بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو نکھارنے کی تجاویز

تحریر:ندیم احمد اعوان

نیرنگ خیال نے کہا:
کسی خاص موضوع نہیں۔تخلیق ہر عمل میں تخلیق ہی رہتی ہے۔
ایک بندے کی اہلیت ہی عمومی موضوعات ہوں اور اس کی کوشش ہی اس میں ہو اور اس کا دعوی بھی اس میں ہو اور آپ اسے چیلنج خاص علوم پر کر دیں، یہ تو نا انصافی ہوئی نا لیکن ہم آپ پھر بھی آپ کو مایوس نہیں کریں گے :bighug:، آپ کا اصرار ہے تو ایک بات سنیں، آپ ، دس تو کیا ، مجھے کوئی بھی ایک کتاب دے دیں۔۔۔ میں آپ کو اس جیسی کتاب بنا کر دے سکتا ہوں،یقین کریں ہو بہو ہو گی۔جناب من،کوشش میں ہوں کہ ایک ایسا گوشہ نقلیات تخلیق کر سکوں،جو اسم با مسمی ہو یعنی جس کی بنیاد ہی نقل پر ہو،ویسے اس کی ضرورت ہے تو نہیں کہ پہلے ہی پورا معاشرہ بھرا پڑا ہے نقالوں سے،تخلیق کار تو بہت ہی کم ہیں،جو کام یا تصور مقبول ہو جائے اس کی نقل کے پیچھے پوری قوم بھاگ پڑتی ہے۔۔۔۔آپ کی نقل یا کسی اور کی ، نقل تو نقل ہوتی ہے۔۔۔کہ ہمارے ہاں تو اس کا سکوپ بھی زیادہ ہے،ذرائع آمدو رفت بھی نقل،امتحانوں میں بھی مفید،پرنٹنگ پریس میں بھی،تخلیقی صلاحیتوں سے مراد کسی انسان کی وہ صلاحیتیں ہیں جن کی بدولت وہ نئے نئے آئیڈیاز تخلیق کرتا ہے اور ان کی بنیاد پر عملی زندگی میں نئی نئی اختراعات کرتا ہے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ تخلیقی سوچ کی بالعموم حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ایک ماہر نفسیات کے الفاظ میں”ہمارے ہاں اس بچے یا فرد کو پسند کیا جاتا ہے جو فرمانبردار ہے،دوسروں کا ادب کرتا ہے،اپنا کام وقت پر مکمل کرتا ہے،اس کے ہم عصر اسے پسند کرتے ہیں اور جو دوسروں میں مقبول ہے۔اس کے مقابلے میں ہم ایسے بچوں کوپسند نہیں کرتے جو بہت زیادہ سوال پوچھتے ہیں،سوچنے اور فیصلہ کرنے میں خود مختار ہوتے ہیں،اپنے عقائد پر ڈٹے رہتے ہیں،کسی کام میں مگن رہتے ہیں اور کسی بااختیار شخص کی بات کو من و عن قبول نہیں کرتے۔۔۔۔پہلی قسم کے بچے کو ہم ”اچھا بچہ“کہتے ہیں اور دوسری قسم کے بچے کو ہم بدتمیز یا نافرمان بچہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔ہمارے تعلیمی ماحول میں بھی تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔اگر ایک بچہ امتحان میں کسی سوال کے جواب میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے تو اسے کم نمبر دیے جاتے ہیں۔۔۔ہمارے ٹی وی اور ریڈیو پر ذہنی آزمائش کے پروگرام سوچنے کی صلاحیت کی بجائے یادداشت کی آزمائش کرتے ہیں۔۔۔۔مذہبی تعلیم میں بھی قرآن کو حفظ کرنے پر زور دیا جاتا ہے لیکن اس کو سمجھ کر روزمرہ زندگی پراطلاق کرنے کی تربیت نہیں دی جاتی۔۔۔۔بچوں کو کامیابی حاصل کرنے اور اول آنے کی ترغیب دی جاتی ہے لیکن علم حاصل کرنے یا نئی باتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔۔۔۔ہم غلطیاں کرنے اور ان کا اقرار کرنے سے گھبراتے ہیں لیکن غلطیوں کے بغیر تخلیقی سوچ ناممکن ہے۔۔۔۔ہمارے یہاں اگر کچھ فنکاروں اور ان کی تخلیق کو اہمیت دیجاتی ہے تو اس عمل کو نظر انداز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کوئی تصویر،دھن وغیرہ کی تخلیق ہوئی ہے،یعنی تخلیق کے نتائج کو تو سراہا جاتا ہے لیکن اس محنت اور جدوجہد کو نظر انداز کیا جاتا ہے جسے تخلیقی عمل کہتے ہیں۔“ (رفیق جعفر،نفسیات ص 486-487 )
تخلیقی سوچ میں تین اہم عناصر ہوتے ہیں
(1) جدت؛
(2) کسی مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت ؛ اور

(3) کوئی قابل قدر مقصد حاصل کرنے کی صلاحیت۔
جدت سے مراد موجودہ یا روایتی انداز میںپائی جانے والی چیزوں،تصورات وغیرہ کو انفرادی انداز میں آپس میں ملانا یا نئےسرے سے ترتیب دینا ہے۔۔۔۔عقل مند انسان دوسروں کی غلطیوں سے سبق سیکھتا ہے اور بے وقوف اپنی غلطیوں سے بھی سبق نہیں سیکھتا۔لاطینی کہاوت۔۔۔دنیامیں جتنے تخلیقی کام کئے گئے ہیں،ان میں پرانی چیزوں یا تصورات کو نئے اندازمیں دیکھاگیا ہے۔مثلاً جب نیوٹن نے سیب کو گرتے ہوئے دیکھا تو یہ عمل نہ تو نیوٹن کے لئے اور نہ ہی کسی اور کے لئے انوکھا واقعہ تھا لیکن نیوٹن نے اس عمل کو ایک خاص انداز میں دیکھا،اسے نئے معنی دیے اور اس طرح کشش ثقل (Gravity) کا قانون دریافت کیا تاہم صرف جدت ہی کسی سوچ یا عمل کو تخلیقی نہیں بنا دیتی بلکہ اس میں مسائل کا حل بھی بہت ضروری ہے۔۔۔۔۔تخلیقی صلاحیتیں رکھنے والے افراد کی کچھ ایسی خصوصیات ہوتی ہیں جو انہیں دوسروں سےنمایاں کرتی ہیں۔ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے مطابق یہ لوگ انفرادیت پسند ہوتے ہیں اور روایتی سوچ اور کردار کے مقابلے میں اپنی ذات اور سوچ کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔۔۔۔یہ دوسروں پر کم انحصار کرتے ہیں۔۔۔اور اکثر معاملات میں خود مختار ہوتے ہیں۔۔۔حتی کہ ان کے جاننے والے انہیں ضدی اور سرکش قرار دے دیتے ہیں۔۔۔۔ان میں عموماً لوگوں کی خوشنودی حاصل کرنے کا احساس کم ہوتا ہے۔۔۔۔یہ مستقل مزاج ہوتے ہیں،جس کام میں دلچسپی لیتے ہیں، اسے تندہی سے کرتے ہیں اور ناکامیوں اورمشکلات سے نہیں گھبراتے۔۔۔۔اگر ان کے ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ بھی جائیں تو یہ ثابت قدم رہتے ہیں۔
تخلیقی افراد کی شخصیت
عام لوگ چیزوں میں سادگی، تسلسل اور ترتیب کو پسند کرتے ہیں ، ابہام اور تضاد سے دوربھاگتے ہیں اور خیالات کی توڑ پھوڑ سے گھبراتے ہیں۔ان کے برعکس تخلیقی افراد کی شخصیت میں بہت لچک ہوتی ہے۔وہ پیچیدہ،الجھی ہوئی،غیر متوازن اور نامکمل چیزوں میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔نئے نئے خیالات کو ٹٹولنے،انہیں توڑنے مروڑنے اورمختلف حل تلاش کرنے میں لطف محسوس کرتے ہیں۔وہ تخلیق شدہ چیزوں میں دلچسپی لینےکی بجائے تخلیقی عمل میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔یہ اپنے خیالات میں پائی جانے والی شورش،عدم استحکام،پیچیدگی اور افراتفری سے نہیں گھبراتے۔یہ اپنی خوبیوں اور خامیوں سے عام لوگوں کی نسبت زیادہ آگاہ ہوتے ہیں۔یہ دوسروں کےعلاوہ خود کو بھی طنز و مزاح کا نشانہ بنانے سے نہیں ڈرتے۔ان کا گھریلو ماحول بالعموم مثبت ہوتا ہے۔گھریلو لڑائی جھگڑے بہت کم ہوتے ہیں۔والدین بچوں کو آزاد ماحول فراہم کرتے ہیں جس میں بچہ خود اپنے تجربات کے ذریعے ماحول سے آگاہی حاصل کرتا ہے۔یہ جن اداروں میںت علیم حاصل کرتے ہیں وہاں ماحول آمرانہ نہیں ہوتا بلکہ سوالات کرنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ استاد کا تعلق بالعموم ان سے دوستانہ ہوتا ہے اور تخلیقی صلاحیتوں کو نشوونما دی جاتی ہے۔
ان معلومات کی روشنی میں خود میں تخلیقی صلاحیتوں کی نشوونما کے لئے کچھ باتوں کاخیال رکھنا ضروری ہے۔ اپنے فکر پر کبھی پہرے نہ بٹھائیے۔ اگر آپ کے ذہن میں کوئی سوال پیدا ہو تو اسے محض شیطانی وسوسہ سمجھ کر نظر انداز نہ کیجئے بلکہ اہل علم سے اس کا جواب مانگنے کی کوشش کیجئے۔ ذہن میں ایسے خیالات کو موجود رکھنے کی مشق کیجئے جو ایک دوسرے کے متضاد ہوں۔ متضاد،پیچیدہ،الجھی ہوئی اور نامکمل چیزوں اور خیالات سے نہ گھبرائیے۔ اپنے گھر اور اداروں میں ایسا ماحول پیدا کیجئے جوتخلیقی صلاحیتوں کو فروغ دے۔ اپنے اداروں میں ڈسپلن کے نام پر خواہ مخواہ تخلیقی صلاحیتوں کا گلا نہ گھونٹئے بلکہ نئے خیالات کو خوش آمدید کہئے۔
برین سٹارمنگ
تخلیقی سوچ کو فروغ دینے کے بہت سے طریقے دریافت ہو چکے ہیں۔ان میں ایک طریقہ برین سٹارمنگ (Brainstorming)ہے جس میں ایک گروپ کو کسی مسئلے کے زیادہ سے زیادہ حل تجویز کرنے کے لئے کہاجاتا ہے۔۔۔۔پہلے مرحلے میں اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ کوئی حل اچھا اور قابل عمل ہے یا نہیں۔۔۔۔اس کے نتیجے میں ہر شخص محض اس خوف سے خاموش نہیں رہتا کہ کہیں اس کا مذاق نہ اڑایا جائے یا اس کے خیال کو مسترد نہ کر دیا جائے۔۔۔۔ اگلے مرحلے پران تجاویز کے مثبت اور منفی پہلووں کا جائزہ لے کر ان میں سے اچھی تجاویز کاانتخاب کیا جاتا ہے۔۔۔۔اسی طرح گروپ کی صورت میں مختلف آئیڈیاز اور چیزوں پر غور وفکر کر کے کسی اقدام کے فوری اور دور رس نتائج کا اندازہ لگانے،کسی چیز کی وجوہاتا ور مقاصد پر غور و فکر کرنے،کسی کام کی پلاننگ کرنے،کسی مسئلے کے مختلف ممکنہ پہلووں میں کسی ایک کا انتخاب کرنے،متبادل راستے تلاش کرنے،فیصلے کرنے اور دوسروں کے نقطہ ہائے نظر کو سمجھنے سے تخلیقی سوچ نمو پذیر ہوتی ہے۔آپ بھی اپنےدوستوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے تھنک ٹینک بنا کر یہ کام کر سکتے ہیں۔۔۔۔۔
دین کے معاملے میں فکر و عمل یا تخلیقی ذہنیت
تخلیقی سوچ کے ضمن میں اس بات کا بھی خیال رہے کہ بعض لوگ دین کے معاملے میں فکر و عمل کی تمام حدود پھلانگ جاتے ہیں جو کہ درست نہیں جیسا کہ زمانہ قدیم میں فرقہ باطنیہ اور دور جدید میں بعض حلقوں نے دین کے بنیادی تصورات توحید،رسالت،آخرت،نماز،روزہ،حج اور زکوہ میں کئی ترامیم تجویز کی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے جو دین ہمیں عطا فرمایا ہے، اپنی creativityکو استعمال کر کے اس میں کوئی تبدیلی کرنا بالکل غلط ہے۔
حضورنبی اکرمﷺسے دین جس طرح ملا ہے اسے قبول کیجئے۔۔۔۔۔دین کے معاملے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کے استعمال کا اصل میدان دینی احکامات کو سمجھنا،دین کے فروغ کے لئے نئے نئے راستے تلاش کرنا اور زندگی میں دین پر عمل کرنے کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں سے نمٹنے کے قابل عمل طریق ہائے کار دریافت کرناہے۔اگر ہم دین ہی میں کوئی ترامیم کرنے لگ گئے تو دنیا میں بھی خائب و خاسر ہوں گے اور آخرت میں بھی ناکام و نامراد۔

یہ تحریر مصنف کی شخصیت یا اس کے مذہبی خیالات سے قطع نظر،اس اسلامی سوچ کے تحت شامل کی ہے کہ اچھی چیز جہاں سے ملے لے لو۔۔۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں