بے ربط دھڑکنوں کا شور

تحریر : دعا مرزا

اس رات دماغ میں ان تمام قصوں کا رش لگا جس نے مجھے کندن بنایا،، ہر وہ ٹھوکر جس سے زخمی ہو کر میرا حوصلہ مزید چمکا،، ہر وہ مشکل جس کے بعد آنے والی آسانی کے توکل نے مجھے سنبھالے رکھا اور ہر وہ لہجہ جس کی کڑواہٹ کے بعد میں نے خود اعتمادی سیکھی۔ عجب کلیہ ہے زندگی کا کہ دوڑ میں ساتھ کوئی نہیں دیتا مگر عین اس وقت جب وقت گزر جائے سب حامی نظر آنے لگتے ہیں جی ہاں اس بات کے جو ان کے حق میں ہو یعنی اگر آپ ہارے تو ان کی پیشن گوئی جیت گئی اور اگر آپ منزل تک پہنچ گئے تو ہوسکتا ہے کہ یہ کچھ وقت کیلئے ہو کیونکہ آنے والی منزل پر ایک اور قدم ہے۔ بس یوں سمجھئے کہ ڈرانے کے ساتھ ساتھ اپنے اندر چھپا بغض دکھا رہے ہوں۔میری اماں مجھ سے ہمیشہ اس بات پر خفا رہتی ہیں کہتی ہیں کسی کو سمجھاتی ہو تو بہت مثبت ہوتی ہو اور جب لکھتی ہو تو اتنی گھٹن زدہ تحریریں کہ لگتا ہی نہیں تم ہو اور میرا ہر بار ایک ہی جواب ہوتا ہے کہ محبت کی باتیں تو ہر کوئی کرتا ہے اور محت بانٹنے کا درس سکول سے شروع ہوتا ہے اور قبر تک ساتھ جاتا ہے کیونکہ ہمیں کبھی یہ سیکھانا ہی نہیں جاتا کہ اپنے اندر کی گھٹن اور نفرت بنانے والی باتوں کو کیا جائے ، ان لہجوں کا تذکرہ کھلے عام کیا جائے جو آپ سے آپ کو چھین رہے ہیں تاکہ انس کو دیمک کی طرح چاٹنے والی یہ خاموشی اندر چیخنا چھوڑ دے اور اندر پھر ویسے ہی سکون ہو جیسے باہر چہرے پر اسلئے عیاں ہے کیونکہ سب ٹھیک ہے کی بھونڈی سی نقل اتارنی ہے۔ یقین کریں بہت فائدہ ہوتا ہے کیونکہ آپ کئی لوگوں کے سینکڑوں سوالوں اور مفت کی پیشن گوئیوں سے بچ جاتے ہیں مگر ان سب کے بعد بھی ایک ایسی مسکراہٹ آپ کے چہرے پر ہمیشہ کے لئے رہ جاتی ہے جو آپ کو کھا جاتی ہے وہ کہتے ہیں ناں ، وہی باتیں کھا گئیں مجھ کو ، جو باتیں پی گیا تھا میں ۔
میں نے سخت دل ہونے کے باوجود ایک بات کا مشاہدہ کیا کہ جب آپ بہت سخت جان ہوتے ہیں تو آپ کو شکایت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا کیونکہ آپ نے تو کبھی کسی کو اپنے سے جڑے مسائل کی عادت ہی نہیں ڈالی ہوتی پھر وہ ایک دو لوگ جو آپ کی زندگی میں اہمیت رکھتے ہوں خواہ کسی بھی رشتے سے آپ سے منسلک ہوں ان کی عدم توجہ آپ کے لئے تکلیف کا باعث ہوتی ہے۔ آپ سوچ بچار کے ایسے گرداب میں پھنستے ہیں جیسے ٹائٹینک کا ملبہ دیکھنے کے خواہش مند ہوں دولت بھی ہو جائیں بھی اور ڈوب جائیں۔ اس میں صرف دماغ ہی نہیں بلکہ جسم بھی تکلیف محسوس کرتا ہے۔ آپ کے مزاج میں غیر معمولی تبدیلیاں آنے لگتی ہیں پھر آپ اگر اس ضد پر اڑ جائیں کہ آپ ایسی زندگی کے حقدار نہیں ہیں تو لیں جی آپ نے ایک اور مصیبت کو گلے لگا لیا کیونکہ پھر آپ خود کو افلاطون سمجھتے ہوئے حالات ٹھیک کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہار نہیں مانتے یا یوں کہیے کہ ہار ماننا آپ کے لیے اتنا ہی مشکل ہوجاتا ہے جتنا خاموش رہنا ۔ آپ ذہنی کیفیت کی ایک سطح پر پہنچ چکے ہوتے ہیں جہاں آپ کو یہ شبہ ہونے لگتا ہے کہ شاید آپ اپنی بات کسی کو بتا نہیں پارہے یا پھر وہ چند لوگ بھی آپ کو سننے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔ ایسے حالات میں آپ کو خود سے وعدہ کرنا چاہئے ، حالات کو مان لینا چاہئے لکھتے ہوئے ہنسی آرہی ہے کہ پڑھنے والا کہے گا یہ تو پتہ ہے مگر ایسا کرنا ممکن ہو تو پھر مسئلہ ہی ختم مگر مسئلہ ایک ہی صورت میں ختم ہوگا جب آپ حالات کے سامنے سپر ہیرو بننا چھوڑ دیں گے
ہاں ناں جب آپ معاملات کے ساتھ بچوں کی طرح ضد لگانے کی بجائے سرنڈر کر کے آگے بڑھیں گے۔ نہیں آپ غلط نہیں تھے جب آپ نے خاموشی کو زبان دی تھی کیونکہ آپ کا اس قید سے نکلنا ضروری تھا کہ شاید سب ٹھیک ہوجاتا مگر میں نے تو ایک بات سیکھی ہے کہ اگر کچھ بھی ہوجائے تو بھی کچھ نہیں ہوتا۔
اس کا عنوان میں جو بھی لکھوں آپ اس کو اپنا عنوان ضرور دیجئے اگر بات آپ تک پہنچ گئی تو!

اپنا تبصرہ بھیجیں