مہنگے لوگ بھی کتنے سستے ہوتے ہیں۔۔۔۔!!!

تحریر:امجد عثمانی
وطن عزیز میں ایک بار پھر توشہ خانہ کا ہنگامہ برپا ہے۔۔۔۔کچھ “گراں قدر”تو کچھ”انمول” تحائف کی بازگشت ہے۔۔۔۔عمران خان کے “گھڑی سکینڈل” کے بعد توشہ خانہ کی پٹاری سے “گھڑیاں ہی گھڑیاں”برآمد ہو رہی ہیں۔۔۔۔تحفوں کا 2002 سے 2023 تک،اکیس سالہ ریکارڈ،عام ہوا تو راز کھلا کہ ہر”چمکدار”چیز سونا نہیں ہوتی۔۔۔۔یہ بھید بھی آشکار ہوا کہ اپنے تئیں” مہنگے لوگ” کتنے ہی”سستے” ہوتے ہیں۔۔۔۔توشہ خانہ کی بہتی گنگا میں اشرافیہ نے صرف ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ خوب اشنان کیا ہے۔۔۔۔۔چشم فلک نے شاید ہی کسی معاشی بدحال ملک میں”مال مفت دل رحم”کا ایسا”ہوس ناک” منظر دیکھا ہو۔۔۔۔۔لاہور ہائی کورٹ نے توشہ خانہ کی انیس سو نوے سے دو ہزار ایک تک کی،فہرست بھی مانگ لی ہے جس سے نیا “پینڈورا باکس”کھلے گا اور کئی “پردہ نشین” بے نقاب ہونگے۔۔۔۔۔پاکستان کے ابھرتے ہوئے نیوز چینل پی این این کے نیوز شو “سوال تو ہوگا “کے اینکر پرسن جناب سید علی حیدر نے “توشہ خانہ قانون”پر کیا ہی”جاندار سوال”اٹھایا
ہے۔۔۔علی حیدر ٹی وی میزبانوں کے “ہجوم” میں ایک معتدل اور متمدن ٹی وی میزبان ہیں۔۔۔۔۔سنجیدہ اور فہمیدہ علی حیدر کے لہجے میں کمال توازن ہے۔۔۔۔۔آداب گفتگو سے بہرہ ور ہیں تو انداز گفتگو بھی دلکش ہے۔۔۔۔۔”اچھل کودیے” اینکرز کی بے ہنگم گفتگو کے برعکس خوب سوچ سوچ کر بولتے اور ان کے لفظ لفظ سے تہذیب جھلکتی ہے۔۔۔۔کسی سیاسی جماعت نہیں عوام کی زبان بولتے ہیں۔۔۔۔۔
سید علی حیدر نے اپنے تیرہ مارچ پیر کے پروگرام میں بتایا کہ اشرافیہ”منطق”پیش کرتی ہے کہ کسی ملک سے ملنے والے تحفے کی قیمت لگوا کر اس کا ایک حصہ ادا کر کے تحفہ اپنے پاس رکھ لینا غیر قانونی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایسا قانون بنایا ہی کیوں گیا جو اشرافیہ کو فائدہ دے۔۔۔کیا یہ قانون صرف اس بنیاد پر تسلیم کر لیا جائے کہ اسے اشرافیہ نے بنایا ہے۔۔۔؟؟اشرافیہ یہ قانون کیوں نہیں بناتی کہ ملنے والے سب تحفوں کی نیلامی کرائی جائے اور حاصل رقم عوام پر خرچ کی جائے،جیسے ہمسایہ ملک بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نےکیا اور اس وقت سے کر رہے ہیں جب وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ اقوام متحدہ کی دو ہزار اکیس کی رپورٹ کےمطابق پاکستان کی اشرافیہ سالانہ سترہ ارب ڈالرز کی مراعات لیتی ہے جبکہ پاکستا ن آئی ایم ایف سے صرف ایک ارب ڈالر لینے کے لیے ناک سے لکیریں نکال رہا ہے۔۔۔۔کارپوریٹ سیکٹر پانچ ارب ڈالر کی مراعات لیتا ہے جس میں ٹیکس چھوٹ،بجلی اور گیس پر سبسڈی شامل ہے۔۔۔۔صرف کابینہ اراکین کی تنخواہوں پر سالانہ دوسوارب روپے خرچ ہوتےہیں۔۔۔۔۔یہ تو صرف تنخواہیں ہیں۔۔اشرافیہ خود کو جو دیگر مراعات دیتی ہےوہ ان کےعلاوہ ہیں۔۔۔۔سرکاری افسروں کوتنخواہ کےساتھ ساتھ گھر،ملازمین اور الاونس ملتےہیں۔۔۔۔میڈیکل،گاڑی اور پیٹرول کی سہولت ملتی ہے۔۔۔بجلی ٹیلی فون اور گیس کی مد میں رعایت ملتی ہے۔۔۔۔فضائی سفر اور ریلوے سفر کےلیے رعایتی نرخوں پر ٹکٹس ملتےہیں۔۔۔۔یہاں تک کہ سیاست دانوں نے جرم کےبعد جیل جانا ہو تو وہاں بھی مراعات کےلیے قانون موجود ہے۔۔۔۔انہیں سیاسی قیدی قرار دے کر جیلوں میں بہتر سہولیات دی جاتی ہیں۔۔۔۔۔
اس کےعلاوہ جاگیر دار،زمین دار اور وڈیرے۔۔یا تو سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں یا سیاسی جماعتوں سے ان کےتعلقات ہیں۔۔اس تعلق کی بنیاد پر ہی وہ مراعات لے جاتےہیں۔۔۔۔ماہر معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق پورے ملک کی بائیس فیصد زرعی زمین،صرف ایک فیصد زمین داروں کے پاس ہے۔۔۔۔اس زمین سے وہ سالانہ بنیادوں پر نو سو ارب روپے آمدن حاصل کرتےہیں اور نو سو ارب روپے کی آمدن پر وہ صرف تین ارب روپے ٹیکس دیتے ہیں۔۔۔یوں اشرافیہ پاکستان کو سالانہ بنیادوں پر سترہ ارب ڈالر کی پڑ رہی ہے جبکہ اس کی بنائی پالیسیز سے حالات یہ ہیں کہ پاکستان کےاکتیس فیصد تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار ہیں اور سڑسٹھ فیصد نوجوان ملک چھوڑنا چاہتےہیں۔۔۔یہ لوگ ابھی تک کوئی ایسا سرکاری سکول نہیں بنا سکے۔۔جہاں ان کے اپنے بچے پڑھتے ہوں۔۔۔۔ابھی تک ایسا کوئی سرکاری ہسپتال نہیں بنا سکے۔۔جہاں خود بھی علاج کراتےہوں۔۔۔۔۔علی حیدر کا یہ پروگرام پاکستان کے عوام کا”نوحہ”ہے۔۔۔
حسن اتفاق دیکھیے کہ جس شب علی حیدر صاحب اشرافیہ کے”من گھڑت “توشہ خانہ قانون کیخلاف دہائی دے رہے تھے اسی رات لاہور کی معتبر دینی درسگاہ دارالعلوم جامعہ نعیمیہ نے بھی توشہ خانہ کے مروجہ قانون کوغیر شرعی قرار دیکر اپنے حصے کا کلمہ حق کہہ دیا۔۔۔۔۔یہ ایک سنجیدہ موضوع پر سنجیدہ فتویٰ ہے۔۔۔۔یہ ایک خود ساختہ
“پیر صاحب”کے ان پچاس مفتیان کرام کا فتویٰ نہیں جو ریوڑیوں کی طرح فتوے بانٹتے ہیں۔۔۔۔۔وہی مفتیان کرام جنہوں نے دو ہزار سولہ میں سستی شہرت کے لیے خواجہ سراﺅں سے شادی کا فتویٰ دے دیا تھا۔۔۔وہی فتوی جس پر ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمان نے اپنے ایک کالم میں ناگواری کا اظہار کیا تھا۔۔۔۔۔میں نے ان دنوں مذکورہ ” پیر صاحب” کو فون کیا اور پوچھا حضرت کیا آپ نے کسی خواجہ سرا کو اپنے” حرم “میں لے لیا ہے تو وہ کھسیانی ہنسی ہنس دیے۔۔۔
انیس سو چوہتر میں بنے توشہ خانہ قانون کیخلاف یہ فتویٰ ایک اعتدال پسند اور مستند عالم دین ڈاکٹر راغب نعیمی کی زیر سیادت مفتیان کرام نے دیا ہے جس کا لفظ لفظ درد دل کی غمازی کر رہا ہے۔۔۔۔
شرعی فتوی جاری کرنے والے مفتیان کرام میں شیخ الفقہ مفتی محمدعمران حنفی،مفتی محمدندیم قمر،مفتی محمدعارف حسین،مفتی فیصل ندیم شازلی شامل ہیں۔۔۔۔شرعی فتویٰ کے مطابق توشہ خانہ سے کم قیمت یا اپنی مرضی کے داموں پر اشیاء کو خریدنا شرعی لحاظ سے جائز نہیں۔۔۔۔۔احادیث مبارکہ کے مطابق حکومتی عہدے پر فائز شخص کو ملنے والا تحفہ اپنی ملکیت میں رکھنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے۔۔۔۔۔۔فتویٰ کے مطابق سربراہان مملکت،وزرا اور دیگرحکومتی سرکاری عہدیداروں کو غیر ملکی دوروں سے ملنے والے تحائف کو بیس یا پچاس فی صد رقم پر خرید نے کا قانون شرعاً درست نہیں۔۔۔۔۔مذکورہ افراد کو ملنے والے تحائف ان کی ملکیت نہیں ہوتے بلکہ یہ ریاست کی ملکیت ہوتے ہیں کیونکہ یہ تحائف انہیں ریاست کے سربراہ اور ذمہ دار ہونے کی حیثیت سے ملتے ہیں۔۔۔۔۔حکومتی عہدیداروں کا ان تحائف کو مفت یا بیس یا پچاس فیصد رقم ادا کرکے اپنے تصرف اور ملکیت میں لاناجائز نہیں۔۔۔۔اگر سربراہان و عہدیداران اپنی ملکیت میں لانا چاہیں تو ان کی مارکیٹ ویلیو کے مطابق پوری قیمت ادا کرنے کے بعد لا سکتے ہیں۔۔۔۔اس کا بہتر حل یہ ہے کہ ان تحائف کو نیلام کیا جائے اور نیلامی میں ہر خاص و عام کو شرکت کی اجازت ہو۔۔۔۔ اس نیلامی سے حاصل رقم کو قومی خزانے میں جمع کرایا جائے کہ یہ رقم ریاست کی ملکیت ہے۔۔۔۔فتوی کے مطابق سربراہان مملکت کو ملنے والے تحائف کو چھپانا بھی خیانت کے زمرے میں آتا ہے جس کی وعید حدیث مبارکہ میں آئی ہے۔۔۔۔ اگر کوئی حاکم یا حکومتی عہدہ دار اس تحفہ کو چھپا لے تو اس کا ایسا کرنا ناجائز و حرام اور قابل گرفت عمل ہے۔۔۔۔توشہ خانہ اشیا کو کم قیمت پر لینا بھی امانت میں خیانت کے مترادف ہے اورخیانت کرنے والے روز محشرجواب دہ ہوں گے۔۔۔۔۔
یہ عالم گیر اصول ہے کہ کسی بھی ملک کا توشہ خانہ کسی کی ذاتی جاگیر نہیں ریاست کی ملکیت ہوتا ہے۔۔۔۔۔کوئی سیکھنا چاہے تو جماعت اسلامی سے سیکھ سکتا یے۔۔۔۔یہ صدیوں پرانا نہیں سید منور حسن کے” زمانہ امارت” کا واقعہ ہے۔۔۔۔۔کہتے ہیں کہ منور حسن کی بیٹی کی شادی ہوئی۔۔۔۔جس میں ملک کی اہم ترین شخصیات شریک ہوئیں۔۔۔۔سونے کے سیٹس سمیت لاکھوں کے تحائف ملے۔۔۔۔تقریب ختم ہوئی تو منور حسن نے بیٹی سے کہا کہ اگر میں اس منصب پر نہ ہوتا تو مجھے یہ تحفے کبھی نہ ملتے۔۔۔۔یہ مجھے اور آپ نہیں،میرے منصب کو ملے ہیں۔۔۔۔ان پر حق بھی ہمارا نہیں،ہماری جماعت کا ہے اور پھر سارے تحفے بیت المال میں جمع کرادیے۔۔۔۔۔جماعت اسلامی کے سیکرٹری اطلاعات برادرم قیصر شریف نے بھی اس واقعہ کی تصدیق کی۔۔۔۔۔ڈاکٹر راغب نعیمی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ ملک میں بدترین معاشی بحران ہے لہذا توشہ خانہ سے مستفید سیاستدان اخلاقی طور پر اپنے تحائف یا ان کے عوض پیسے توشہ خانہ میں جمع کرادیں۔۔۔۔شنید ہے کہ وفاقی وزیر جناب احسن اقبال نے اپنے تحائف کے برابر رقم خزانے میں جمع کرادی ہے۔۔۔۔۔احسن صاحب کا یہ “احسن اقدام” ہے۔۔۔۔دیر آید درست آید۔۔۔۔۔!!!!!

اپنا تبصرہ بھیجیں