لاہور (وقائع نگار):چیئرمین پنجاب ہائیر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا ہے کہ ملک میں سماجی و معاشی انصاف کی فراہمی کے بغیر قومی یکجہتی و ترقی ناممکن ہے۔ وہ پنجاب یونیورسٹی صغریٰ بیگم سنٹر فار ایجوکیشن پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ کے زیر اہتمام پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں کے تنقیدی جائزے‘ پرالرازی ہال میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کر رہے تھے۔ اس موقع پر وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود، پرو۔ ریکٹر سپیریئر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر محمد نظام الدین، چیئرمین شعبہ تاریخ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین، ڈائریکٹر صغریٰ بیگم سنٹر فار ایجوکیشن پالیسی اینڈ ڈویلپمنٹ ڈاکٹر سونیا عمر، فیکلٹی ممبران اور طلباو¿طالبات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اپنے خطاب میں ڈاکٹر شاہد منیر نے کہا کہ معاشی استحصال ہمارا بڑا اہم مسئلہ ہے اور تعلیم سمیت تمام مسائل کا حل معیشت کی بہتری میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سالمیت کا مسئلہ بھارت، کینیڈا، امریکہ میں کیوں نہیں؟ انہوں نے کہا کہ نصاب میں ہر چیز ڈالنے سے قومی سالمیت ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں صرف 13 فیصد نوجوان جامعات میں داخل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں صرف دو طبقات ہیں، امیر اور غریب، اگرلوگوں کے معاشی مسائل حل ہو جائیں تو قومی سالمیت جیسے مسائل حل ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں بچوں کے سکول سے باہر رہنے کی بڑی وجہ بھی غربت ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ رواں برس 2400 اساتذہ کو ٹریننگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سالمیت میں لیڈرشپ کا اہم کردار ہے۔ انہوں نے کہا کہ قومی سالمیت و ترقی کے لئے خواتین کو ہر شعبے میں آگے آنا ہو گا۔انہوں نے کہا کہ جامعات میں ایسی تحقیق کو فروغ دینے کی ضرورت ہے جس سے ملک کے قومی، معاشی و سماجی مسائل حل ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ روزگار کے مسائل حل کرنے کے لئے آئی ٹی کو ہر شعبے میں فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ طلباوطالبات میں اپنا کاروبار شروع کرنے کے رحجان کو فروغ دینے کے لئے اساتذہ کو کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ نوجوانوں میں مہارتیں پیدا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود نے کہا کہ تعلیمی پالیسیاں بنتی ہیں مگر ان پر عملدرآمد اصل مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیکھنے والی بات یہ ہے ملک میں تعلیم کتنی عام اور معیاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اڑھائی کروڑ بچے کسی سکول نہیں جا رہے جس کیلئے شعبہ تعلیم میں اعلیٰ معیار کو یقینی بنانے کیلئے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری سکول، کالجز کے بعد سرکاری یونیورسٹیوں کے حالات بھی خراب کئے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے لئے فنڈنگ کا مسئلہ پیدا کیا جا رہا ہے اور مسائل کا مداوا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن، نااہلی اورسفارش کا کلچر ہمیں تباہ کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی پالیسیوں پر عملدرآمد کر کے فوائد سمیٹنے کا وقت ہے۔
یہ بھی پڑھیں:الیکشن کمیشن کے اعلان پر تحفظات ،بلاول کا سی ای سی اجلاس بلانے کا فیصلہ
انہوں نے کہا کہ تعلیمی مسائل کو نظر انداز کرکے عدم برداشت اور انتہا پسندی بڑھ رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کے لئے تمام سٹیک ہولڈرز کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔ڈاکٹر نظام الدین نے کہا کہ کالجزکے حوالے سے تعلیمی پالیسیاں تاخیر سے بنی۔ انہوں نے کہا کہ سکول میں بچوں کو فیل کرنے کا رحجان ختم کرنا ہوگا اورسکول کی سطح پر نظام کے ڈھانچے میں تبدیلیاں ضروری ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ سکول نہ جانے والے بچوں کو ٹرانسپورٹ کا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بڑی مساجد کو ظہر سے پہلے پرائمری سکول کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر محبوب حسین نے کہاکہ ہمیں قومی سالمیت کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ نے تعلیمی پالیسیوں کے حوالے سے کردار ادا نہیں کیا اورنہ ہی بحث ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ پارلیمنٹ میں 5 پی ایچ ڈیز اور 102 فارن کوالیفائیڈ لوگ موجود تھے لیکن تعلیمی پالیسیوں کیلئے ٹیکنو کریٹس، ماہرین اور این جی اوز کی خدمات حاصل کی۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ پارلیمنٹ نے جلد بازی میں ایکٹ پاس کئے۔ انہوں نے قومی نصاب کی تشکیل میں زبان کے کردارکو اہم قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی و لسانی تقسیم قومی یکجہتی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی نصاب میں حقیقی تاریخ پڑھائی جانی چاہیے اور جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک ختم ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی پالیسیاں ترتیب دیتے وقت اساتذہ اور طلباءسے مشاورت نہیں کی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی وبیوروکریسی دخل اندازی سے یونیورسٹیاں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی پالیسی کے تسلسل کے لئے آل پارٹیز کانفرنس ہونی چاہیے۔ڈاکٹر سونیا عمر نے کہا کہ پاکستان کی تعلیمی ترقی کے لئے پنجاب یونیورسٹی اپنا کردار ادا کرتی رہے گی۔ انہوں نے شرکاءکا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ سیمینار کا مقصد تعلیم کے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہے