مولی کی پیدا وار،ماہرین نے کاشتکاروں کو اہم ہدایات جاری کر دیں

لاہور (نیوز ڈیسک)پنجاب میں مولی کا زیر کاشت رقبہ 6298 ہیکٹر اور پیداوار 116852 ٹن سے تجاوز کر گئی ہے جبکہ ماہرین سبزیات نے کاشتکاروں کو مولی کی 40 دن والی اگیتی قسم کی کاشت ماہ اگست کے دوران مکمل کرنے کی ہدایت کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:موسمیاتی تبدیلیوں کے چیلنج سے کیسے نمٹا جائے؟وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی نے بڑی مشکل آسان کر دی

شعبہ سبزیات ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے ماہرین زراعت نے بتایاکہ یہ قسم گرمی برداشت کرنے کے علاوہ 40 سے 55 دن کے دوران برداشت کے قابل ہوجاتی ہے۔انہوں نے بتایاکہ اگیتی مولی کی کاشت دریا،نہر یا راجباہ کے قریب زرخیز میرا زمینوں پر کریں تاکہ مولی کی جڑکی بڑھوتری زیادہ ہو اور اچھی کوالٹی کی فصل حاصل ہوسکے۔انہوں نے بتایاکہ مولی کی کاشت کے وقت منتخب کردہ کھیت کو ہموار کریں کیونکہ نیچی جگہوں پرپانی زیادہ کھڑا ہونے اور اونچی جگہوں پر کم پانی سے فصل کا اگاو اور بڑھوتری متاثر ہوتی ہے اور پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔انہوں نے کہاکہ کاشتکار زمین کی تیاری کے وقت ایک دفعہ گہرا ہل اور دو تین دفعہ عام ہل بمعہ سہاگہ چلائیں اور زمین کو نرم بھر بھرا تیار کرنے کیلئے ایک دفعہ روٹا ویٹر چلائیں۔انہوں نے کہاکہ زمین کی تیاری کے بعد اور کھیلیاں نکالنے سے پہلے ایک بوری ڈی اے پی اور ایک بوری سلفیٹ آف پوٹاش فی ایکڑ استعمال کی جائے کیونکہ پوٹا ش کی کھاد جڑ والی فصلوں کیلئے نہایت ضروری ہے۔

یہ بھی پڑھیں:وائس چانسلرز کانفرنس کا 24 نکاتی اعلامیہ جاری

مزید برآں یہ کھاد اگیتی مولی کو زیادہ درجہ حرارت اور گرمی کی شدت سے محفوظ رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ کاشتکار مولی کی فصل 60 سینٹی میٹر کی پٹڑیوں کے دونوں کناروں پر بذریعہ چوکا یا کیرا کریں اور اس مقصد کیلئے 3 سے 4 کلو گرام بیج فی ایکڑ استعمال کریں تاہم اگر بوائی بذریعہ چھٹہ کرنا مقصود ہو تو 4 سے 5 کلوگرام بیج میں سے آدھا بیج کھیت کی لمبائی کے رخ اور آدھا بیج کھیت کے چوڑائی کے رخ یکساں چھٹہ کر کے رجر کے ذریعے کھیلیاں بنائیں۔انہوں نے کہاکہ کاشتکار کھیلیاں نکالنے کے بعد کھیت کو ایک ایک کنال کے حصوں میں تقسیم کرلیں تاکہ پانی لگانے میں آسانی رہے اور وتر کھیلیوں میں برابر سطح پر رہے۔انہوں نے کہاکہ اگیتی کاشتہ مولی کو پہلا پانی بوائی کے فوراً بعد نہایت احتیاط سے اس طرح لگائیں کہ پانی کھیلیوں کی چوٹی سے نیچے رہے اور صرف وتر والی نمی بیج تک پہنچے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں