Prime Minister Shehbaz Sharif has said that Pakistan cannot achieve progress unless terrorism is eradicated from Khyber-Pakhtunkhwa (K-P) and Balochistan. Chairing a meeting on the security situation in Balochistan on Thursday, the prime minister was briefed by Chief Minister Sarfraz Bugti

جعفر ایکسپریس جیسے حملوں سے کیسے بچا جائے؟وزیر اعظم نے بہترین حل بتا دیا

کوئٹہ(بیورو رپورٹ)وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے جعفر ایکسپریس جیسے حملوں سے بچنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہم نے دہشت گردی کے ناسور کو ختم نہ کیا تو پھر پاکستان کے وجود کو خطرہ لگ سکتا ہے،اگر ہم نے دہشت گردوں کا صفایا نہ کیا تو امن ترقی اور خوش حالی کا سفر ابھی شروع ہوا ہے اس کو بریک لگ جائے گی،جب تک بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی اس وقت تک ملک میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔
”پاکستان ٹائم“کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف نے کوئٹہ میں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تین دن پہلے بولان میں دہشت گردوں نے ایک ٹرین جس میں 400 سے زائد پاکستانی سفر کر رہے تھے انہیں یرغمال بنایا اور متعدد کو شہید کر دیا،دہشت گردوں کو رمضان میں بچوں،خواتین اور بزرگوں کا ذرا بھی خیال نہیں آیا،ایسا واقعہ شاید پاکستان کی تاریخ میں کبھی پیش نہیں آیا اور اس ویرانے میں بے یار و مددگار مسافر بیٹھے ہوئے تھے جو عید منانے کے لیے پنجاب،خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں کی طرف جا رہے تھے،ان میں فوجی جوان بھی شامل تھے،سیکیورٹی فورسز نے 339 یرغمالیوں کو رہا کر دیا جبکہ 33 دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا،آج تو ہم نے ان بے رحم درندوں سے معصوم پاکستانیوں کی جان چھڑا لی مگر خدا نخواستہ پاکستان ہم سب کسی ایسے دوسرے حادثے کے متحمل نہیں ہو سکتے،اس کے لیے ہمیں سب کو مل کر حصہ ڈالنا ہے،بلوچستان کی حکومت،اکابرین،عوام،وفاقی حکومت اور سب کو مل کر اپنا حصہ ڈالنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی ترقی اور خوش حالی جب تک دیگر صوبوں کے ہم پلہ نہیں ہوگی تب تک پاکستان کی ترقی اور خوش حالی نہیں ہو گی،اسی طرح جب تک صوبہ کے پی اور بلوچستان میں دہشت گردی مکمل طور پر ختم نہیں ہو گی،پاکستان میں امن قائم نہیں ہو سکتا، 2018 میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو گیا تھا، 80 ہزار پاکستانیوں کی قربانی کا نذرانہ پیش کرنا پڑا اور 30 ارب ڈالر کی معیشت کو تباہ کن نقصان پہنچا،اس وقت نواز شریف وزیر اعظم تھے،فوج،پولیس،قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عوام کی قربانیوں سے یہ امن قائم ہوا تھا،دوبارہ اس دہشت گردی کے ناسور نے سر کیوں اٹھایا؟اس کا سر جو کچلا جاسکتا تھا،یہ وہ سوال ہے جو کئی بار اٹھا ہے،کسی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے بغیر یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ جو طالبان سے اپنے دل کا رشتہ جوڑنے اور بتانے میں تھکتے نہیں،انہوں نے ہزاروں طالبان کو دوبارہ چھوڑا یہاں تک کہ ایسے گھناونے کردار جو بالکل کالا چہرہ ہے ان کو بھی چھوڑا گیا۔وزیر اعظم نے کہا کہ اس وقت فوج کے جوان اور افسر خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں دن رات قربانیاں دے رہے ہیں اور وہ افسر اور جوان اپنے بچوں کو یتیم کرکے لاکھوں بچوں کو یتیم ہونے سے بچا رہے ہیں،سیکیورٹی فورسز کے جوان اور افسر اپنے خون اور قربانیوں سے لاکھوں ماوں کی گودیں خالی ہونے سے بچا رہے ہیں،قوم کے لیے اس سے بڑی قربانی اور کوئی قربانی نہیں ہو سکتی اور اگر ہم اس کا احترام نہیں کریں گے،اس کی تکریم نہیں کریں گے تو پھر دنیا اور آخرت میں بھی ہم جواب دہ ہوں گے۔

وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج ایک ایسا طبقہ جب بھی ایسا واقعہ ہوا کوئی موقع جانے نہیں دیتے،اب یہ واقعہ ہوا اس کے اوپر جس طرح کی گفتگو کی گئی وہ ایک لفظ بھی زبان پر نہیں لایا جاسکتا،ہمارے مشرق میں جو ملک ہے،اس نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ دشمنی کی ہے،انہوں نے کس طریقے سے ملک کے اندر بسنے والے،پاکستان کا کھانے والے جس طرح پاکستان کے خلاف زہر اگل رہے ہیں ان کو ہمسایہ ملک نے جس طرح پلیٹ فارم فراہم کیا،عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ گھس بیٹھیے ملک کے اندر دوست نما دشمن پاکستان کے خلاف،عوام کے خلاف اور فوج کے خلاف کس طرح دشمنی پر اتر آئے ہیں؟آج ہم جس مقام پر پہنچے ہیں،ایک جگہ پر دہشت گردی اور دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما کڑیل جوانوں کی قربانیاں اور دوسری طرف پاکستان کے اندر اور پاکستان کے باہر ان کا سنگین مذاق اڑایا جائے اور تضحیک کی جائے، اس سے بڑی ملک دشمنی اور کوئی ہو نہیں سکتی،پاکستان کے خلاف اس سے بڑا جرم کوئی اور نہیں ہو سکتا،یہ کسی کو لائسنس نہیں دیا جاسکتا کہ ہمارے جو جوان سرحدوں پر جا کر دشمن کو اڑا دیں اور خود گولی کھا کر قربانی دیں، ان کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کریں،یہ ناقابل قبول ہو گا اور اس کو برداشت نہیں کیا جائے گا،یہ قربانیاں بالکل رائیگاں نہیں جائیں گی،اگر ہم نے دہشت گردی کے ناسور کو ختم نہ کیا تو پھر پاکستان کے وجود کو خطرہ لگ سکتا ہے،اگر ہم نے دہشت گردوں کا صفایا نہ کیا تو امن ترقی اور خوش حالی کا سفر ابھی شروع ہوا ہے اس کو بریک لگ جائے گی۔

وزیر اعظم نے کہا کہ آج بھی ہم ہوش کے ناخن لیں،مزید دیر نہ ہو،جو ہو گیا وہ ہو گیا،اب ہمیں آگے بڑھنا ہے،اس سے سبق سیکھ کر ہم آگے کیسے بڑھ سکتے؟آج ہم سب یہاں بیٹھے ہیں،پورے پاکستان کی قیادت بیٹھے اور اپنی مسلح افواج کی قیادت کو بٹھا کر بات کریں گے کہ کیا کیا چیلنجز ہیں؟اس وقت قومی یکجہتی کی ضرورت ہے،جتنا ہم میں اتفاق ہو گا، اتنی دلیری سے افواج پاکستان ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرے گی،پہلے سے زیادہ قومی یکجہتی اور قومی اتحاد کی ضرورت ہے،ہم اپنی اپنی سیاست اور بات کرتے رہیں گے لیکن ایک معاملے پر ملک کو خوارج،فتنے اور دہشت گردی سے بچانے کے لیے یک جان دو قالب ہونا پڑے گا،اس معاملے پر مشورے کے ساتھ ایک میٹنگ بلائیں گے اور مشاورت سے اس ایک نکتے پر ٹیبل پر اکٹھے ہوں گے اور فیصلہ کریں گے،جس طرح 2014 میں پشاور میں ہم نے کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں