شملہ پہاڑی سے کرتار پور تک

نیوز روم/امجد عثمانی

لاہور کی شملہ پہاڑی پر جنوبی ایشیا کے خوب صورت ترین پریس کلب کے صحن میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے پنجابی پروفیسر جناب ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان ساتھ چائے پیتے مجھے کرتار پور میں برسوں پہلے نوش کی ہوئی “یادگار چائے” یاد آگئی۔۔۔۔اس دن میں اور سنئیر اخبار نویس برادرم خالد منہاس بیٹھے گپ شپ لگا رہے تھے کہ پروفیسر صاحب کا ادھر سے گذر ہوا۔۔۔۔خالد صاحب نے انہیں بیٹھنے کی دعوت دی تو وہ بخوشی ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تعارف پر کھلا کہ وہ استاد گرامی قدر ہیں تو ان کی قدر اور بھی بڑھ گئی۔۔۔۔قابل صد تکریم خالد صاحب نے ان کے اکرام میں چائے اور چپس منگوالی۔۔۔۔۔۔یوں یہ”پنجابی بیٹھک” ذرا “کرسپی” بھی ہو گئی۔۔۔…ایک عرصے سے میرے ذہن میں ایک سوال کلبلا رہا تھا کہ کبھی کوئی “ذمہ دار اقلیتی شخصیت” ملے تو ان سے پاکستان میں اقلیتوں کے عدم تحفظ کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا پر بات کروں اور ان سے دل کی بات پوچھوں۔۔۔۔۔میں نے پروفیسر کلیان سنگھ کلیان کی” دستیابی” کو “غنیمت”جانا اور موقع ملتے ہی “مطلوبہ سوال” داغ دیا۔۔۔۔۔میں نے انتہائی ادب سے پوچھا سر کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتیں غیر محفوظ ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے نفی میں جواب دیا اور دو ٹوک انداز میں کہا کہ یہاں نا صرف اقلیتیں انتہائی محفوظ ہیں بلکہ انہیں بھرپور مذہبی آزادی بھی حاصل ہے۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں سکھ کمیونٹی کا تو “پروٹوکول” ہی “وکھرا”ہے۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں:وزیر دفاع “کس” سے مخاطب تھے؟

میں نے پروفیسر صاحب کو اپنے کرتار پور کے “تین وزٹس”کے بارے میں بھی بتایا۔۔۔۔ان وزٹس میں ایک کوئی ایک دہائی پہلے ہوا،جس کی چائے مجھے اس نشست میں یاد آ گئی۔۔۔تب کرتار پور ایک جنگل بیابان کا منظر پیش کر رہا تھا اور “امن راہداری” کسی کے حاشیہ خیال میں بھی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔ہوا یوں کہ میں مدینہ منورہ میں مقیم نامور اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے ساتھ ایک “سیرت کانفرنس”میں شرکت کے لیے شکرگڑھ جا رہا تھا۔۔۔۔۔دوپہر کے کھانے کے لیے نارووال رکے تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ آپ بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی داعی ہیں۔۔۔۔کیوں نہ آپ کو گورد وارہ ڈیرہ صاحب کرتار پور دکھائیں جہاں بابا گورو نانک ابدی نیند سو رہے ہیں۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کیوں نہیں ضرور چلتے ہیں۔۔۔۔میں نے نارووال شہر کے اکلوتے دانشور اخبار نویس بزرگوارم ملک سعید الحق کو فون کیا۔۔۔۔۔یہ وہ کھلے دل کے ملک سعید الحق ہیں جو”انتہائی سنجیدہ”احسن اقبال کے پہلو میں بیٹھے بھی مسکراہٹیں بکھیرتے ہیں۔۔۔یہ وہ ملک سعید الحق ہیں جنہیں اپنے عہد کے بڑے کالم نگار جناب رفیق ڈوگر نے”چن پیر کا وہابی مرید”قرار دیا تھا۔۔۔۔خیر ملک صاحب نے کرتار پور کے نگران سکھ دوست کو فون کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر پہنچے تو سکھ منتظمین ہمیں دیکھ کر باغ باغ ہو گئے۔۔۔۔۔۔ہمارا پرتپاک استقبال اورخوب آو بھگت کی ۔۔۔۔۔گپ شپ کے دوران چائے آ گئی۔۔۔۔۔۔ہمارے ساتھ دو “ملاں”بھی تھے ۔۔۔۔چاہت بھری چائے دیکھ کر نا جانے دونوں حضرات کو کیا ہوا کہ وہاں سے” کھسک”گئے؟ڈاکٹر صاحب نے سیرت کے بہتیرے حوالے دیے کہ بھائی چائے لے لیں کچھ نہیں ہوتا مگر وہ چٹان کی طرح “ڈٹ” گئے۔۔۔۔۔۔۔میں نے استفسار کیا شیخ خلوص بھری دعوت کو ٹھکرانا اسلام کی کون سی خدمت ہے؟ڈاکٹر احمد علی سراج نے سرد آہ بھری اور کہا کہ ایسے لوگ اسلام کے مہکتے گلستان میں پھولوں کے ساتھ”کانٹے” ہیں۔۔۔۔۔میں نے پروفیسر کلیان سنگھ کلیان کو بتایا کہ یہ وہی ڈاکٹر احمد علی سراج ہیں جنہوں نے لاہور کی صحافی کالونی کے لیے آئیڈیل جامع مسجد اور قرآن سنٹر کا تحفہ دیا اور وہ اس “دینی پراجیکٹ”کے منتظم اعلی ہیں۔۔۔۔۔۔صحافی کالونی کی مسجد کا ذکر سنتے ہی پروفیسر صاحب بولے کہ ہم بھی ادھر ہی رہائش پذیر ہیں۔۔۔۔کہنے لگے میں تو اس مسجد کی اپنی یونیورسٹی میں بھی اکثر مثال دیتا ہوں کہ یہ ایک رول ماڈل مسجد ہے۔۔۔۔۔۔۔شاید ہی لاہور میں ایسی کوئی مسجد ہو کہ جہاں تمام مکاتب فکر ایک ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں:یہ صدیوں کا قصہ ہے۔۔۔۔۔۔!!!!
بات ہو رہی تھی اقلیتوں کے تحفظ اور مذہبی آزادی کی۔۔۔میرے خیال میں اس حوالے سے پروفیسر کلیان سنگھ کی گواہی معتبر ہے۔۔۔۔۔باقی اکا دکا ناخوشگوار واقعات دنیا میں ہر کہیں ہوتے ہیں لیکن انتہا پسند کسی بھی ملک کا چہرہ نہیں ہوتے۔۔۔۔رہے”لبرل شبرل”تو ان کے مسائل اور ہیں۔۔۔۔ان کے ہاں “زبانی جمع خرچ” چلتا ہے۔۔۔۔۔یہ کسی کے درد کا درمان نہیں کرتے بلکہ وہ “درد” بیچتے ہیں۔۔۔۔۔اور پرچون کی طرح بیچتے ہیں۔۔۔۔پنجابی کے بڑے شاعر بابا نجمی نے کہا تھا کہ مجھے پتہ ہے مزدور کا پسینہ کیا ہوتا ہے اور میں ہی مزدور کا نوحہ بہتر انداز میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کراچی کی سڑکوں پر پتھر کوٹے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایک چھوٹا سا دعویٰ یہ خاکسار بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔یہ خود نمائی نہیں لبرل کے لیے ترغیب ہے کہ وہ بھی” تھیوری ایکسپرٹ” کے بجائے “پریکٹیکل” ہو جائیں۔۔۔۔چند سال پہلے ایک مسیحی خاندان دو برس کے لیے ہمارا ہمسایہ ٹھہرا۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے ان دو سال میں ان کو دو مرتبہ کرسمس پر کیک بھجوایا۔۔۔۔ان کے والد کے انتقال پر ان کے پاس جاکر ان سے اظہار افسوس کیا۔۔۔۔۔۔ان کی بیٹی کی منگنی پر اپنے رواج مطابق “سلامی”دی۔۔۔۔۔۔دو سال بعد جب وہ رخصت ہونے لگے تو ان کی بیٹیاں بچوں کی طرح رونے لگیں کہ ہمارا یہاں سے جانے کو دل نہیں کر رہا۔۔۔دعا کریں کہ ہمیں آگے بھی کوئی ایسا پڑوسی مل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے یاد ہے کہ میں اکثر ان کے بیٹے کے ساتھ مذہبی ہم آہنگی پر بات کرتا۔۔۔۔میں اسے بتاتا کہ قرآن مجید بھی کیا ہی معتدل کتاب ہے کہ اس میں کسی خاتون کے نام سے صرف ایک ہی سورت ہے اور وہ حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت مریم سے منسوب ہے۔۔۔۔میں اسے بتاتا کہ قرآن مجید میں جس پیغمبر کا اسم گرامی سب سے زیادہ مرتبہ آیا ہے وہ بھی حضرت عیسی السلام ہی ہیں۔۔۔۔۔۔

یہ بھی پڑھیں:جمہوری دور میں ایسا خوف کیونکر ممکن؟؟؟؟؟
میں نے کئی مہینے پہلے ایک غیر ملکی ٹی وی چینل کے پاکستان میں نمائندے سے سوال کیا کہ آپ لوگ کن خبروں پر فوکس کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے کہا کہ اقلیتوں پر۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ آپ سمجھتے ہیں کہ واقعی پاکستان میں اقلیتیں اتنی غیر محفوظ ہیں۔۔۔۔۔کہنے لگے نہیں۔۔۔۔۔میں نے کہا اپنے چینل کو حقائق بتایا کریں کہ یہ ملک کی عزت کا مسئلہ ہے تو وہ بات گول کر گئے۔۔۔۔۔میں نے کہا کہ میری سٹڈی کے مطابق ایک ہی اقلیت مغرب کا مسئلہ ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اقلیت ماننے کو ہی تیار نہیں۔۔۔وہ مقننہ کے متفقہ فیصلے کو مانتی ہے نہ ملک کے قانون کو۔۔۔۔۔یہی وہ آئین “شکن گروہ” ہےجو وطن عزیز کو ملک ملک بدنام کر رہا ہے۔۔۔میں نے کہا کہ مجھے لاہور رہتے تئیس سال بیت گئے ہیں ۔۔۔۔میں بریلوی ۔۔۔۔دیوبندی اور اہلحدیث مسلک کی مساجد میں اہتمام کے ساتھ نماز جمعہ پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔میں نے آج تک محراب و منبر سے مغرب کی اس پسندیدہ اقلیت کیخلاف ایک اشتعال انگیز جملہ نہیں سنا۔۔۔۔۔کسی خطیب اور امام کو اس اقلیت کا نام لیتے بھی نہیں دیکھا۔۔۔۔۔نہیں تو تین چار جمعے خود مختلف مساجد کا سروے کر کے دیکھ لیں۔۔۔۔۔۔انہوں نے میری بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ میرا تجربہ بھی یہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عہد ساز اخبار نویس جناب عباس اطہر نے اس “ممنوع گروہ” کے بارے میں حرف بہ حرف سچ لکھا تھا کہ عجب لوگ ہیں اسی قانون سے حقوق مانگتے ہیں جس کو قانون کو مانتے ہی نہیں۔۔۔۔۔۔مطلب یہ کہ حقوق لینے سے پہلے اس کتاب کا ماننا ضروری ہیں جس میں حقوق درج ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔بہر حال پروفیسر کلیان سنگھ کلیان سے مل کر اچھا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔اچھا ہوا کہ مجھے میرے سوال کا جواب بھی مل گیا۔۔۔۔۔

نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز مضمون نگار کی نگارشات سے متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں