جس کی لاٹھی اس کا بکرا

تحریر:اشتیاق احمد آتش
ناظرین کنفیوژ ہونے کی ضرورت نہیں،اصل ضرب المثل وہی ہے”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“لیکن اب کیا کیا جائے کہ ایک تو بھینس آجکل کافی بڑی اور مہنگی ہو گئی ہے اور غریب عوام،درمیانے عوام اور جابر طبقے میں سے بھی اب بھینس کو ہانکنا مشکل ہو رہا ہے۔اس لیئے ہم نے بات بکرے تک محدود کر کے اس محاورے کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے۔ورنہ کئی دوسرے محاوروں اور ضر ب المثال کی طرح یہ ضرب المثل بھی اردو زبان سے اس طرح گم ہو جاتی جس طرح”گدھے کے سر پر سینگ“جی جی مجھے معلوم ہے بکرا بھی اب غریب عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوتا جا رہا ہے لیکن چسکے لینے کیلئے ابھی چند سال تک ہم پاکستانی،کشمیری بکرا بکرا کھیل سکتے ہیں۔اس لیئے ہم موقع سے فائدہ اُتھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔اب خدارا آپ بیچ میں ٹانگ اڑا کر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی جسارت ہر گز نہ کریں۔اگر عوام کے اندر ایسی کوئی جرا¿ت رندانہ پیدا ہو ہی گئی ہے تو عوام اپنے غلط،اقربا پرورانہ،علاقہ پرستانہ،لالچ میں بہہ جانا اور خاندانوں کے دبا¶ میں آنا،جیسے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور عدلیہ سے عوامی نمائندوں کے خلاف حلقہ وائز عدم اعتماد کا حق مانگیں،اور اسی طرح کا آئین اور قانون مانگیں،جی جناب میں دیوانہ نہیں ہوں،مجھے معلوم ہے کہ آئین اور قانون بنانا اسمبلیوں کا استحقاق ہے مگر میں اندھا ہر گز نہیں ہوں۔میں دیکھ رہا ہوں کہ آجکل میرے وطن عزیز میں لوگ ہر چیز صرف اور صرف عدلیہ سے مانگ رہے ہیںاور جب ہمارے عیبی،غیبی،دیسی،پردیسی جمہوری و آمری جادوگر حکمران اور اسمبلیوں میں بیٹھے ھوئے دھنوان اپنا فرض ادا نہیں کرینگے اور دو وقت پیٹ بھر نے کیلئے ہمیں سخت محنت کے بعد بھی بھیک مانگنے اور نگر نگر مانگنے کی ترغیب و تعلیم دیتے ہوئے ہمیں اس کا عادی بلکہ ایڈکٹ بنا دیں گے تو ہم پھر اپنا حق حاصل کرنے کیلئے بھی مانگنے اور کورس میں گا کر مانگنے کا رستہ ہی اپنائیں گے۔اور دنیا میں تو ھم پہلے ہی بے توقیر ہوئے ہیں اپنی نظروں سے بھی گرتے چلے جائیں گے۔قارئین اب وقت آگیا ہے کہ ہم آئین وقانون(جس میں کثرت دور غلامی کی ہے)اور سارے اصول(رولز)بھی گورے آقا¶ں کی تقلید میں بنائے گئے ہیں سے انکار کر دیں۔ بلکہ پولیس رولز جو صبح شام ہم سب پر ڈھائے جاتے ہیں۔وہ تو کُلی طور پر انگریز بہادر کے غلاموں کو دبائے رکھنے کیلئے بنائے ہوئے ہیں۔لیکن ہم صبح و شام وہی کھاتے ”پیتے“اور ان میں ہی نہلائے اور بہلائے جاتے ہیں۔پھر بھی ہم آزادشہری کہلاتے ہیں اور: آزادانہ؛ ڈر اور خوف کی ہوا¶ں میں دندناتے ہیں۔اب معلوم نہیں ہم کیا کئے جاتے۔دنیا بھی برباد آخرت بھی تباہ کئے جاتے ہیں۔ایسے میں جب ہم استحصال،ظلم اور جبر کی بنیاد نہیں سمجھ پات تو مہنگائی کا رونا،ڈالر کی کہانی معیشت کا فسانہ سر شام ہی ھم آئی ایم ایف سے لوری کی صورت سننے بیٹھ جاتے ہیں پھر کبھی الیکشن مانگتے ہیں۔کبھی احتجاج کا سوچتے ہیں۔کبھی بیٹھے بیٹھے ایک دوسرے کا مُنہ نوچتے ہیںمگر اُٹھتے نہیں ہیں۔کچھ کرتے نہیں ہیں۔اٹھیں بھی کیسے بھوک ننگ اور افلاس کی وجہ سے کمزوری اور لاغر پن نے ہم سے قوت ارادی تک بھی چھین لی ہے اور ہمارے ہی حکمرانوں کے ذریعے غیروں کے پاس گروی رکھ دی ہوئی ہے۔اب رہ گیا قانون،تو وہ صرف اک جنون کی صورت باقی ہے جس کا ہم قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہاتھوں آئے روز شکار ہوتے رہتے ہیں۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اب کرنا کیاہے۔جینا ہے یا مرنا ہے۔کوئی لڑائی،احتجاج،بھاگ دوڑ کے بجائے آسان راستہ تو صرف”دھرنہ“ ھے۔ دھرنہ یعنی بیٹھ جانا‘لیٹ جانا،تو جناب لیٹے ہوئے تو ہم بہت پہلے سے ہیں۔اپنے سیاستدانوں کے سامنے بھی،بیوروکریسی کے سامنے بھی،یعنی جن پتھروں کو بھی ہم زباں دیتے ہیں۔وہ ہم پہ برستے ہیں۔ہمارے لہو کا مزا لیتے ہیں۔کیا اب وقت آنہیں گیا کہ ہم1973ءکے آئین کے بعد اپنے قوانین اور رولز بھی نئے آئین نئے دور نئی تہذیب کے مطابق بنا لیں۔کیا اب وقت آنہیں گیا کہ ہم انگریز آقا¶ں کے بنائے ہوئے سارے استحصالی رولز،قوانین سے انکار کر دیں۔کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ہم انگریز کے لکھے ہوئے ہر نشان غلامی کو مٹادیں۔ بولیں کیا اب بھی وقت آنہیں گیا کہ ہم انگریز کے لکھے ہوئے ہر نشان غلامی کو مٹاڈالیں۔کیا وقت آنہیں گیا کہ ہم ہر شہر میں جاری کردہ ریٹ لسٹ کو،ہر استحصالی نوٹیفکیشن کو،ہر دفہ چار سو بیس کو عدلیہ میں چیلنج کر دیں۔ہم ہر داروغہ شہر کے خلاف نالش کر دیں۔مگر اس کیلئے ہمیں بوٹ پالش کرنے،نیل پالش کرنے،کاسہ لیسی کرنے جھوٹی تعریف و تائید کرنے سے گریز کرنا ہو گا۔ میں اس وقت ڈالر،معیثت،تیل،بجلی اور گیس کی اوقات کسی کو تاد نہیں دلاتا۔صرف گاجر مولی اور ”گونگلو¶ں“سے مٹی جھاڑنے کی بات کرتا ہوں۔میں آپ کی پرائس کنٹرول کمیٹی کی بات نہیں کرتا۔مگر اس لسٹ کا روناضرور روتا ہوں جو دیسی سبزی 60روپے کلو فروخت کرنے کی بات کرتی ہے۔مگر منہ زور دیسی سبزی مانسہرہ راولپنڈی اور منگلا گجرات کی ملاوٹ کے باوجود100کی بکتی ہے۔اور اسی نسبت سے ہر سبزی اور فروٹ اور میں اس لُوٹ کی بات کرتا ہوں۔جو دن بھر پالک کڑم30روپے کی گڈی بیچتے ہیں اور شام کو سستی کر کے سو کی تین کی آواز لگا کر عوام کو کھلے عامدھوکہ دیتے اور لوٹتے ہیں ان سب کو اب ہمیں عدلیہ میں چیلنج کرنا ہو گا۔اور جو انصاف ہمیں ہمیشہ بروقت نہیں ملتا اس کو بھی چیلنج کرنا ہو گا۔عدل کو عدلیہ میں چیلنج کرنا ہو گا۔مگر۔۔قارئین۔اپنے دوغلے پن،اپنے جھوٹ فریب اور خود فریبی کو اپنی بزدلی کو ہم کہاں چیلنج کریں گے۔دیکھیں اب بھینس سے بکرا بننے کے بعد ضرب المثل کہیں ”جس کی لاٹھی اس کی مُرغی نہ بن جائے“اللہ نہ کرے۔
نوٹ:معزز کالم نگار کی آراءسے ”پاکستان ٹائم “ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں