سیاسی منظر نامہ اور حزب اختلاف کون؟

تحریر: کامران اشرف

سیاسی کھیل ایسا شروع ہوا کہ کھیل سیاست کے کھلاڑیوں کے ہاتھ سے سرکتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے۔ گزشتہ ایک سال سے پاکستان میں سیاسی عدم استحکام میں حزب اختلاف کی جماعت نظر نہیں آرہی۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجہ ریاض ہیں مگر وہ اس طرح خاموش ہیں کہ ان کے کیا ہی کہنے۔ ق لیگ دو حصوں میں بٹی ایک طرف وفاق میں پی ڈی ایم کی حکومت کی اتحادی تھی تو دوسری طرف پنجاب میں پی ٹی آئی کے ساتھ ایسا اتحاد کہ دس سیٹوں والی پارٹی وزیر اعلیٰ بنوانے میں کامیاب ہو گئی۔ حکومت اور حزب اختلاف کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا مگر یہاں حزب اختلاف کی سمجھ نہیں آرہی کہاں ہے؟ آج ن لیگ کا وزیراعظم پیپلز پارٹی کا سربراہ وزیر خارجہ اور وفاقی حکومت کے اتحادی ہیں۔ دوسری طرف سندھ میں بھی پیپلز پارٹی برسراقتدار ہے۔ پاکستان کی مقبول ترین پارٹی کے دعوے دار تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختون خوا میں حکومت ختم کرکے دونوں صوبوں میں انتخابات کے بعد دوبارہ حکومت قائم کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت موجود ہے اور صدر پاکستان بھی تحریک انصاف کے ہیں۔ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی سمیت پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی طور پر کسی نہ کسی جگہ حکومت کا حصہ ہیں۔ مگر افسوس اس بات کی ہے کہ تمام جماعتیں اپنی اپنی حکومتوں کو مستحکم نہیں کرسکی۔ عوام کو کسی جگہ بھی ریلیف نہیں دیاگیا۔ چاک و چوبند پروٹوکول سے لیس دستے ہر وقت ان سیاسی سربراہان کے لئے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ میڈیا پر انہی کی اشکال نظر آتی ہے۔ اگر خاموش ہے تو صرف قائد حزب اختلاف آخر کیوں؟ دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ نواز کی چیف آرگنائزر مریم نواز کا کہنا ہے کہ یہ حکومت میری نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی بھی اس وقت خاموش ہے اور دبی دبی آوازیں آتی ہیں حکومت ہماری نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمان اس وقت پی ڈی ایم کے سربراہ ہیں اور حکومت کے امام ہیں اور وہ بھی خاموش ہیں۔ مصطفٰی نواز کھوکھر، مفتاح اسماعیل، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ری امیجنگ پاکستان کے سلسلے میں کاوش و کوشش کررہے ہیں۔ ادھر سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے تو وہی ہر سیاسی جماعت میں ساڈا حق ایتھے رکھ کی ہلکی ہلکی سسکیاں بھی پھوٹ رہی ہیں۔ مگر ابھی تک کسی سیاسی جماعت کے لیڈر نے کھل کر نعرہ جمہوریت بلند نہیں کیا بلکہ اپنے موروثی قائد کے پیچھے کھڑے ہوکر ہی سسکیاں بلند کرتے ہیں۔ سیاسی میدان میں جمہوریت کی داعی جماعت اسلامی فلحال وہ واحد سیاسی جماعت ہیں جو قومی اسمبلی، سینیٹ آف پاکستان اور سڑکوں پر حزب اختلاف کا کردار ادا کررہی ہے۔ سینیٹر مشتاق احمدخان، مولانا عبدالاکبر چترالی فل ٹائم سیاستدان ہیں اور اپنے کام کے ساتھ مخلص ہیں۔ کراچی کے حقوق کے لئے حافظ نعیم الرحمان اور گوادر میں مولانا ہدایت الرحمان کی آواز کو دبایا جارہا ہے۔ قائد جماعت اسلامی سراج الحق عوامی مطالبات کے ساتھ سڑکوں پر ہیں۔ دلوں کے وزیراعظم تو بہت ہونگے مگر دلوں کے قائد حزب اختلاف بلا مبالغہ سراج الحق ہیں جو عوامی مطالبات کو لے کر ہمیشہ آواز بلند کررہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جب تک اپنے اندر جمہوریت اور حزب اختلاف کی روایت قائم نہیں کریں گی اس وقت تک ملک میں جاری کشمش اور بیان بازی سے چٹکارہ ممکن نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو الیکٹیبز کے ساتھ ساتھ مضبوط تنظیم اور تنظیمی ڈھانچے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، ڈیجیٹل میڈیا پر صرف اختلاف برائے اختلاف کی بجائے اختلاف برائے اصلاح کے تصور کو ابھارنا چاہیئے۔ شفاف انتخابات کے لئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اگلے انتخابات کے لئے قانون سازی کرنی چاہئے۔ اگلے انتخابات کو شفاف بنانے کے لئے الیکشن کمیشن اپنے اختیارات کو استعمال کرے اور اپنے وقار کو بحال کرے۔ تمام سٹیک ہولڈر آئندہ انتخابات کو شفاف بنانے میں تعاون کرے۔ نتائج تسلیم کرکے مستحکم جمہوری حکومت کو اگلے پانچ سال مکمل کرنے دیا جائے۔ ورنہ تمام جماعتیں حزب اختلاف میں ہونگی اور اقتدار پر کسی اور کا قبضہ ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں