جج صاحب ؀لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

بیرسٹر امجد ملک

مفاد عامہ میں ازخود نوٹسز ایک قانونی معاملہ ہے۔پاکستان میں پرائیویٹ جیلیں،ماورائے عدالت قتل،صحافیوں کا جبری اغواء اور قتل،سیاسی بنیادوں پر انتقامی کاروائی ہوتی رہی ہے وہاں ازخود نوٹس کا قانون رہنا چاہیے، اسکے استعمال پر چیک اینڈ بیلنس اور اپیل کاحق سپریم کورٹ کے معاملات میں شفافیت لائے گا- حکومت کو سپریم کورٹ میں پروسیجر ایکٹ کے زریعے شفافیت لانے کا قانون دیر آید درست آید کے مترادف ہے۔ چیف جج صاحب عوامی رائے اور سوشل میڈیا پر تنقید کی وجہ سے کچھ پریشان سے ہیں۔ جج اور جذبات دو مختلف چیزیں ہیں-جج جتنا خاموش رہے سائل اور انصاف کی فراہمی کیلئے اتنا ہی مفید ہے۔صرف جج نہیں بلکہ اسکے فیصلے بولنے چاہیے۔پاکستانی عدالتی تاریخ کمزوریوں اور ڈکٹیٹر کی ایماء پرنظریہ ضرورت کے تحت اتنی موشگافیاں تراشنے کیلئے مشہور ہے کہ خداکی پناہ ۔اب بھی ججز کو انصاف اور اصلاحات کا راستہ چنتے ہوئے خاموشی سے منزل پر نظر مرکوز رلھنا چاہیے اور راستے میں بھٹکنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جب عدالتیں الیکشن جیسے سیاسی سوالات پر دو آئینی اداروں کی بابت ماوارائے پارلیمان فیصلے صادر کرنے جارہے ہوں تو فل کورٹ انکو وہ کمک فراہم کرتا ہے جس سے معاشرتی تقسیم اور عوامی و قانونی حلقوں کی تنقید سے بچانا سکتا ہے۔ عام انتخابات الیکشن کمیشن کا مینڈیٹ ہے۔ پارلیمان کا فرض ہے کہ سپروائزر کرے۔ مفاد عامہ میں عدالت آکر مداخلت کرنا چاہتی ہے تو فل کورٹ ہی واحد راہ نجات ہے کیونکہ سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو گردی کی وجہ سے بحث جاری رہے گی اور مذید گہری ہوتی جائیگی جس سے ادارہ پہلے ہی پریشان ہے اب بدنام بھی ہوگا۔ ایک آفیسر آف دی کورٹ ہونے کے ناطے یہ ناقابل قبول توجیح ہے۔ پاکستان میں اس وقت نچلی سطح پر انصاف کی فراہمی کا نظام بےحد تضادات کا شکار ہے۰ موجودہ صورتحال انصاف میں تاخیر ، کرپشن ، جانبداری، غیر پیشہ روانہ رویوں اور انصاف کی راہ میں رکاوٹوں کی وجہ سے سول اور کرمنل دونوں شعبوں میں اصلاحات کی متقاضی ہے۔ تفتیش اور استغاثہ میں سیاسی مداخلت کے تاثر پر ازخود نوٹس لینا درحقیقت حکومت پر شب خون مارنے کےمترادف ہے۔ تاثر یہ بھی ہے کہ گذشتہ سالوں میں بین الاقومی رینکنگ میں عدلیہ کی کارکردگی اور ساکھ انڈیکس میں نیچے آئی ہے۔ اس پر فل کورٹ ریفرنس بنتا ہے تاکہ عام سائل کیلئے اصلاحات ہوں۔ مشکل فیصلے کرنا ہی سیاستدانوں کا کام ہے۔ جب اوکھلی میں سر دیا تو موصلوں کا کیا ڈر۔ اتحادی بیٹھ کرلسٹ بنائیں، فیصلہ کرکے اٹھیں، پھر ۹۰ دن میں کام کرکے دکھا دیں۔ اکثر جماعتوں کا اتحاد فیصلہ سازی میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔سٹاپ گیپ حکومت کے پاس اتنا ٹائم نہیں ہوتا کہ دائروں میں گھومے وزیراعظم تا حکم ثانی وزیراعظم رہیں گےجب تک علی احمد کرد،عرفان قادر اور مرحوم عاصمہ جہانگیر جیسے وکیل عدالت کو یہ نہیں بتائیں گے کہ ایک پارلیمنٹ ہوتی ہے،ایک انتظامیہ ہوتی ہے،ایک عدلیہ ہوتی ہے، سب ایک آئینی قائدے کے تحت اپنا اپنا کام کرتے ہیں اور عدالتیں اپنے فیصلوں کے زریعے بولتی ہیں۔ ‏عدالت اگر چاہتی ہےکہ فیصلوں کی عزت ہوتو عوام کےکیسوں پر جلد فیصلے کریں۔معنی خیز قانون سازی اور اصلاحات کیلئے تجاویز دیں۔سیاسی معاملات سے دور رہیں۔ازخود نوٹس ضرور لیں،لیکن متعلقہ ہائی کورٹ بھیجیں تاکہ کہ وہ فیصلہ کریں،سپریم کورٹ اپیل سن سکے ۔انصاف کریں تاکہ تاریخ آپکے ساتھ انصاف کرسکے ملزمان کی مجرمان میں عدالتی ٹرائیل کے زریعے تبدیلی کی شرح انتہائی کم ہے جسکی وجہ غیر معیاری تفتیش اور پراسیکیوشن کا علیحدہ نہ ہونا ہے اور ججز کی کمی کے ساتھ ساتھ ایک جج کے معیارات میں کمی اور جاری تربیت اور نچلی سطح پر عدالتی نظام کو زمانہ جدید کے خطوط پر آراستہ نہ کرنا ہے۔ سول نظام تو بیٹھتا محسوس ہوتا ہے کیونکہ مقدمات سول جج کی عدالت میں سالوں چلتے ہیں ۰ ہم نے انہیں کسی وقت کا پابند نہیں کیا ‘ اصلاحات کی دہائی ضرور دی لیکن پارلیمنٹ میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو نہ ہوسکی اور ہوئی بھی تو سیاسی مقاصد حائل آئے اور وہ نتیجہ خیز نہ ہوئی۔ قانون تو بحث کے بعد ہی بنتے ہیں اور تو اور لا اینڈ جسٹس کمیشن کے ذریعے عدالتی اکابرین نے بھی مشوروں سے اجتناب ہی برتا ہے۔ عدالتی بڑے بزرگ پچھتر سالوں میں مثالی برتاؤ اور زیادہ عرصہ غیر جانبدار رہنے سے قاصر رہے یا یوں کہیں انہیں رہنے نہیں دیا گیا اور انکے ساتھ ‘ یا ہمارے ساتھ ‘ اور ‘ یا ہمارے خلاف’ والا معاملہ رہا۔ نظام پے در پے ایک متفقہ سمت کا متلاشی رہا اور آئین ہونے کے باوجود اسکا تحفظ قومی کاز اور مقصد نہ بن سکا۔ رہی سہی کسر نیب نے پوری کردی۔ رضا ربانی صاحب نے بہت درست کہا ہے کہ کچھ دنوں سے سپریم کورٹ کی حالت انتہائی تشویشناک ھے لیکن ایک بات سب سن لیں جس نے جو بات بھی کرنی ہو وہ پارلیمان سے کرنی ہوگی،تمام اداروں کے مسئلے کا حل پارلیمان کہ پاس ھے، آپ لوگوں نے پارلیمان کو غیر مستحکم کرنے کی ہر کوشش کی لیکن اب سبھی اسی میں پناہ لینے کی کوشش کر رھے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف جو عدالتوں کے سلوک کی وجہ سے ایک متاثرہ فریق ہیں انہوں نے بھی سیاسی سوالات پر ایک فل کورٹ کا مطالبہ سامنے رکھا ہے۔ دیکھیں بلی گلے میں گھنٹی خود باندھتی ہے یا کوئی اور ہی آکر باندھے گا۔ یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ممکن ہے بس وسعت نظر ہونی چاہیے ، کشادگی دل گرچہ عنقا ہے۔ پاکستان بھر کی وکلاء برادری کے دیرینہ مطالبہ لائرز پروٹیکشن بل پاس کروانے پر جناب شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کا ملک کی ساری وکلاء برادری شکریہ ادا کرتی ہے- بیرسٹر امجد ملک بیرسٹر امجد ملک برطانوی وکلاء کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پاکستانی لائیرز کے چئیرمین ہیں اور برطانیہ میں انسانی حقوق کا سن ۲۰۰۰ کا بہترین وکیل کا ایوارڈ رکھتے ہیں اور وہ ہیومن رائیٹس کمیشن اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پاکستان کے تا حیات ممبر ہیں ۔ یکم اپریل ۲۰۲۳

اپنا تبصرہ بھیجیں