر پکڑ لیا۔۔۔۔یہی وہ “سیاسی مخلوق” ہے جو اپنے چھوٹے سے فائدے کے لیے”برانڈ”کو لنڈا کر دیتی ہے۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ نارووال سے مشرق کی جانب چالیس کلومیٹر آگے بڑھیں تو سیاست “بانجھ” ہوتی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی خزاں رسیدہ کہ اس کی “کوکھ”سے برگ وبار کم ہی پھوٹے ہیں۔۔۔۔”گیس کے شعلے” کے سوا ترقی کے ہر راستے میں گھپ اندھیرا چھایا ہے۔۔۔۔۔۔۔حسن اتفاق دیکھیے کہ بلاول بھٹو کو ترقی کے مقابلے میں چیلنج دینے والے احسن اقبال اسی محترمہ آپا نثار فاطمہ کے فرزند ارجمند ہیں جن کے بارے یہ بات مشہور ہے کہ وہ اپنے زمانے میں پنجاب میں بھٹو مخالف سیاسی مزاحمت کا ایک استعارہ تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔احسن اقبال کا دینی پروفائل بھی انتہائی قابل قدر ہے۔۔۔۔۔۔یہ اسی آپا نثار فاطمہ کے صاحب زادے ہیں جنہوں نے جنرل ضیا دور میں ناموس رسالت قانون پارلیمینٹ سے منظور کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔۔۔۔ شومئی قسمت کہ اسی آپا نثار فاطمہ کے دین دار لخت جگر احسن اقبال کو مئی2018 میں ان کی اپنی حکومت کے دوران ان کے اپنے حلقہ انتخاب میں ہی توہین رسالت کا الزام لگا کر گولی مار دی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ نفرت کی گولی کھا کر بھی مسکرا دیے اور انتقام کے بجائے “جنونی” کو معاف کر دیا۔۔۔۔۔۔۔سماجی خدمات کے باب میں احسن اقبال کا پروفائل اتنا شاندار ہے کہ ایک پراجیکٹ نکال دیں تو وہ فادر آف لاہور کہلانے والے سر گنگا رام سے بھی قد آور شخصیت دکھائی دیتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں اس کالم کے توسط احسن اقبال سے گزارش کروں گا کہ وہ سر گنگا رام کی طرح یہ خوبصورت خواب بھی دیکھیں اور اس کی تعبیر بھی دیں۔۔۔۔۔۔ویسے تو یہ علمائے کرام کا “موضوع” ہے مگر ہمارے سماجی مسائل صاحبان جبہ و دستار کا عنوان کب ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش مولانا طارق جمیل کا یہ موضوع ہوتا۔۔۔۔۔۔کاش علامہ ثاقب رضا مصطفائی کا یہ عنوان ہوتا۔۔۔۔۔۔کاش وفاق المدارس کے قاری حنیف جالندھری اور تنظیم المدارس کے مفتی منیب الرحمان اس موضوع پر لب کشائی کرتے۔۔۔۔۔۔۔احسن اقبال خود نہیں تو کبھی ڈاکٹر امجد ثاقب کو یہ منصوبہ سونپ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔وہی اس “خاکے”میں رنگ بھر سکتے ہیں کہ ان پر”اخوت” کا مفہوم کھلا اور انہوں نے “مواخات مدینہ “کی عملی تصویر “جدید دنیا”کے سامنے رکھ دی۔۔۔۔۔۔یہ ایک صدی پہلے کی کہانی ہے۔۔۔۔مورخین نے لکھا ہے کہ سر گنگا رام بیوہ عورتوں کی دوسری شادی کی ضرورت کے قائل تھے۔۔۔۔۔اس وقت ہندوستان بھر میں ڈھائی کروڑ سے زیادہ بیوہ عورتیں موجود تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے اس مقصد کے لیے ایک خیراتی ٹرسٹ رجسٹرڈ کرایا اور اسے پہلے “پنجاب وڈو ری میرج ایسوسی ایشن” کا نام دیا جس کا دائرہ بہت جلد ہندوستان بھر میں پھیل گیا اور اسے پنجاب کے بجائے “آل انڈیا وڈو ری میرج ایسوسی ایشن” کا نام دے دیا گیا۔۔۔۔۔اس ایسوسی ایشن کے ذریعے چند ہی برس میں ہزارہا بیواؤں کی شادیاں ہوئیں اور وہ ازسرنو زندگی گزارنے لگیں۔۔۔۔۔جن بیوہ عورتوں کی شادی نہ ہوپاتی تھی ان کی فلاح کے لیے گنگا رام نے “وڈو ہوم سکیم “پیش کی جہاں انہیں تربیت دے کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنایا جاتا تھا۔۔۔۔۔۔انہوں نے اس سکیم کے تسلسل میں لاہور میں ایک انڈسٹریل سکول بھی قائم کیا اور یہ اہتمام بھی کیا کہ اس انڈسٹریل سکول کے تحت تیار ہونے والی مصنوعات گنگا رام ٹرسٹ کے زیر اہتمام انڈسٹریل شاپ کے ذریعے فروخت کی جائیں۔۔۔۔۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب خواجہ حسن نظامی نے کہا کہ تھا کہ اگر یہ ممکن ہوتا کہ ایک آدمی اپنی زندگی کسی دوسرے کو دے دے تو میں پہلا شخص ہوتا جو اپنی زندگی کے قیمتی سال سر گنگا رام کو دے دیتا تاکہ وہ طویل عمر تک زندہ رہیں اور بھارت کی مجبور خواتین کی فلاح کے لیے خدمات انجام دیتا رہے۔۔۔۔۔۔آپا نثار فاطمہ خوش بخت ہیں کہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے گراں قدر خدمات پر امر ہو گئیں۔۔۔۔۔احسن اقبال بھی نفرت کی کسی گولی سے نہیں مریں گے کہ مخلوق خدا کے لیے جینے والے لوگ صدیوں بعد پیدا ہوتے اور صدیوں تک زندہ رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔!!!!
پس تحریر:اس سے پہلے کہ کسی سیاسی یا دینی جماعت کا کوئی “نفسیاتی کارکن”ہمیں “لفافہ صحافی” ٹھہرائے۔۔۔۔دست بستہ عرض ہے کہ احسن اقبال صاحب سے شناسائی ہے نہ کوئی ملاقات۔۔۔۔۔ہاں ہم نارووال میں اقامت پذیر چن پیر کے”وہابی مرید” کے عقیدت مند ہیں اور وہ اتنے “باکرامت مرید” ہیں کہ ایک جملہ “اچھال” کر مبسوط کالم “اجال” لیتے ہیں۔۔۔۔۔۔!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں