ریڈ لائن

تحریر:بیرسٹر امجد ملک
اصول اور حق بات یہی ہےکہ9مئی کو جو ہوا وہ ناقابل برداشت ہے،اور نہیں ہونا چاہیے تھا۔ عوام اور فوج کا اعتماد کا رشتہ قائم رہنا چاہیے۔ دشمن پر پاک فوج کی ہیبت نفسیاتی برتری ہے۔اپوزیشن کے سیاستدان کب وہ ریڈ لائن کراس کرگئے اسکا محاسبہ ضروری ہے۔انکو کیوں پتہ نہیں چلا کہ یہ ریڈ لائن ہے اسکی جان کاری اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ قانون اپنا راستہ لے، سزا جزا بھی ہو اور سیاسی عمل کے زریعے نظر ثانی پر اجتماعی معافی ہی بہترین راستہ ہے۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرکے کسی ایک جماعت کو دوسری جماعت پر فوقیت دینا اور مصنوعی نشو و نما کرنا سابق چیف کا غلط اقدام تھا۔تمام سابق ڈائریکٹر جنرلز انٹیلیجنس بھی اس گناہ میں برابر کےشریک ہیں۔اب جبکہ ۹ مئی ہوچکا ہے ۱۲ مئی ۲۰۰۷ کی طرح اگر نتارا نہیں ہوتا تو مستقبل کا مئی ماضی کی نسبت تلخ ترین ہوگا۔ تمام زمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لیکر آئیں اور انصاف ہوتا ہوا نظر آنا چاہیے۔ قانونی عمل کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل عوام کے شدید اضطراب میں کمی لا سکتا ہے۔ حقیقی حزب اختلاف کاکردارہی حکومت کیطرف پیش قدمی ہوتاہے۔ عمران خان کو اسمبلیاں توڑ کر دھکہ دینے والے نادان دوستوں کیطرف توجہ کرنا چاہیےتھی۔انکو حکومت جانے پر دل کو لگانے کی بجائے شیڈو کابینہ بنا کر انتخاب تک صبر کرنا چاہیے تھا اور سیاستدانوں کیساتھ مکالمہ کرنا چاہیے تھا۔سیاستدان ہی انکی کلاس تھی لیکن وہ جلد بازی میں ریٹائرڈ فوجیوں کے گھوڑے پر سوار تھے۔ سیاست میں بردباری اور برداشت اور مکالمہ سازی کی صلاحیت ہی جمہوریت کی اساس اور یہی میثاق جمہوریت کی اصل روح ہے۔ عمران خان بے صبرے نکلے اور ریٹائرڈ ملازمت کی تلاش میں سرکرادں افسران کے ہاتھوں کھیل گئے اور منفی سیاست کرتےکرتے اتنا آگے چلے گئے کہ ملکی سلامتی کو داؤ پر لگا بیٹھے، ریڈ لائن کراس کی۔دشمن نے ٹھٹھے اڑائے،اب جبکہ وقت جاچکا ہے، سب جان چکے کہ ریڈ لائن پاکستان ہےعمران خان نہیں۔ تنقید نگار فوج کے سیاسی کردار پر تنقید کریں۔ ضرور کریں۔ فوج کے آر ٹی ایس بٹھانے پر تنقید کریں، فوج کے عدالتی کردار پر تنقید کریں آپ عدالتوں کی پشت پناہی پر بھٹو اور نوازشریف کو پھانسی گھاٹ پہچانے اور جلا وطن کرنے پر تنقید کریں لیکن آپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ آپ شہداء کی بےحرمتی کریں غازیوں کی تذلیل کریں دفاعی املاک کو جلائیں فوجی گاڑیوں پر پتھراؤ کریں۔ ہم نے یہی سنا اور سیکھا ہے کہ شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔شہید اپنا آج ہماری قوم کے کل پر قربان کرتا ہے۔ آپ کچھ اور نہیں کرسکتے تو انکی قربانی کی قدر کریں, عزت کریں اور یہ باور کروائیں کہ انکی قربانی رائیگاں نہیں گئی ۔؀اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں۔ اب لوگ ہول سیل میں تحریک انصاف سے دستبرداری کا اعلان کررہے ہیں۔ باجکو نے دھرنے بھرے،پھر اقتدار لیکر دیا۔جب عمران خان سے ہاتھ اٹھایا، توسیع تو لے لی لیکن منہ موڑنے کا سوداریٹائرڈ افسران انکے بیوی بچوں اور حمائیتیوں کو نہیں بیچا، انکو اعتماد میں لینا چاہیے تھا کہ انکا مسیحا ایک جوکر نکلا۔دھرنے والے کھڑے رہ گئے ماسٹر مائینڈ ڈیل کرکے بھاگ گیا۔حافظ صاحب تو بھل صفائی کررہے ہیں۔ تحریک انصاف کے لیڈران اب ملک تباہ کرکے ڈوبتے جہاز سےچھلانگیں مار رہے ہیں ۔ نہ نظریہ نہ لیڈر نہ ویژن نہ منصوبہ بندی نہ ٹیم اور نہ ہی تجربہ ۔بارہ سال پہلے کہا تھا کہ یہ مسیحا نہیں ایک سیاسی جوکر ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے صحیح کہا تھا کھلاڑی کھیل کھیلے سیاست اسکے بس کا روگ نہیں ۔آصف زرداری نے انہیں سیاسی پارٹی سمجھنے اور مولانا فضل الرحمن نے ان سے مکالمہ کرنے سے بھی انکار کیا تھا۔ انکی باتیں آج حرف بحرف سچ ثابت ہورہی ہیں ۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ ؀ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے ، اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے نواز شریف کو داد دینی چاہیے بردباری سے مشرف / باجوہ کا مقابلہ کیا، ایک جینیریشن کے ساتھ نبھائی،اگلی جینیریشن کو آگے لاکرووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا،ایک بھی لیڈر دوران مشقت چھوڑ کر نہیں گیا۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کو ناحق کئی مہینوں جیل میں رکھا صرف انتقام لینے کے لئے صرف ملک و قوم کی خدمت کرنے کی سزا دی گئی جیل میں حراساں کیا گیا لیکن مسلم لیگ ن کی قیادت نے بہادری سے مشکل وقت کا مقابلہ کیا۔ ان بہادر سیاستدانوں کو مت بھولنا چاہیے جیسا کہ شاھد خاقان،احسن اقبال،خواجہ سعد،خواجہ آصف، طلال چوہدری،رانا ثنا اللہ،دانیال عزیز، حنیف عباسی، نہال ھاشمی مفتاح اسماعیل ، قمر الاسلام ، احد چیمہ کسی نے بھی جیل کے خوف سے پارٹی نہیں چھوڑی۔ محکمہ زراعت پٹِ مری لوگ جڑے رہے۔جب لیڈر نظریہ ٹیم&تجربہ نہ رکھتا ہو تویہی حال ہوتا ہے۔آج مسلم لیگی اپنی جماعت/ قائدین پر فخر کریں ۔فصلی بٹیرےجہاز کی واپسی کے ساتھ ساتھ اسی رفتار سے واپس جا رہے ہیں ۔اب پاکستان سیزن اور سیریس لیڈرشپ کے ہاتھ میں ہے۔ پاکستان ایک سانحے تقسیم اور بغاوت سے بچا ہے۔ آگے بھی اللہ نگہبان ہے۔ ابھی بھی لیڈر وہی ہےاور نعرہ وہی ہے ووٹ کو عزت دو۔ جناح ہاؤس،کورکمانڈر ہاؤس جلانےوالے،کرنل شیرخان کے یاد گاری مجسمے کو توڑنےوالے،یادگارِشہداء کی تضحیک کرنےوالے،ریڈیو پاکستان & املاک کو نقصان پہنچانےوالےبلوائیوں کی سبکی طرف سے مذمت ہونی چاہیے۔سیاست کوسلامتی سے علیحدہ رکھیں ۔جناح ہاؤس جلانے کےمقدمے کی عدالت جناح ہاؤس میں لگنی چاہیے۔ نو مئی کا سانحہ حق اظہارِ رائے و احتجاج نہيں بلکہ رياست پاکستان کی سالميت پر حملہ اور جنگ مُسلط کرنے کے مترادف ہے اس لئے اس کو اُسی تناظر ميں ديکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے، پاکستان کی مقتدرہ کو وطن عزيز کے کُھلے اور پوشيدہ دُشمنوں سے نبٹنے کے لئے تمام وسائل بروئے کار لانے چاہئيں اور انصاف کرنا چاہیے چاہے آسمان کیوں نہ سر پر گر پڑے۔ تشدد اور نفرت کو کہیں بھی مسترد کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ناقص سیاسی عمل ہے۔ برطانیہ آزادی اظہار اور سیاسی سرگرمیوں کی آزادی فراہم کرتا ہے۔ اس طرح کی پرتشدد زبانی کاروائیاں برطانیہ کی دی گئی سہولت کا غلط استعمال ہے۔ شہریوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان پر بہت سی ذمہ داریاں بھی ہیں، جب سیاسی فائدے کے لیے تشدد کی بات آتی ہے تو غیر ملکیوں کو احتیاط اور تحمل کا خیال رکھنا چاہیے۔نسلی منافرت اور سیاسی تشدد پر اکسانا ایک مجرمانہ فعل اور جرم ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن کو اس دھمکی آمیز مجرمانہ گالم گلوچ کو باضابطہ طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو رپورٹ کرنا چاہیے ۔ وزیراعظم پاکستان اوروزراء اور افسران اکثر اپنے قائد سے ملاقاتوں کے لیے اس رہائش گاہ پر پاکستان سے لندن آتے ہیں اور بلوائیوں کی طرف سے جناح ہاؤس کی آتشزدگی جیسا طرزعمل برطانیہ میں پاکستان اور پاکستانیوں کا نام داغدار کردے گا۔ انصاف وہ جو ہوتا نظر آئے۔جبتکہ ادارے اپنی اپنی حدود میں واپس نہیں جاتے اور اسٹیبلشمنٹ اپنے مصنوعی تجربات نہیں چھوڑتی، پارلیمان اور وزیراعظم بے بس رہیں گے۔ آئین پاکستان کو سلیبس کا حاصل بنانا ایک، لوگوں کے دلوں میں پارلیمان کی عزت پیدا کرنا اور ووٹ کی عزت بنانا دوسرا اہم قدم ہے۔ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب ہم ایٹمی سپر پاور کیساتھ معاشی سپر پاور بھی بنیں گے ۔اسکے لئے اہل اقتدار کو دانش مندی دکھانا ہوگی۔ فوج کو سیاست میں ملوث کرکے کسی ایک جماعت کو دوسری جماعت پر فوقیت دینا اور مصنوعی نشو و نما کرنا سابق چیف کا غلط اقدام تھا۔تمام سابق ڈائریکٹر جنرلز انٹیلیجنس بھی اس گناہ میں برابر کےشریک ہیں۔اب جبکہ ۹ مئی ۲۰۲۳ ہوچکا ہے اور ۱۲ مئی ۲۰۰۷ کی طرح اگر اسکا قانونی نتارہ نہیں ہوتا تو اب ڈر اتر چکا ہے اور مستقبل کا یوم مئی ماضی کی نسبت تلخ ترین ہوگا۔ تمام زمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لانا اور شفاف ٹرائل کے بعد قرار واقعی سزا دینا جہاں انصاف ہوتا ہوا نظر آئے وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے حادثات سے بچنے کیلئے ہمیں کھلاڑیوں کیساتھ مصنوعی تجربات سے گریز کرنا ہوگا اور اپنے آئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جمہوری نظام کو تسلسل دینا ہوگا ، نظم و نسق بہتر کرنا ہوگا اور سیریس سیاستدانوں کو لیڈرشپ کو موقع دینا ہوگا۔امید ہے مستقبل میں ایسا ہی ہوگا۔ امجد ملک ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائرز (برطانیہ) کے چیئر مین ہیں جو سال 2000 کے انسانی حقوق کے نوجوان وکیل ایوارڑ کے وصول کنندہ ہیں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اعزازی رکن ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں