اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔۔۔!!

تحریر:امجد عثمانی


پچاسی وزیروں،مشیروں پر مشتمل گیارہ جماعتی اتحاد پی ڈی ایم کی شہباز حکومت” اکلوتی اپوزیشن پارٹی” تحریک انصاف سے ایک اور ضمنی معرکہ ہار گئی ہے۔۔۔راجن پورالیکشن میں پی ٹی آئی امیدوار محسن لغاری کی پینتیس ہزار ووٹوں کے بڑے مارجن سے فتح بے” لگام مہنگائی” کے منہ پر زوردار “طمانچہ” ہے۔۔۔سیاسی جماعتوں کے”کارکن”صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی اپنی” مجبوریاں” مگر “نوشتہ دیوار “یہی ہے۔۔۔۔”کڑوا سچ” بھی یہی ہے کہ مہنگائی سب سے بڑا بیانیہ تھا۔۔۔سب سے بڑا بیانیہ ہے اور سب سے بڑا بیانیہ رہے گا۔۔۔۔۔مہنگائی کے بازار میں ہو کا وہ عالم ہے کہ لوگ پناہ مانگ رہے ہیں۔ ۔ ۔ میں نے سال ہا سال سے بیرون ملک مقیم ایک عزیز سے “خیریت” پوچھی تو انہوں مہنگائی کے عنوان سے “حال دل”سنا دیا۔۔۔یہ لطیفہ نہیں واقعہ ہے۔۔۔۔۔اور یہ ایک گھر نہیں گھر گھر کی کہانی ہے۔۔۔ ۔ ۔ ۔ملک میں ایک ہی عوامی موضوع ہے اور وہ ہے مہنگائی۔۔۔۔!!!!
“سیاسی اشرافیہ” ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے جسے اندازہ ہی نہیں کہ ملک کی” افلاسیہ” کس حال میں ہے۔۔۔ایک سال پہلے انہی دنوں مجھے تب عمران خان کے “قصیدہ خواں” ایک رکن اسمبلی کے “جانشین” کا فون آیا کہ کیا خبریں ہیں۔۔۔۔میں نے کہا کہ مہنگائی آپ کے کپتان کی جان لے گئی ہے۔۔۔”فلسفہ”جھاڑنے لگے کہ مہنگائی نہیں یہ “ماسکو یاترا” کی سزا ہے۔۔۔میں نے کہا بھیا آٹھ نو سال سے آپ کی تو پانچوں گھی اور سر کڑاہی میں ہے۔۔۔آپ کیا جانیں کہ آٹا اور گھی کس بھاﺅ ہے۔۔۔۔جب کبھی ماضی کی طرح اپنی جیب سے “دال چاول” کھانے کازمانہ آئے گا تو پتہ چلے گا کہ”زندگی” کتنی مشکل ہوتی ہے۔۔۔وہ برا مان گئے۔۔۔”تبدیلی سرکار” کے زمانے میں لکھا تھا کہ وزیر اعظم جناب عمران خان کا قوم سے “حالیہ خطاب” ان دنوں گلی کوچے میں “موضوع بحث” ہے۔۔۔۔.بلا شبہ خان صاحب “تھیوری “بہت اچھی پیش کرتے ہیں مگر ہمارے ہاں بنیادی مسئلہ “پریکٹیکل “کا ہے۔۔۔۔ویسے بھی وزیر اعظم کوئی “لیکچرر” یا “موٹیویشنل سپیکر “نہیں ہوتا کہ مسحور کن تقریر کی،داد سمیٹی اور چل دیے ۔۔۔۔وہ ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور اسے مسائل “بیان” نہیں “حل” کرنے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔یقین مانیں عمران حکومت کے “ریاست مدینہ” کے نعرے میں بڑی “کشش” تھی مگر افسوس صد افسوس اس” حوالے” سے بات بھی “سیرت کے حوالوں” سے آگے نہ بڑھی۔۔۔۔کاش کوئی مذہبی وزیر اور مشیر ہی جان کی امان پاتے ہوئے اپنے کپتان کو بتاتا کہ “معاشی استحکام” ریاست مدینہ کا پہلا باب ہے۔۔۔۔
تحریک عدم اعتماد کے ہنگام بھی عرض کیا تھا کہ وزیر اعظم جناب عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کا “بگل” بچ چکا۔۔۔۔۔.” نو کانفیڈنس موشن” کے ذریعے حزب اختلاف فاتح ٹھہرتی یا حزب اقتدار مفتوح ہوتی ہے،یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر “کپتان” ان دنوں “وہی باتیں” کر رہے ہیں جو” عوام سے دور حکمران” عام طور پر اپنے اقتدار کے” آخری ایام “میں کرتے ہیں۔۔۔۔کوئی سر نہ پیر۔۔۔۔۔من گھڑت باتیں۔۔۔۔!!!!خان صاحب نے “نیوٹرل” کی “منفرد تشریح” کے بعد” اپنی سیاست” کی بھی” انوکھی منطق” پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ میں اس لیے نہیں آیا تھا کہ “آلو اور ٹماٹر” کی قیمت کا پتہ کروں۔۔۔
“سلطنت عمرانیہ “کی جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔۔اپنے عہد کے “بادشاہ سلامت” کے مہنگے ترین دور پر” طائرانہ نظر “ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف ایک چیز کا” گراف” اوپر گیا اور وہ ہے “مہنگائی کا طوفان”۔۔۔۔۔اعدادوشمار کے مطابق ساڑھے تین سال میں ڈالر کی قیمت 125 سے 180ہو گئی۔۔۔۔مہنگائی تاریخ کی بلند ترین 26 فیصد پر پہنچ گئی۔۔۔۔پٹرول کی قیمت 96 روپے سے 160 پر چلی گئی۔۔۔۔۔آٹا 35 روپے سے 100، چینی 52 سے 130 روپے کلو اور بجلی 11 روپے سے 26 روپے فی یونٹ ہو گئی۔۔۔۔گیس کی قیمت میں 100، ادویات کی قیمتوں میں 500 فیصد اضافہ، گھی 140 سے 440 روپے کلو جبکہ کھاد نایاب ہو گئی۔۔۔۔اور تو اور برائلر مرغی کا گوشت اور انڈہ بھی قیامت کی چال چل گیا۔۔۔۔۔شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو دنیا کا تیسرا مہنگا ترین ملک قرار دیا گیا۔۔۔۔۔۔عالی جاہ!آٹا،چینی،گھی مہنگا ہو جائے تو آپ کو فرق نہیں پڑتا۔۔۔۔۔گیس ،پٹرول اور بجلی کے نرخ اونچی اڑان بھریں تو آپ کو تشویش نہیں ہوتی۔۔۔۔باقی دوائیں تو اپنی جگہ “نایاب” مہنگی پیناڈول پیسے دیکر بھی نہ ملے تو آپ پھر بھی گہری نیند سو جاتے ہیں۔۔۔۔۔اب آپ نے ایک عوامی جلسے میں “ببانگ دہل” فرما دیا کہ” آلو اور ٹماٹر “کا بھاﺅ بھی آپ کا “سر درد “نہیں۔۔۔۔ظل سبحانی!اگر اتنے “بنیادی عوامی مسائل” بھی “آپ کا مسئلہ” نہیں تو پھر آپ کس لیے “کرسی اقتدار “پر بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔؟؟؟ظل سبحانی! آپ سسکتے بلکتے تڑپتے عوام کی “اشک شوئی” نہیں بھی کرسکتے تو پھر آپ کس “مرض کی دوا” ہیں؟؟؟
شہباز حکومت کے ابتدائی مہینوں میں بھی دہائی دی تھی کہ ۔۔۔۔عمران دور میں بھی مہنگائی بڑا مسئلہ تھا اور شہباز حکومت میں بھی مہنگائی بڑا چیلنج ہے۔۔۔۔۔۔اب تو تاریخ کی بدترین مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ ایک مزدور ایک وقت میں دو روٹیاں کھانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔۔بقول جناب انور مقصود! اس قدر مہنگائی میں صرف ریاضی کا استاد گذارہ کر سکتا ہے“ وہ روٹی کے ساتھ دال ،سبزی،گوشت اور سالن “فرض” کر لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔شرمناک بات یہ ہے کہ پی ڈی ایم نامی اتحاد مہنگائی مکاﺅ کے عنوان سے” یک نکاتی ایجنڈا” لیکر اقتدار میں آیا تھا مگر اب گیارہ جماعتوں کے یہ” انقلابی لیڈر” مہنگائی کے موضوع پر” آئیں بائیں شائیں” کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔سوال گندم ہوتا ہے اور جواب چنا دیتے ہیں۔۔۔۔مہنگائی کے مارے عوام کس سے شکوہ کریں کہ تب بھی” باتیں” ہی تھیں اور اب بھی “بھاشن” ہی ہیں۔۔۔۔۔پہلے بھی عرض کیا تھا کہ” لیکچرز” سے نظام حکومت چلتا تو پھر خان صاحب تو پورے “پروفیسر” ہیں اور ہینڈسم بھی۔۔۔۔۔۔مکرر عرض ہے کہ کپتان سے اپنی تخلیق کردہ” عمران سیریز”نہیں چلی تو میاں صاحب ان سے منسوب” قصے کہانیاں” کیسے بیچیں” گے۔۔۔۔۔۔دشنام طرازی سے کامیابی ملتی تو خان صاحب کامیاب ترین حکمران قرار پاتے۔۔۔۔۔۔۔لکھ لیجیے کہ بشری بی بی کا “تحفے والا ہار” اور فرح گوگی کا”کمرشل پلاٹ” نہیں مہنگائی اور صرف مہنگائی عوام کا مسئلہ ہے۔۔۔۔۔ایوان اقتدار میں بیٹھے عالی دماغوں کی غیر سنجیدگی دیکھیں کہ مفتاح اسماعیل صاحب ایسا “ذمہ دار عہدیدار “میڈیا کے سامنے مسکراتا اور مہنگائی سے چور چور عوام کے زخموں پر نمک چھڑک کر چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔کوئی “شہباز حکومت” کے” خوفناک وزیر خزانہ “کو بتائے کہ بھیا!عام انتخابات کا “نقارہ” بجنے والا ہے۔۔۔۔کبھی سوچا آپ اور آپ کے “تجربہ کار اتحادی”کس منہ سے سسکتے بلکتے عوام کے پاس جائینگے؟؟؟پھر وہی کاٹا جو بویا۔۔۔۔۔مفتاح اسماعیل کے زمانے میں پی ڈی ایم قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے تمام ضمنی الیکشن بری طرح ہار گئی۔۔۔۔۔۔اور تو اور ن لیگ کو اپنے گڑھ لاہور کی چار میں سے تین صوبائی نشستوں پر بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر مفتاح تو مفتوح ہوگئے۔۔۔۔اور معاشی جادو گر اسحاق ڈار کا زمانہ آگیا۔۔۔۔۔ مہنگائی کے باب میں یہ بدترین دور کہلائے گا۔۔اعدادوشمار کے مطابق ڈار کے زمانے میں مہنگائی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔۔۔۔۔ڈالر دو سو پینسٹھ اور۔۔۔۔۔پٹرول دو سو سر سٹھ روپے لٹر مل رہا ہے۔۔۔۔
ادارہ شماریات کے مطابق فروری 2022سے فروری 2023کے دوران ایک سال کے عرصے میں پیازکی قیمت میں 416 فیصد، چکن 96فیصد، انڈے 78فیصد اور چاول کی قیمت میں 77 فیصد اضافہ ہوا۔….چنا 65 فیصد، سگریٹ 60 فیصد ہوا۔….

چنا 65 فیصد، سگریٹ 60 فیصد، مونگ کی دال 56 فیصد، چنے کی دال 56فیصد، آٹا 56فیصد ،ماش کی دال 50.77فیصد اور خوردنی تیل 50.66 فیصد مہنگا ہوا۔۔۔۔بناسپتی گھی 45فیصد، تازہ پھل 45فیصد، تازہ دودھ 32فیصد، مسور کی دال27فیصد، مشروبات 24فیصد، آلو 22.42فیصد، مچھلی 21فیصد، گوشت 20.82فیصد اور سبزیاں 11.60فیصد مہنگی ہوگئیں۔۔۔۔ایک سال کے دوران درسی کتب کی قیمتوں میں 74فیصد، پیٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں 63فیصد، گیس کی قیمت میں 62فیصد، اسٹیشنری کی قیمت میں 61فیصد، صابن ڈٹرجنٹس اور ماچس کی قیمت میں 51.63فیصد اضافہ ہوا۔۔۔گاڑیوں کے پرزہ جات 38فیصد مہنگے ہوئے جبکہ ٹرانسپورٹ چارجز میں 33فیصد اضافہ ہوا۔۔۔۔کہہ لیں کہ عمران خان نے مہنگائی کی “بنیاد” رکھی تو شہباز شریف نے “ایمپائر” کھڑی کر دی۔۔۔
مکرر عرض ہے کہ عمران خان نہیں مہنگائی جیت رہی ہے جیسے عمران خان کے زمانے میں ڈسکہ الیکشن میں جیتی تھی۔۔۔۔ن لیگ کی “خودفریبی” دیکھیے کہ ایک کے بعد ایک شکست پر” بے مزہ” ہوئے بغیر گردان کر رہی ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا۔۔۔۔ پی ٹی آئی نے تو اپنی چھوڑی ہوئی نشستیں ہی جیتی ہیں۔۔۔۔سوال ہے کہ پھر لاہور میں کیا ہوا۔۔۔۔پھر اس طرح پی ٹی آئی دو ہزار اٹھارہ والی تمام نشستیں جیت گئی تو دو ہزار تئیس کے سیاسی منظر نامے میں تم کہاں کھڑے ہوگے۔۔۔ملک میں مہنگائی کا سونامی ہے اور مہنگائی مکاﺅ کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والے گیارہ جماعتی اتحاد کو اپنی اپنی کشتی پر “کنارے” لگنا ہے۔۔۔۔
جگر مراد آبادی نے کہا تھا!
یہ عشق نہیں آساں اتنا ہی سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
نوٹ:پاکستان ٹائم کا معزز کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں